aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
جب کوئی زبان، ادب کی منزل پر پہونچ جاتی ہے اور اس میں ادبی فن پارے مرتب ہونے لگتے ہیں تو اس زبان کو اور بھی خوبصورت بنانے کے لئے اس کے قواعد مرتب کئے جاتے ہیں ان کو ہم صرف و نحو کے نام سے جانتے ہیں ۔ یہ کتاب بھی اردو زبان کی صرف و نحو کے بارے میں بابائے اردو کے ذریعہ لکھی گئی ایک بہترین کتاب ہے ۔ کتاب دو حصے میں تقسیم کی گئی ہے ۔ پہلا حصہ اردو زبان کی صرف پر محمول ہے جس میں جملے کے اقسام سے لیکر دیگر صرف کے قواعد کو بیان کیا گیا ہے۔ دوسرے حصے میں اردو زبان کی نحو پر بات کی گئی ہے یعنی جملے کا کون سا حصہ کس جگہ رکھا جائے۔ قواعد کا مطالعہ کرنے کے لئے یہ ایک بہترین کیاب ہے ۔
بابائے اردو مولوی عبدالحق نے اردو کی ترقی کے لئے اپنی زندگی کو وقف کردیا تھا۔ ان کی زبان کا کوئی لمحہ ایسا نہ تھا جو اردو کی فکر سے خالی ہو۔ یہ ان کی خدمات کا اعتراف ہی ہے کہ وہ ہر جگہ بابائے اردو کے نام سے جانے جاتے ہیں۔
عبدالحق 1870ء میں ہاپوڑ ضلع میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد مزید تعلیم کے لیے محمڈن کالج علی گڑھ بھیجے گئے۔ یہاں ا کی صلاحیتوں کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا۔ سر سید تک رسائی تھی۔ اس ذات گرامی سے براہ راست فیض اٹھانے کا موقع ملا۔ یہیں مولانا حالیؔ اور محسن الملک سے بھی نیاز حاصل ہوا۔ سرسید کے صاحب زادے جسٹس محمود سے بھی ملاقات تھی۔ سرسید نے تصنیف و تالیف کا کچھ کام عبدالحق کے سپرد بھی کیا اس طرح لکھنے پڑھنے کی پہلی تربیت اسی مرد بزرگ کے ہاتھوں ہوئی۔
تعلیم سے فارغ ہو کر عبدالحق تلاش معاش میں حیدرآباد چلے گئے اور ایک اسکول میں مدرس کی ملازمت قبول کر لی۔ آخر ترقی پاکر مدارس کے انسپکٹر مقرر ہوئے۔ اسی زمانے میں انجمن ترقی اردو کے سکریٹری منتخب ہوئے۔ 1917ء میں عثمانیہ یونیورسٹی کے شعبۂ ترجمہ سے مختصر عرصے منسلک رہے۔ آخر اورنگ آباد کالج کے پرنسپل ہوگئے۔ اب انہیں انجمن ترقی اردو کو مستحکم کرنے کا موقع ملا۔ اسی کے ساتھ ہی تصنیف و تالیف کا سلسلہ جاری رہا۔ آخر میں عثمانیہ یونیورسٹی کے شعبۂ اردو کے صدر ہوگئے۔ ریٹائر ہونے کے بعد دہلی آگئے اور اردو نیز انجمن ترقی اردو کی خدمت میں ہمہ تن مصروف ہوگئے۔ ملک تقسیم ہوگیا تو کراچی چلے گئے۔ اور وہاں بھی اردو کے فروغ کی کوشش میں لگے رہے۔ آخر وہیں 1961ء میں وفات پائی۔ بابائے اردو کی خدمت کے اعتراف میں الہ آباد یونیورسٹی نے 1937ء میں انہیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری عطا کی۔
بابائے اردو مولوی عبدالحق کا یہ کارنامہ قابل قدر ہے کہ قدیم اردو ادب کا جو سرمایہ مخطوطات کی شکل میں صندوقچوں اور الماریوں میں بند تھا اور جس کے ضائع ہوجانے کا اندیشہ تھا مولوی صاحب نے اسے ترتیب دے کر شائع کیا اور برباد ہونے سے بچا لیا۔ ان کتابوں پر مولوی صاحب نے مقدمے لکھے، ان کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ مصنفین کے حالات زندگی دریافت کر کے ہم تک پہنچائے، ان تصانیف کے عہد کی خصوصیات واضح کیں اور اردو تنقید کے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کردی۔
چھان بین کے بعد بہت سی غلط فہمیوں کو رد کیا مثلاً اس خیال کی تردید کی کہ میرامن کی باغ و بہار فارسی کے قصہ چہار دردیش کا ترجمہ ہے۔ انہوں نے دلیلوں سے ثابت کردیا کہ اس کا ماخذ لوطرز مرصع ہے۔ مولوی صاحب کی زبان سادہ و سلیس ہوتی ہے جیسی تحقیق کے لیے ضروری ہے۔
مقدمات عبدالحق، خطبات عبدالحق، تنقیدات عبدالحق ان سے یادگار ہیں۔ فرہنگ، لغت اور اصطلاحات پر بھی انہوں نے کام کیا۔ ’’چند ہم عصر‘‘ ان کی مقبول کتاب ہے جس میں مختلف شخصیتوں پر مضمون شامل ہیں۔