aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
اردو ادب میں اگر مزاح و ظرافت کی بات آئے اور مشتاق احمد یوسفی کا ذکرنہ ہویہ ممکن ہی نہیں ۔مزاح و ظرافت میں وہ ایک ستون کا درجہ رکھتے ہیں۔ تقسیم کے بعد ہی وہ اپنی ادبی زندگی کی شروعات کر چکے تھے جن کے نثر پارے مختلف میگزین کے زینت قرار پائے ۔ یہ ان کا تیسرا مجموعہ ہے جو 1976 میں منظر عام پر آیا ۔ یہ مجموعہ ان ہی کے اندا ز میں ان کی خود کی خود نوشت سوانح بھی ہے ۔ وہ لکھتے ہیں، ’’میں نے اس کتاب کی بنیاد اپنی ذات پر رکھی ہے جس سے ایک مدت سے آزردہ خاطر ہوں۔‘‘ ان کا یہ کمال ہے کہ انہوں نے مزاح کا جومعیار متعین کردیا اب اس کوسر کرنا دیگر کے لیے مشکل ہوگا اگرچہ یہ اپنااستاد ابن انشا کو مانتے ہیں لیکن اپنے شستہ اسلوب کے باعث یوسفی سب سے آگے بڑھ گئے۔ یو سفی نے اپنی کتابوں کی نظر ثانی کے لیے کرنل محمدخاں کا بھی تعاون لیا، لیکن ان کا رنگ خود میں نہیں پڑنے دیا ۔ اس کتاب کے دیباچے میں محاوراتی زبان کی نوک جھونک بھی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یوسفی صاحب اپنی تحریر وں کو لے کر کس قدر پختہ ہوتے تھے۔ان کی اس کتاب کے ساتھ تمام کتابوں کو پڑھیے اعلیٰ ظرافت کے ساتھ عمدہ زبان کا بھی لطف لیجیے ۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets