aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
پروفیسرابن کنول کاشماراردوکے ممتازادیبوں میں ہوتاہے،آپ بیک وقت افسانہ نگار،خاکہ نگار،انشائیہ نگار،سفرنامہ نگار،ڈرامہ نگار،ناقد،محقق اورشاعرہیں۔آپ کا اصل نام ناصر محمود کمال ہے،آپ کے والد معروف قومی شاعر قاضی شمس الحسن کنول ڈبائیوی تھے۔ڈبائی ضلع بلند شہرآپ کاآبائی وطن ہے، آپ کی ولادت15/ اکتوبر 1957 کو بہجوئی ضلع مرادآبادمیں ہوئی۔ابتدائی تعلیم گنّورضلع بدایوں کے ایک اردو میڈیم اسلامیہ اسکول میں حاصل کی،مزیدتعلیم کے لیے 1967 میں مسلم یونی ورسٹی،علی گڑھ کے مشہور اسکول منٹوسرکل میں داخلہ لیا،مسلم یونیورسٹی سے 1978میں ایم۔ اے۔ کرنے کے بعد دہلی یونیورسٹی آگئے جہاں سے1979میں ایم فل(اردو)اور 1984 میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔1985میں شعبہء اردو،دہلی یونیورسٹی ہی میں درس تدریس سے وابستہ ہوئے۔ 1998 میں ریڈر،2006 میں پروفیسراور2018 میں سینیئرپروفیسرکے لیے ترقی ہوئی۔آپ نے دومرتبہ صدر شعبۂ اردو، دہلی یونی ورسٹی کے فرائض انجام دئیے،31 اکتوبر2022 کوملازمت سے سبکدوش ہوئے۔آپ دہلی یونیورسٹی میں طویل عرصہ تک ایک فعال اور ہردلعزیزاستاد رہے ہیں۔آپ کی نگرانی میں 38 پی ایچ ڈی اور 50 ایم فل کے تحقیقی مقالے لکھے گئے، ملک اوربیرون ملک آپ مختلف یونیورسٹیوں میں ممتحن اور بورڈآف اسڈیز کے رکن بھی رہے۔ ماریشس یونیورسٹی میں آپ نے تین سال غیرملکی ممتحن کے فرائض انجام دئیے،آپ کی ادبی خدمات پرملک اوربیرون ملک کی یونیورسٹیوں میں متعدد تحقیقی مقالے لکھے جاچکے ہیں جن میں جواہرلال نہرویونیورسٹی، جموں یونیورسٹی،مولاناآزاد نیشنل اردویونیورسٹی،فیصل آباد جی سی یونیورسٹی،پشاوریونیورسٹی،الازہریونیورسٹی،ماریشس یونیورسٹی،مراٹھواڑایونیورسٹی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ آپ کی افسانہ نگاری پر ڈاکٹر عزیراحمد اورڈاکٹررضامحمودکی تنقیدی کتابیں بھی شائع ہوچکی ہیں۔
آپ نے طالب علمی کے زمانے میں لکھناشروع کردیا تھا،گھر اورعلی گڑھ کے ادبی ماحول نے آپ کے ادبی ذوق کوجلابخشی۔1969 میں آپ کی پہلی نظم شائع ہوئی۔اس کے بعد مختلف رسائل میں مسلسل افسانے شائع ہوتے رہے،پروفیسرابن کنول کاپہلا افسانوی مجموعہ ”تیسری دنیا کے لوگ“1984 میں طبع ہوا،2000 میں آپ کادوسراافسانوی مجموعہ”بندراستے“منظرعام پرآیا،افسانوں کاتیسرامجموعہ ”پچاس افسانے“ 2014 میں شائع ہوا۔آپ کے خاکوں کامجموعہ ”کچھ شگفتگی کچھ سنجیدگی“2020 میں،انشائیوں کامجموعہ ”بساط نشاط دل“2021 میں،ڈراموں کامجموعہ”بزم داغ“2020 میں اورسفرناموں کامجموعہ”چارکھونٹ“ 2022 میں شائع ہوئے۔آپ کی افسانوی اورغیرافسانوی نثرمیں متعددکتابیں ہیں۔پروفیسر ابن کنول کی دیگر اہم کتابوں میں ”ہندوستانی تہذیب بوستان خیال کے تناظر میں“،”داستان سے ناول تک“،داستان کی جمالیات“، ”تنقید و تحسین“، ”میرامن“، ”نظیر اکبرآبادی کی شاعری“،”اردو افسانہ“،”اردوشاعری“، ”تنقیدی اظہار“،”پہلے آپ (ڈرامہ)“،”تبریک(تقاریظ)“ وغیرہ شامل ہیں،آپ نے تقریباّایک درجن کتابیں طویل مقدموں کے ساتھ مرتب بھی کی ہیں،جن میں ”انتخاب سخن“،”منتخب غزلیں“،”’منتخب نظمیں“، ”اصناف پارینہ“،”تحقیق وتدوین“،مضراب (کنول ڈبائیوی)“،”لوک ناٹک:روایت اوراسالیب“، ’باغ وبہار“ اور”فسانہء عجائب“شامل ہیں۔اردوناول کانقش اوّل ”ریاض دلربا“آپ کااہم تحقیقی کارنامہ ہے۔ آپ کے دوافسانوی مجموعے عربی زبان میں ”اہل الکہف“ اور”الحلم“ کے نام سے شائع ہوچکے ہیں،افسانوں کاترجمہ الازہریونیورسٹی،قاہرہ کے پروفیسراحمدالقاضی نے کیاہے، آپ کے افسانے روسی زبان میں ماسکوسے بھی شائع ہوئے ہیں۔نیشنل بک ٹرسٹ نے آپ کی کتابیں اردو اورہندی میں بھی شائع کی ہیں۔
پروفیسرابن کنول کی کئی اہم کتابوں پردہلی، اتّرپردیش،ہریانہ، بہاراورمغربی بنگال کی اردو اکاڈمیاں انھیں انعامات سے نواز چکی ہیں۔آپ امریکہ، ماریشس، انگلینڈ، پاکستان، روس اورازبکستان کے عالمی سمیناروں میں شرکت کرچکے ہیں۔آپ نے گزشتہ چا لیس برسوں میں متعددقومی اوربین الاقوامی سیمناروں اورکانفرنسوں میں مقالات اور کلیدی خطبات پیش کیے ہیں۔آپ کی تخلیقی خدمات پر آپ کودہلی اردواکیڈمی فکشن ایوارڈ،ہریانہ اردو اکیڈمی کنورمہندرسنگھ بیدی ایوارڈ،مغربی بنگال اکیڈمی عبدالغفورنساخ ایوارڈ،سرسیدملینیم ایوارڈبرائے اردوفکشن اورغالب انسٹی ٹیوٹ،نئی دہلی کے اردونثرایوارڈ سے نوازاگیا ہے۔
Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25
Register for free