aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
اردو ادب میں اگر مزاح و ظرافت کی بات آئے اور مشتاق احمد یوسفی کا ذکرنہ ہویہ ممکن ہی نہیں ۔مزاح و ظرافت میں وہ ایک ستون کا درجہ رکھتے ہیں۔ تقسیم کے بعد ہی وہ اپنی ادبی زندگی کی شروعات کر چکے تھے جن کے نثر پارے مختلف میگزین کے زینت قرار پائے ۔ یہ ان کا تیسرا مجموعہ ہے جو 1976 میں منظر عام پر آیا ۔ یہ مجموعہ ان ہی کے اندا ز میں ان کی خود کی خود نوشت سوانح بھی ہے ۔ وہ لکھتے ہیں، ’’میں نے اس کتاب کی بنیاد اپنی ذات پر رکھی ہے جس سے ایک مدت سے آزردہ خاطر ہوں۔‘‘ ان کا یہ کمال ہے کہ انہوں نے مزاح کا جومعیار متعین کردیا اب اس کوسر کرنا دیگر کے لیے مشکل ہوگا اگرچہ یہ اپنااستاد ابن انشا کو مانتے ہیں لیکن اپنے شستہ اسلوب کے باعث یوسفی سب سے آگے بڑھ گئے۔ یو سفی نے اپنی کتابوں کی نظر ثانی کے لیے کرنل محمدخاں کا بھی تعاون لیا، لیکن ان کا رنگ خود میں نہیں پڑنے دیا ۔ اس کتاب کے دیباچے میں محاوراتی زبان کی نوک جھونک بھی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یوسفی صاحب اپنی تحریر وں کو لے کر کس قدر پختہ ہوتے تھے۔ان کی اس کتاب کے ساتھ تمام کتابوں کو پڑھیے اعلیٰ ظرافت کے ساتھ عمدہ زبان کا بھی لطف لیجیے ۔
مشتاق احمد یوسفی کی ولادت 4 ستمبر 1923ء کو متحدہ ہندوستان کے شہر ٹونک، راجستھان کے ایک تعلیم یافتہ خاندان میں ہوئی۔ ان کے والد محترم جناب عبدالکریم خان یوسفی جے پور بلدیہ کے صدرنشین تھے اور بعد میں جے پور قانون ساز اسمبلی کے اسپیکر مقرر ہوئے۔ مشتاق احمد یوسفی نے اپنی ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ بی اے کیا پھر اعلیٰ تعلیم کرنے کے لئے آگرہ کے مشہور کالج سینٹ جانس کالج سے فلسفہ میں ایم اے کیا۔ اس کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں ہندوستانی پبلک سول سرویسز کا امتحان پاس کر کے 1950ء تک ہندوستان میں مسلم کمرشیل بینک سے متعلق ہوئے اور ڈپٹی جنرل منیجر کے عہدہ پر فائز ہوئے۔
چونکہ تقسیم ہند اور قیام پاکستان کے بعد ان کے خاندان کے افراد و احباب پاکستان ہجرت کرگئے تھے۔ لہذا وہ بھی 1950ء میں بھارت کو چھوڑ کر پاکستان ہجرت کرگئے اور پاکستان کے شہر کراچی میں سکونت اختیار کی۔ یوسفی صاحب پاکستان میں رہتے ہوئے ذریعہ معاش کے لئے بینک کی نوکری کو ترجیح دی اور وہاں ایک بینک میں ملازمت اختیار کرلی، بینک میں مختلف عہدوں پر کام کرتے ہوئے بحیثیت مینیجنگ ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ اسی طرح 1974ء میں یونائٹیڈ بینک کے صدر اور 1977ء میں پاکستان بینکنگ کونسل کے صدر نشین منتخب کئے گئے۔ 11 سال تک انہوں نے لندن میں اپنی خدمات انجام دی اور 1990ء میں کراچی واپس لوٹ آئے۔
مشتاق احمد یوسفی نے ایک بینکر ہونے کے باوجود اردو ادب میں مزاح نگاری کا جو اعلیٰ معیار قائم کیا اور اپنے پیچھے پانچ جن ادبی شہ پاروں کو چھوڑا ہے وہ اردو دنیا کے لئے ایک نایاب تحفہ ہیں۔ ان کی پہلی کتاب ’’چراغ تلے‘‘ 1941ء میں چھپی جب کہ دوسری ’’خاکم بدہن‘‘ 1949ء، ’’زرگزشت‘‘ 1974ء، ’’آب گم‘‘ 1990ء اور آخری کتاب ’’شام ِ شعرِ یاراں ‘‘2014ء میں چھپی۔ ان کی خدمات کو دیکھتے ہوئے صدر پاکستان نے 1999ء میں ’’ستارہ امتیاز‘‘ اور 2002ء میں ’’ہلال امتیاز‘‘ سے نوازا۔ 20 جون 2018 کو وہ کراچی میں انقال کر گئے۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets