aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
آغا حشر کاشمیری کو اردو ڈرا مہ کا شیکسپیئر کہا جاتا ہے۔اردو میں ڈرامہ کی تاریخ ان سے پہلے سے ہی ملتی ہے لیکن جب انہوں نے اردو ڈرامہ میں یا یوں کہیں کہ ہندوستانی ڈرامہ میں قدم رکھا تو بہت ہی تیزی کے ساتھ ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوتاچلا گیا۔ انہوں نے تیس برس کے قریب اردو ڈرامے لکھے اس کے بعد فلمی دنیا کا آغاز ہوگیا تو ڈرامہ کھیلنے کی جانب توجہ کم دی جانے لگی ۔ ’’یہودی کی لڑکی ‘‘ ان کے اہم ڈراموں میں سے ایک ہے۔ موصوف نے انگریزی ڈراموں سے بھی کافی استفادہ کیا ہے تو یہ ان کا ڈرامہ ڈبلیو ، ٹی ، مائیکروف کے ’’ دی جیوس‘‘ سے ماخوذ ہے ۔اس کو انہوں نے اردو کا لباس اس طرح پہنایا کہ کہیں اس کے کچھ اجزا بعینہ لے لیے گئے ہیں اور کہیں قدرے تفصیل کے ساتھ پیش کیا گیا ہے اور کہیں صرف مفہوم پر اکتفا کیا گیا ہے ۔ اس ڈرامہ کا پلاٹ انگریزی ڈرا مہ سے ماخوذ تو ضرور ہے مگر اس کو ہندوستانیت کا رنگ اس طرح پہنا یا گیا ہے کہ ہر چیز مانوس اور جانی پہچانی لگتی ہے ۔یہی نہیں بلکہ مکمل ہندوستانی طرز معاشرت نظر آتی ہے آخری بات یہ ہے کہ اس کا انجام انگریزی ڈراموں کی طرح المیہ نہ ہوکر طربیہ ہے ۔
آغا حشر کا اصل نام آغا محمد شاہ تھا۔ ان کے والد غنی شاہ بسلسلہ تجارت کشمیر سے بنارس آئے تھے اور وہیں آباد ہو گئے تھے۔ بنارس ہی کے محلہ گوبند کلاں، ناریل بازار میں یکم اپریل 1879کو آغاحشر کا جنم ہوا۔
آغا نے عربی اور فارسی کی ابتدائی تعلیم حاصل کی اور قرآن مجید کے سولہ پارے بھی حفظ کیے۔ اس کے بعد ایک مشنری اسکلول جے نارائن میں داخل کرائے گئے۔ مگر نصابی کتابوں میں دلچسپی نہیں تھی اس لیے تعلیم نا مکمل رہ گئی۔
بچپن سے ہی ڈرامہ اور شاعری سے دل چسپی تھی۔ سترہ سال کی عمر سے ہی شاعری شروع کر دی اور 18 سال کی عمر میں آفتاب ِ محبت کے نام سے ڈرامہ لکھا جسے اس وقت کے مشہور ڈرامہ نگاروں میں مہدی احسن لکھنوی کو دکھایا تو انہوں نے طنز کرتے ہوئے کہا کہ ڈرامہ نگاری بچوں کا کھیل نہیں ہے۔
منشی احسن لکھنوی کی اس بات کو آغا حشر کاشمیری نے بطور چیلنچ قبول کیا اور اپنی تخلیقی قوت، اور ریاضت سے اس طنز کا ایسا مثبت جواب دیا کہ آغا حشر کے بغیر اردو ڈرامہ کی تاریخ مکمل ہی نہیں ہو سکتی، انہیں جو شہرت، مقبولیت، عزت اور عظمت حاصل ہے، وہ ان کے بہت سے پیش رؤوں اور معاصرین کو نصیب نہیں ہے۔
مختلف تھیٹر کمپنیوں سے آغا حشر کاشمیری کی وابستگی رہی، اور ہر کمپنی نے ان کی صلاحیت اور لیاقت کا لوہا مانا۔ الفریڈ تھیٹریکل کمپنی کےلئے آغا حشر کو ڈرامے لکھنے کا موقع ملا، اس کمپنی کے لیے آغا حشر نے جو ڈرامے لکھے، وہ بہت مقبول ہوئے۔ اخبارات نے بھی بڑی ستائش کی۔ آغا حشر کی تنخواہوں میں اضافے بھی ہوتے رہے۔
آغا حشر کاشمیری نے اردو، ہندی اور بنگلہ زبان میں ڈرامے لکھے جس میں کچھ طبع زاد ہیں اور کچھ وہی ہیں جن کے پلاٹ مغربی ڈراموں سے ماخوذ ہیں۔
آغا حشر کاشمیری نے شکسپیر کے جن ڈراموں کو اردو کا قالب عطا کیا ہے ، ان میں شہیدناز، صید ہوس، سفید خون، خواب ہستی بہت اہم ہیں۔
آغا حشر کاشمیری نے رامائن اور مہابھارت کے دیومالائی قصوں پر مبنی ڈرامے بھی تحریر کیے ہیں ، جو اس وقت میں بہت مقبول ہوئے۔