aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
ہندی رسم الخط میں اردو ادب کی تاریخ پر یہ بہترین کتاب ہے۔ اردو کے ارتقائی منازل طے کرنے ، اس کی تاریخ، دلی میں اردو کی نشوونما کے ساتھ ہی موجودہ وقت میں اردو کی صورتحال اور مستقبل میں پنپتی امیدوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ مضمون میں جو بھی کلام کیا گیا ہے اس پر شواہد پیش کئے گئے ہیں، خاص طور پر ہندی رسم الخط میں اردو اشعار سے شواہد پیش کیے جانے کا اسلوب حسن پیدا کررہا ہے ۔ کتاب کی زبان تھوڑی مشکل ہے ،ان لوگوں کو معمولی دشواریوں کا سامنا کرنا ہوگا جو ہندی زبان کو مشکل سے پڑھتے ہیں ۔ اجمالی طور پر ہندی میں اردو ادب کی تاریخ پر لکھی گئی یہ کتاب ہندی طبقے میں اردو کی اصلیت کو سمجھنے کا بہترین موقع فراہم کرتی ہے۔
نام سید احتشام حسین رضوی، پروفیسر۔۲۱؍اپریل ۱۹۱۲ء کو اترڈیہہ ضلع اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم برائے شرفا اور رؤسا کے دستور کے مطابق مکتب میں ہوئی۔ انگریزی تعلیم کی ابتدا علی گڑھ سے ہوئی۔ ہر درجے میں انعام ملتا رہا۔ انٹرمیڈیٹ کے بعد الہ آباد آگئے۔ ۱۹۳۶ء میں الہ آباد یونیورسٹی سے ایم اے(اردو) اس امتیاز کے ساتھ پاس کیا کہ پوری یونیورسٹی میں اوّل آئے۔ وہ ادیب، نقّاد، مترجم کے علاوہ شاعر بھی تھے۔ الہ آباد یونیورسٹی میں شعبہ اردو کے صدر رہے۔ یکم دسمبر۱۹۷۲ء کو الہ آباد میں انتقال کرگئے۔ ان کی تصانیف کے چند نام یہ ہیں: ’’اردو ادب کی تنقیدی تاریخ‘‘، ’’اردو لسانیات کا خاکہ‘‘ ، ’’تنقیدی جائزے‘‘، ’’تنقیدی نظریات‘‘، ’’تنقید اور عملی تنقید‘‘، ’’راویت اور بغاوت‘‘، ’’روشنی کے دریچے‘‘، ’’ہندوستانی لسانیات کا خاکہ‘‘، ’’ادب اورسماج‘‘۔ بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:35