aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
عرفان صدیقی کا شمار اردو کے اُن شعرا میں ہوتاہے جنہوں نے تقسیم کے بعد ہوش سنبھالا۔ انہوں نے اس ذہنی اور جذباتی فضا کو جس میں برصغیر کے مسلمان سانس لے رہے تھے ، بڑی ہنر مندی کے ساتھ اپنی غزل کا موضوع بنایا۔ عرفان صدیقی کی شعری کائنات کافی وسیع ہے۔ حسن و عشق کے معاملات سے لے کر سانحۂ کربلا تک کے واقعات ان کی شاعری کا موضوع قرار پائے ہیں۔ کلاسیکی شعری روایات کو جدید ترین آہنگ شاعری کے امتزاج سے ایک نئی شعری ”بوطیقا“ مرتب کردی ہے۔"شہرملال"عرفان صدیقی کی کلیات ہے جس کو سید محمد اشرف نے ترتیب دیا ہے، اس سے قبل"دریا"کے نام سے بھی عرفان صدیقی کا کلیات شائع ہوا تھا جس میں عرفان صدیقی کا بہت سا کلام شامل نہیں تھا اور جس کلیات سے خود عرفان صدیقی بھی مطمئن نہیں تھے، چنانچہ اس کلیات میں سید محمد اشرف نے ان کے وہ شعری مجموعے بھی شامل کر دئے ہیں جو پہلے نہیں چھپ سکے تھے۔ساتھ ہی ساتھ عرفان صدیقی کی بیگم سے وہ غزلیں بھی لیکر شائع کیں جو اس سے پہلے کہیں بھی شائع نہیں ہوئیں تھیں،اس کلیات کے شروع میں مرتب نےعرفان صدیقی کےسوانحی حالات بھی بڑی تفصیل کے ساتھ پیش کئے ہیں۔
عرفان صدیقی 8 جنوری 1939ء میں اترپردیش کے شہر بدایوں میں پیدا ہوئے تھے۔ عرفان صدیقی کی ولادت ایک علمی خانوادہ میں ہوئی، جس میں مذہب اور شعر گوئی کی روایت کئی پشتوں سے چلی آرہی تھی۔ ان کے پردادا مولانا محمد انصار حسین حمیدی زلالی بدایونی شمس العلما خواجہ الطاف حسین حالی کے شاگرد تھے اور دادا مولوی اکرام احمد شاد صدیقی، مولانا سید علی احسن مارہروی کے شاگرد تھے۔ عرفان صدیقی کے والد مولوی سلمان احمد صدیقی ہلالی بدایونی ایک وکیل اور صاحب طرز ادیب و شاعر تھے۔ ان کی والدہ مرحومہ رابعہ خاتون کو بھی شعر و ادب سے خاص انسیت تھی اور خود شعر بھی کہتی تھیں۔ ان کے بڑے بھائی نیاز بدایونی بھی شاعر تھے۔ محشر بدایونی اور دلاورفگار ان کے قریبی رشتےدار تھے۔
عرفان صدیقی نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی وطن ضلع بدایوں کے محلہ ”سُوتھا“میں اپنے گھر میں حاصل کی۔ پھر کرسچین ہائر سکنڈری اسکول بدایوں سے میٹرک کا امتحان 1953ء میں پاس کیا۔ حافظ صدیق میسٹن اسلامیہ انٹر کالج بدایوں سے انٹر میڈیٹ، بریلی کالج بریلی سے1957ء میں بی۔اے اور 1959ء میں ایم۔اے کیا۔ انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ماس کمیونی کیشن سے صحافت کا ڈپلوما کیا۔ 1962ء میں حکومت ہند کے محکمہ اطلاعات و نشریات اور وزارت دفاع کے مختلف شعبوں میں اطلاعات، خبر نگاری اور رابطہ عامّہ کی مختلف ذمہ داریوں کو انجام دیتے رہے۔ ڈپٹی پرنسپل انفارمیشن افسر کے عہدے سے 1998ء میں وظیفہ یاب ہوئے اور لکھنو میں آخری دم تک قیام رہا۔
عرفان صدیقی کی شاعری کے پانچ مجموعے: کینوس، شبِ درمیاں، سات سماوات، عشق نامہ اور ہوائے دشت ماریہ کے نام سے شائع ہوئے۔ ان کی شاعری کی کلیات’دریا‘کے نام سے پاکستان میں اشاعت پذیر ہوئی۔ عرفان صدیقی ایک اچھے مترجم بھی تھے ۔ انہوں نے کالی داس کی ایک طویل نظم ’رت سنگھار‘اور کالی داس کے ڈرامے ’مالویکا اگنی متر‘ کا ترجمہ براہ راست سنسکرت سے اردو میں کیا تھا۔ اس کے علاوہ انہوں نے مراکش کے ادیب محمد شکری کے سوانحی ناول کا ترجمہ بھی کیا تھا۔ انہوں نے 1100ء سے 1850 ء تک کے اردو ادب کا ایک جامع انتخاب بھی کیا تھا۔ جو ساہتیہ اکیڈمی سے اشاعت پذیر ہوا۔ 1998 میں عرفان صدیقی کو اترپردیش کی حکومت نے میر اکادمی کا اعزاز عطا کیا تھا۔ 15 اپریل 2004 کو درمیانی شب میں لکھنؤ میں دنیا فانی سے کوچ کر گئے۔ نماز جمعہ کے بعد ان کی تدفین ڈالی گنج کے قبرستان میں ہوئی۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets