aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
یہ کتاب چند مقالات کا مجموعہ ہے جسے مختلف اوقات میں مختلف لوگوں نے لکھا تھا۔ اس کتاب میں فن ترجمہ کی اہمیت و افادیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ چونکہ ترجمہ کی روایت بہت پرانی اور ایک دوسرے کے خیالات و مشاہدات سے آگہی کا سب سے بہتر طریقہ ہوتا ہے جس سے ہم دوسری زبان و علوم کے تجربات و مشاہدات سے مستفید ہوتے ہیں۔ بہت سی کتابوں کے ترجمے کی روایت بہت ہی پرانی ہے مثلا پنج تنترا کے ترجمے بہت قدیم یعنی انوشیرواں کے زمانے سے چلی آ رہی ہے۔ اسی طرح افلاطون و ارستو کی کتابوں کے بہت پہلے ترجمہ کیا جا چکا تھا۔ ہندوستان میں خاص طور پر اکبری عہد ترجمے کے لئے کافی مشہور ہے جہاں پر باقاعدہ دار الترجمہ قائم کیا گیا اور علما کے ایک گروہ کا مستقل کام ہی یہ تھا کہ دیگر اقوام کے علوم مختلفہ کا ترجمہ کریں۔ مگر یہ فن بیسویں صدی آتے آتے اپنے تمام تر ادوار کو پیچھے چھوڑ گیا اور یہ ایک مستقل فن کی حیثیت سے جانا جانے لگا۔ ان مقالات میں ترجمے کے اصول پر بحث کی گئی ہے۔
Read the author's other books here.
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets