aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
محمد حسن عسکری معدودے چند ادیبوں میں سےہیں۔جنھوں نےاردو ادب کی آبیاری میں اہم کرداراداکیا۔وہ صف اول کےنقاد اورافسانہ نگار تھے۔انھوں نے تخلیقی عمل اوراسلوب کےلحاظ سے جو مضامین لکھے تھے۔ان ہی مضامین کو اس کتاب میں یکجاکیا گیا ہے۔اس کتاب میں شامل مضامین میں تاریخی شعور،ادبی روایت اور نئے ادیب،معروضیت اورذمہ داری،استعجاب اورادب،افادی ادب،تلفظ کا مسئلہ وغیرہ اہمیت کے حامل ہیں۔ان مضامین کے موضوعات آج بھی ادب میں زیربحث ہیں۔اس لیےیہ مضامین آج بھی اہمیت کےحامل ہیں۔
محمد حسن عسکری 5 نومبر 1919ء بلندشہر ضلع میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ ان کا تاریخی نام اظہارالحق تھا۔ ابتدائی تعلیم کے بعد 1940ء میں بی اے پاس کیا اور 1942ء میں الٰہ آباد یونیورسٹی سے ایم اے ہوئے۔ اس وقت اس یونیورسٹی میں کئی نامور لوگ تھے مثلاً ڈاکٹر عبدالستار صدیقی، ڈاکٹر تارا چند، امرناتھ جھا، ایشوری پرشاد، ستیش چنددیو وغیرہ۔ دیو محمد عسکری کو ان کی ذہانت کی بنا پر بہت عزیز رکھتے تھے۔ دلّی کے اینگلو عربک کالج میں تدریس کا آغاز کیا۔ انہیں الٰہ آباد یونیورسٹی میں لکچرر کی پیش کش کی گئی جسے انہوں نے قبول نہیں کیا۔ 1950ء میں اسلامیہ کالج میں پڑھانے لگے۔
محمد عسکری نے اپنے ادبی سفر کا آغاز افسانہ نگاری سے کیا۔ ان کا پہلا افسانہ جس کا عنوان تھا ’’کالج سے گھر تک‘‘ 1939ء میں شائع ہوا۔ 1945ء تک یہ سلسلہ جاری رہا اور کئی اچھے افسانے انہوں نے تخلیق کئے لیکن نہ جانے کیا وجہ ہوئی کہ ان کی ساری توجہ تنقید نگاری کی طرف مرکوز ہوگئی اور 1945ء کے بعد وہ افسانہ نگاری کی بجائے اپنے تنقیدی مضامین سے پڑھنے والوں کی توجہ کا مرکز بن گئے۔ ویسے انہوں نے ماہنامہ ’’ساقی‘‘ دہلی میں ’’جھلکیاں‘‘ کے عنوان سے کالم نگاری بھی کی تھی جس کے سبب ادبی حلقوں میں ان کی مزید پذیرائی ہوئی۔ 1947ء میں ترک وطن کے بعد وہ پاکستان چلے گئے اور لاہور میں قیام کیا۔ مکتبہ جدید کے لئے ترجمے کرتے رہے۔ انہوں نے منٹو کے ساتھ ’’اردو ادب‘‘ نام کا ایک رسالہ بھی شائع کیا جس کے دوشمارے ہی شائع ہوسکے۔
محمد حسن عسکری اردو تنقید کے معماروں میں سمجھے جاتے ہیں۔ ان کی حیثیت بحثیت نقاد قطعی منفرد ہے۔ یہ جس صف میں رکھے جاتے ہیں وہ صف کلیم الدین احمد یا آل احمد سرور کی ہے۔ آل احمد سرور کے سلسلے میں ایک اعتراض یہ ہوسکتا ہے کہ وہ محمد حسن عسکری کی صف کے نقاد نہیں تھے۔ لیکن میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ آل احمد سرور کے یہاں بھی کچھ ایسی سمتیں ہیں جو بیحد اہم ہیں۔
محمد حسن عسکری پر سب سے خطرناک اور طویل تنقید کلیم الدین احمد ہی کی ہے۔ ’’اردو تنقید پر ایک نظر‘‘ کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ کلیم الدین احمد اپنی تنقید سے محمد حسن عسکری کا ایک طرح سے مذاق اڑاتے ہیں اور ان کے تصورادب پر بھی ضرب لگاتے ہیں۔ وہ بار بار اس کا احساس دلاتے ہیں کہ عسکری نے غریب اردو والوں پر رعب جمانے کی کوشش کی ہے اور انگریزی اور فرانسیسی ادب سے اپنی معلومات کی تشہیر سے اپنا لوہا منوانے کی صورت پیدا کی ہے۔ کلیم الدین کی تنقید میں جھنجھلاہٹ زیادہ ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ محمد حسن عسکری کے علم و فضل کا بطلان کرنا چاہتے ہیں۔ مجھے تو یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ صرف اپنے آپ کو اس کا اہل سمجھتے تھے کہ مغربی ادبیات پر وہی لکھ سکتے ہیں، ہندوستان میں کوئی اور نہیں۔ لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا محمد حسن عسکری کی تحریروں کا وزن اور وقار بڑھتا گیا۔ اسے مغرب زدگی کہہ لیجئے لیکن یہ سچ ہے کہ انہوں نے اردو ادب کے آفاق کو وسیع کرنے میں خاصا رول انجام دیا۔ جدیدیت کی جو لہر 1960ء کے بعد اردو میں شروع ہوئی اس کی عقبی زمین میں محمد حسن عسکری ہی بنیاد رہے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ شمس الرحمٰن فاروقی اور کئی دوسروں نے اس تحریک کو باوزن بنانے میں اہم رول انجام دیئے ہیں۔ لیکن بنیادی مباحث عسکری کے یہاں ہی ملتے ہیں۔
ان کے تنقیدی مقالات کا مجموعہ ’’انسان اور آدمی‘‘1953ء میں شائع ہوا تھا۔ اس میں چودہ مضامین ہیں۔ کئی مضامین تکنیکی ہیں۔ مثلاً ہیئت یا نیرنگ نظر‘‘، ’’انسان اور آدمی‘‘، ’’فن برائے فن‘‘، ’’میر اور غزل نمبر(1)‘‘، ’’میر اور غزل نمبر (2)‘‘۔ دوسرے مضامین میں مارکسیت اور ادبی منصوبہ بندی اور ہمارا ادبی شعور اور مسلمان کی اہمیت مسلم ہے۔ انہوں نے منٹو کے وہ افسانے جو فسادات پر تھے ان کا خوبصورت تجزیہ کیا ہے اور غلام عباس کے افسانے پر ان کی تنقید بیحد وزنی ہے۔ فراق کی شاعری میں جس آواز کی انہوں نے نشاندہی کی ہے اس میں بھی ان کے وژن کا پتہ چلتا ہے۔ غرض یہ کہ پہلا مجموعہ ہی اس لائق تھا کہ اس پر لوگوں کی نگاہیں جاتیں اور اس کے محتویات کا خیر مقدم کیا جاتا۔ ٹھیک ہے کہ محمد حسن عسکری کی بہت سی رائیں آج قابل قبول نہیں خصوصاً مارکسیت کے سلسلے میں انہوں نے جو موقف قائم کیا تھا اس میں ترمیم و تنسیخ کی ضرورت آج کچھ زیادہ ہی محسوس کی جارہی ہے لیکن ادبی منصوبہ بندی پر جو ان کا نقطہ نظر ہے وہ بہت نمایاں اور اہم ہے۔ اس مجموعے کے بعد ہی 1963ء میں ’’ستارہ یا بادبان‘‘ یعنی دوسرا مجموعہ سامنے آیا۔ اس کے کئی مضامین ایسے ہیں جن پر کل بھی بحث ہورہی تھی اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ مثلاً یہ کہ تنقید کا فریضہ کیا ہے۔ ادب اور جذبات میں کیا رشتہ ہے۔ داخلیت کے کیف و کم کی تفہیم کیسے ممکن ہے۔ تنقید اور نفسیات کا باہمی رشتہ کیا ہے۔ استعارے کی کیا کارکردگی ہے یا اس کے خوف سے کیا مراد ہے۔ درد اور فنی تخلیق میں کیسی ہم آہنگی ہے وغیرہ وغیرہ۔ یہ وہ مباحث ہیں جو کتاب کی اشاعت کے بعد تفصیلی ادبی ڈسکورس کا باعث بنے۔ اس طرح ادبی مسائل کے دس مضامین اپنے آپ میں اہم سمجھے گئے۔
’’ستارہ یا بادبان‘‘ ہی کے دوسرے حصے میں اس زمانے کے اردو ادب کے بعض گوشوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ خصوصاً ایک تکنیکی بحث محاورے کے سلسلے میں ہے پھر ذیلی عنوان مطالعے کے تحت پانچ مضامین ہیں جنہیں نظرانداز نہیں کیاجاسکتا۔ بیسویں صدی اور مصوری کے ذیلی عنوان کے تحت کئی اہم امور نشان زد کئے گئے ہیں جس میں رومان کی زنجیر کے مباحث ایک خاص انداز کے ہیں۔ گویا ’’ستارہ یا بادبان‘‘ ادب کے فنی یا فکری مسائل کی کھتونی نہیں بلکہ وہ ادبی مسائل ہیں جن پر نئے انداز سے گہری روشنی ڈالی گئی ہے۔
تیسرا مجموعہ ’’وقت کی راگنی‘‘ سامنے آیا تو یہ اندازہ ہوا کہ محمد حسن عسکری کو شخصی ادبیات یا شخصی تجزیات سے دلچسپی تو ہے ہی لیکن بنیادی طور پر وہ شعریات کے احاطے میں داخل ہوکر نئے نکات سامنے لانا چاہتے ہیں۔ ایسے ہی مضامین میں ’’ایک تجرید سے دوسری تجرید تک‘‘، ’’ادب میں صفات کا استعمال‘‘، ’’ادب اور نئی دنیا‘‘ وغیرہ ہیں۔ اس میں کئی مضامین مغرب سے تعلق رکھتے ہیں۔ مثلاً ’’مغربی ادب کی آخری منزل‘‘، ’’جدید انگریزی شعرا‘‘، ’’جنگ عظیم دوم کے بعد برطانوی ادب‘‘، ’’جوئیس کا طرز تحریر‘‘، ’’فرانس کے ادبی حلقوں کی دو بحثیں‘‘، ’’بوددلیئر‘‘، ’’یورپ کے چند ذہنی رجحانات‘‘، ’’زید کے روزنامے کا ایک ورق‘‘ وغیرہ ہیں۔ یہ سب جھلکیاں کی سرخی کے تحت آئے ہیں۔ محسوس کیا جاسکتا ہے کہ مغرب کے حوالے میں محمد حسن عسکری فرانسیسی ادب پر خاصا زور صرف کرتے نظر آتے ہیں اور وہاں کی ادبی دنیا کی ایک جھلک دکھانے پر نہ صرف اصرار کرتے ہیں بلکہ اس کے رموز میں داخل ہونے کی تبلیغ کرتے ہیں۔ یہی وہ حصہ ہے جس پر کلیم الدین احمد سخت گرفت کرتے نظر آتے ہیں۔ لیکن میرا خیال ہے کہ عسکری کے بعد مغربی خصوصاً فرانسیسی ادبیات سے دلچسپی بڑھی اور کئی اہم فنکار جن کا تعلق فرانس سے تھا وہ اردو والوں کے خصوصی مطالعے کا سبب بنے۔
اب اس حوالے سے محمد حسن عسکری کی تحریریں دراصل جدیدیت کی تحریک کی بنیاد بن جاتی ہیں۔ میں مانتا ہوں کہ اس تحریک نے افراط و تفریط کی بڑی کیفیتیں پیدا کیں لیکن ساتھ ساتھ نئی ادبی شعریات سے واقفیت کا وسیلہ بھی بنی۔ گمراہیوں کی بات اور ہے۔ علامتیت اور تجریدیت نیز لایعنیت کے سارے مسائل اردو میں داخل ہوگئے لیکن اس میں محمد حسن عسکری کا کیا قصور۔ اصلاً جب کسی رجحان یا تحریک کے زیر اثر لوگ لکھنا شروع کرتے ہیں تو کچھ تخلیقی ذہن سب سے پہلے متاثر ہوتا ہے لیکن بذات خود متعلقہ شعریات کی اہمیت سے انکار نیں کیا جاسکتا۔
بہرطور یہ بھی ایک دلچسپ بات ہے کہ اپنے آخری دنوں میں محمد حسن عسکری جدیدیت اور مغربی گمراہیوں کی تاریخ پر روشنی ڈالنے لگے اور انہیں احساس ہوا کہ بہت سارے مغربی تصورات نے دین کے سلسلے میں کئی طرح کی گمراہیاں پیدا کردیں۔ خصوصاً وہ اسلامی شعور کے داعی ہوگئے۔ نتیجے میں انہیں پناہ ملی تو کہاں حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کی مذہبی کتابوں میں، ان کی فکر میں اور ان کے عمومی تصورات میں۔ ویسے وہ ابن عربی سے لے کر دوسرے اکابردین کی طرف بھی ملتفت ہوئے اور ایک طرح سے اپنی سابقہ تمام تحریروں کا کالعدم ٹھہرانے کی ایک صورت پیدا کردی۔ اس باب میں تفصیلی مباحث کی ضرورت ہے، جس کا یہاں موقع نہیں۔ ویسے عسکری کے ادبی تصورات زندہ رہیں گے اور ان کے بدلتے ہوئے مذہبی اور روحانی خیالات کے ساتھ چلیں گے۔
محمد حسن عسکری نے اور بھی بہت کچھ لکھا ہے مثلاً ’’انتخاب طلسم ہوشربا‘‘، ’’انتخاب کلام میر‘‘۔ لینن کی ’’ریاست‘‘ اور ’’انقلاب‘‘ کا ترجمہ، گوری کی، فلابیر، مادام بوار، شروڈ کا آخری سلام وغیرہ۔ ان کا ارادہ اشرف علی تھانوی کی ملفوظات کو انگریزی اور فرانسیسی میں ترجمہ کرنے کا تھا لیکن یہ کام نہ ہوسکا۔
محمد حسن عسکری تنقید کے ایک اسکول تھے۔ بہت جاندار، بہت قوی اور بہت علمی۔ ان کے نگارشات کے پس منظر میں اردو تنقید نے کئی محاذ سر کئے اور نئی دنیا بسائی۔ اس نابغہ روزگار کی وفات 18؍جنوری 1978ء میں ہوئی۔ دارالعلوم کور گلی، کراچی میں مدفون ہیں۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets