aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
پروفیسر محمد مجیب (1902 سے 1985 )ایک نامور مورخ، معلم، دانشور اورانگریزی اور اردو کے مصنف ہیں۔ وہ 1948 سے 1972 تک جامعہ کے ملیہ اسلامیہ کے وائس چانسلر رہے۔ شروع میں زیادہ تر انگریزی میں لکھتے تھے۔ ان کی انگریزی مطبوعات اردو سے کہیں زیادہ ہیں۔ لیکن جامعہ سے وابستہ ہونے کےبعدانھوں اردو میں بھی لکھنا شروع کیا اور جلد ہی اپنے اسلوب میں ایک انفرادیت پیدا کرلی۔ مجیب صاحب کے یہاں انگیزی نثر کی کئی اہم خصوصیات بڑی خوبی سے اردو نثر میں برتی گئی ہیں۔ انھیں ایک بڑےاور پھیلےہوئےعلم کے دریا کو چند الفاظ اور جملوں کے کوزے میں سمیٹنے کا فن آتا تھا۔ انھوں نے افسانہ، مضمون، ڈرامہ، تراجم غرض کہ نثر کی تمام اصناف کو اپنے خیالات کی ترسیل اور مقاصد کے تکمیل کا ذریعہ بنایا۔ تاریخ، تہذیب، فلسفۂ سیاسیات اور ادب سے متعلق ان کی متعدد کتابیں اور مضامین ہیں۔ لکھنوکے ایک متمول خاندان میں پیدا ہوئے سن 1965 میں انھیں پدم وبھوشن کا اعزاز ملا تھا۔
لکھنؤ کے ایک متمول خاندان میں پیدا ہوئے ان کےوالد محمد نسیم ایک مالدار بیرسٹر تھے۔ بارہ برس کی عمر تک انھوں نے لکھںو کے لوریٹو کانونٹ اسکول میں پڑھا، ایک سال ایک اسلامی اسکول میں پڑھے پھر دہرہ دون کے ایک پرائیوٹ اسکول میں بھیج دئیے گئے۔ اس اسکول کے انگریز پرنسپل مسٓٹر ڈالبی سے بہت متاثر تھے جو تھیوسوفسٹ تھے۔ 1918 میں سینئر کیمرج کا امتحان پاس کیا۔ 1922 میں آکسفورڈ سے تاریخ میں آنرس کی ڈگری لی، ،جرمنی میں پریس کا کام سیکھا ،جرمن اور روسی زبان پڑھی۔ جرمنی کے قیام کےدوارن ان کی دوستی ڈاکٹر ذاکر حیسن اور ڈاکٹر عابد حسین سے ہوئی جس نے ان کی زندگی کو ایک نیا رخ دے دیا۔ حکیم اجمل خاں اور ڈٓاکٹر انصاری کی درخواست پر ان تنیوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں، بہت کم تنخواہوں پر ملک و قوم کی خدمت کے پیش نظر کام کرنے کا تہیہ کرلیا اور 1926 میں ہندوستان واپس آکر دہلی میں جامعہ کی مختلف ذمہ داریاں سنبھالیں۔ یہ تینوں جامعہ کے ارکان ثلاثہ کہلاتے ہیں۔ مجیب صاحب تاریخ کے استاد تھے اور چند سال خازن کی ذمہ داری بھی سبنھالی۔ 1945 میں ان کی شادی لکھنؤ کے ایک معززخاندان کی بیٹی آصفہ خاتون سے ہوئی۔ ان کے ایک بیٹے کا جوانی میں انتقال ہوگیا تھا۔ دوسرے بیٹے محمد امین جواہرلال یونیورسٹی میں پروفیسر تھے۔ ان کے بڑے بھائ پروفیسر محمد حبیب بھی مورخ تھے جن کے بیٹے پروفیسر عرفان حبیب ہیں۔ 1975 میں مجیب صاحب بیمار ہوئے، دماغ کا آپریشن ہوا لیکن اس کے بعد وہ سب کچھ بھول گئے۔ روسی جرمن، فرنچ، انگریزی اور اردوسبھی زبانوں کے حروف تہجی تک یاد نہ رہے۔ انھوں نے از سر نو انگریزی سیکھنی شروع کی،تین چار برس کی کی محنت کے بعد انگریزی میں اپنی بائیو گرافی لکھی ،اردو دوبارہ سیکھنے میں مشکل ہوئی لیکن ہمت نہ ہاری اور اس میں بھی کامیاب ہوئے۔ بیماری کے بعد اردو میں ان کا پہلا مضمون ’میری دنیا میرا دین‘ تھا۔
پروفیسر مجیب کی کتابوں کی ایک طویل فہرست ہے جس سے ان کے متنوع ذوق اور بالیدہ ذہن کا اندازہ ہوتا ہے۔ انھوں نے تاریخی اور سماجی موضوعات پر ڈرامے بھی لکھے جس میں ’’خانہ جنگی‘‘ بہت اہم اور مشہور ہے جس کا پس منظر اورنگ زیب اور دارا شکوہ کی سیاسی جنگ ہےلیکن اصل میں یہ 1946 کے ہندوستان میں برپا خانہ جنگی، نفرت اور فساد پر ایک بصیرت آموز تبصرہ ہے۔ ’حبہ خاتون‘ ، ’ہیروئین کی تلاش‘، ’دوسری شام‘، ’آزمائش‘، ’کھیتی‘، اور ’انجام‘ ان کے دیگر ڈرامے ہیں جو جامعہ میں اسٹیج بھی کئے گئے۔ دو جلدوں پر مشتمل روسی ادب کی تاریخ پر ان کی کتاب ’’روسی ادب‘‘ ایک اہم تصنیف ہے۔ افسانوی مجموعہ ’’کیمیا گر‘‘ہے جس کی دو کہانیاں انھوں نےجرمنی میں انگیریزی میں لکھی تھیں،اس میں شامل دیگر کہانیاں جامعہ کے قیام کے دوران اردو میں لکھیں۔ ’’نگارشات‘‘ منتخب مضامین کا انتخاب ہے جو انھوں نے 1927 سے لے کر 1945 تک رسالہ ’’جامعہ‘‘ میں لکھے تھے۔ ’’ہندوستانی سماج پر اسلامی اثر اور دوسرے مضامین‘‘ کے نام سے محمد ذاکر سابق پروفیسر جامعہ ملیہ نے مجیب صاحب کے منتخب انگریزی مضامین کا ترجمہ شائع کیا ہے۔ ’’دنیاکی کہانی‘‘ ان کی ریڈیو کےلئے لکھی گئی تقریروں کا مجموعہ ہے۔ ’’ہماری آزادی‘‘ مولانا آزاد پر ان کی انگریزی کتاب اور اس کا اردو ترجمہ بھی ایک کتاب ہے۔ ان کی دیگر اردو تصانیف اوران کی انگریزی کتابوں کے اردو تراجم کی ایک طویل فہرست ہے: ’تاریخ تمدنِ ہند‘، ’تاریخ فلسفہ سیاسیات‘، ’تعلیم اور روایتی قدریں‘ ، ’غالب۔ منتخب کلام‘، ’سیاسی فلسفہ‘، ’’غالب ۔اردو کلام کا انتخاب‘‘ وغیرہ۔
Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25
Register for free