aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
ڈاکٹر عرفان عباسی نے تذکرہ نگاری کا آغاز تقریبا ۱۹۶۰ میں کیا تھا۔ انہوں نے شعرا پر اپنی یادوں کا سلسلہ ادبی خاکوں کی صورت میں لکھنا شروع کیا تھا۔ یہ خاکے کتابی شکل میں آنے سے پہلے روزنامہ "قومی آواز" لکھنو کے سنڈے ایڈیشن کے ضمیمہ میں شائع ہونا شروع ہوئے تھے۔ عباسی صاحب کو بہت سے شعرا کے ساتھ گفتگو کرنے، ان سے ملنے جلنے کا موقع ملا، ان کے بہت سے خاکے ذاتی مشاہدات و تجربات پر مبنی ہیں۔ جب ان کی تذکرہ نگاری کو مقبولیت اور شہرت حاصل ہوئی، تو انہوں نے پورے ملک میں جہاں جہاں اترپردیش کے شعرا موجود تھے، رابطہ کیا، اور ان کے سوانحی تعارف اور نمونہ کلام کو یکجا کرنا شروع کیا۔ اس طرح انہوں نے "آپ"، "آپ ہیں"، "آپ تھے"، اور "شعرا ئے اترپردیش" جیسے خاکے اور تذکرے ترتیب دئے۔ "آپ" لکھنو اسکول سے متعلق پچاس مرحوم شعرا کے خاکے و تذکرے پر مشتمل ہے۔ "آپ ہیں" اترپردیش کے موجود شعرا کے سوانحی اشارے، کلام اور تصاویر پر مشتمل ہے۔ "آپ تھے" شعرائے قصبات اودھ کے خاکے و تذکرے پر مشتمل ہے۔ پھر "شعرائے اتر پردیش" کا سلسلہ مزید آگے بڑھتا ہے۔ اس کی تقریبا بتیس (۳۲) جلدیں منظر عام پر آئیں، اور ہر جلد میں پچاس پچاس شعرا کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ اس طرح بتیس (۳۲)جلدوں میں سولہ (۱۶۰۰) شاعروں کا تذکرہ گیارہ ہزار سے زیادہ صفحات میں کیا گیا ہے۔ عرفان عباسی نے شاعروں کے مستند حالات، ان کی شخصیت منتخب کلام، ولادت اور وفات کی سنین نیز تصاویر کی فراہمی اور ان کو یکجا کرنے کا جو کام انجام دیا ہے اس کی اہمیت کا اندازه محققین بخوبی کر سکتے ہیں۔ خاص کر "شعرائے اتر پردیش" عباسی صاحب کا ایک بلند پایہ اور مستند تحقیقی کارنامہ ہے جسے اردو ادب کی تاریخ میں کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اس تذکرے کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ انہوں نے اردو کے اہم اسکولوں پر ہی توجہ مرکوز نہیں کی بلکہ قصبوں، قریوں، مجروں، دیہاتوں اور ایسے غیر معروف گلی کوچوں کے شاعروں کو بھی ڈھونڈ نکالا جن کی شاعری قابل قدر ہونے کے باوجود ادبی حلقوں سے دور تھی۔ کیونکہ عام طور پر محققین اور دانشور بڑی شخصیتوں کا ہی احاطہ کرتے ہیں۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets