aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
ڈاکٹر ذاکر حسین، تیسرے صدرِ جمہوریہ ہند ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے وہ ایک دانشور، مجاہد آزادی، صاحب طرز ادیب، مترجم، خطیب اور منتظم تھے۔ انھوں نے ملک کی تعمیر اور تعلیم کے میدان میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ انھیں ہندوستان کا سب سے بڑا اعزاز’’بھارت رتن‘‘ ملا تھا۔
ذاکر صاحب کے آبا واجداد فریدی پٹھان تھے۔ ان کا آبائی وطن قائم گنج ضلع فرخ آباد ہے، پیدائش حیدرآباد میں ہوئی جہاں انکے والد ایک کامیاب بیرسٹر تھے۔ ان کے والد کے سات بیٹے تھے جن میں ذاکر صاحب تیسرے تھے۔ انکی ابتدائی تعلیم گھر پر ہی ایک انگریز ٹیوٹر کے ذریعے ہوئی۔ ان کےوالد بیماری کی وجہ سے قائم گنج واپس آگئے اوران کا انتقال ہوگیا۔ ذاکر صاحب کو اٹاوہ کے اسلامیہ ہائی اسکول میں بھیج دیا گیا جہاں سے انھوں نے ہائی اسکول کیا۔ ان کی والدہ کا بھی اسی زمانے میں طاعون کی وبا میں انتقال ہوگیا۔ جوانی میں ذاکر صاحب پر صوفی اور درویش حسن شاہ کا گہرا اثر پڑا جو ان کےدادا کےرشتہ دار تھے۔ ایم اے او کالج علی گڑھ سے ایف اے کیا۔ لکھنو کے میڈیکل کالج میں داخلہ لیا لیکن بہت بیمار ہوگئے اور واپس آگئے، دوبارہ علی گڑھ آئے اور آرٹس کے مضامین کےساتھ بی اے کیا۔ اقتصادیات میں ایم اے کیا ساتھ میں ایل ایل بی بھی کیا اورشعبہ اقتصادیات میں جونیر لکچرر کے طور پر تقرر ہوگیا۔ وہ بہت ذہین طالب علم تھے، بہت اچھے مقرر تھے اور دنیا بھر کی خبروں سےدلچسپی رکھتے تھے۔ سن 1920 میں جب مہاتما گاندھی اورمولانا محمد علی نے علی گڑھ کے طالب علموں کو جنگ آزادی میں حصہ لینے کی دعوت دی تو لبیک کہنے والوں کے سربراہ ذاکر صاحب تھے جو سرکاری امدادی کالج کو خیر آباد کہہ کر ایک آزاد تعلیم گاہ میں داخل ہوئے جو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے نام سے علی گڑھ ہی میں قائم ہوئی تھی۔ ذاکر صاحب کی شادی سن 1915 میں شاہ جہاں بیگم سے ہوئی تھی۔ ان کی تین بیٹیاں پیدا ہوئیں رقیہ ریحانہ، سعیدہ بیگم اور صفیہ بیگم۔ رقیہ بچپن ہی میں گزرگئیں، سعیدہ بیگم کی شادی خورشید عالم خاں سے ہوئی اور صفیہ بیگم کی شادی شاہ جہاں پور کے پروفیسر ظل الرحمان خان سے ہوئی ۔
اعلیٰ تعلیم کے لئے ذاکر صاحب جرمنی گئے۔ جہاں اپنی دوست مس فلپس بورن(جوبعد میں ان کے ساتھ جامعہ میں بھی شریک کار رہیں ) کے زیر اثر فنون لطیفہ، موسیقی، مصوری، ڈرامہ اور فن تعمیر کا ذوق پیدا ہوا۔ یونیورسٹی میں ان کا مضمون اقتصادیات تھا لیکن اس سے زیادہ دلچسپی ان کو علم تعلیم سے تھی۔ جرمنی میں جو اسکول جدید ترین تدریسی تصورات اور طریقو ں پر تجربہ کررہےتھے وہاں جاکرانھوں نے مشاہدہ کیا۔ جرمنی میں ان کے ساتھ ڈاکٹر عابد حسین اور پروفیسر محمد مجیب بھی تھے، ان تینوں نے سن 1926 میں ہندوستان واپس آکر بہت کم تنخواہوں پر جامعہ کی بقا کےلئے خود کو وقف کردیا اور جامعہ کے ارکان ثلاثہ کہلائے۔ سیاسی اتھل-پتھل اورمالی مشکلات کی وجہ سے جامعہ بند ہونے کی کگار پر تھی۔ ایک سایسی تحریک کے زیر اثر قائم ہوئے اس ادارے کو تعلیمی اور مالی اعتبار سے مستحکم بنانا کچھ آسان نہیں تھا۔ ذاکر صاحب نے شیخ الجامعہ کی ذمہ داری سنبھالی اور اس کا ثمر ہے کہ جامعہ ایک اہم یونیورسٹی کی شکل میں موجود ہے۔ بانیاں جامعہ کا مقصد تھا کہ ایک نمونے کی یونیورسٹی بنے اور اعلی تعلیم کو قومیت اور وطنیت سے ہم آہنگ کردے۔ تقسیم ہند کے بعدعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی بدخواہی اور مخالفت کئ طوفان کی زد پرتھی۔ جواہر لال نہرو اور مولانا آزاد کے اصرارپر ذاکر صاحب نے سن 1948 میں وہاں وائس چانسلر کی ذمہ داری لی اور یونیورسٹی کی مالی اور تعلیمی حالت کو درست کیا۔ سن 1957 میں خرابی صحت کی وجہ سے استعفی دے دیا۔ اس کےبعد وہ بہار کے گورنر، نائب صدرجمہوریہ اور پھر صدرجموریہ ہند بنے۔
تعلیم کے میدان میں ذاکر صاحب کی خدمات بہت اہم ہیں۔ گاندھی جی کے تجوویزکردہ بنیادی تعلیم کے منصوبے کو انھوں نے تراش خراش کر ایک منظم اور قابل عمل نصاب کی شکل دی۔ جامعہ میں ان کی قیادت میں ہونہار اور محنتی استادوں کی ٹیم نے ابتدائی تعلیم اور استادوں کے مدرسے سے تعلیم کے میدان میں ایسے تجربے کئے جو اس دو ر کے سرکاری اور نیم سرکاری اسکولوں کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھے۔ اس دور کے طریقہ تعلیم کی تفصیلات جامعہ سے متعلق کئی کتابوں میں موجود ہیں۔ ان کے زیرقیاد ت جامعہ میں درسی کتابوں اور بچوں کے ادب پر بہت کام ہوا۔ انھوں نے اپنے ساتھیوں، مشہور لکھنےوالوں کو بچوں کےلئے لکھنے پرآمادہ کیا۔ مکتبہ جامعہ قائم ہوا جس نے بچوں کے لئے بہت کم قیمت پربہت دلچسپ کتابیں شائع کیں۔ بچوں کا رسالہ ’’پیام تعلیم‘‘ جاری ہوا جس کے بانی ڈٓاکٹر عابد حسین تھے۔ اس رسالے کے لئے خود ذاکر صاحب نے 17 کہانیاں اپنی مرحومہ بیٹی ریحانہ رقیہ کے نام سے لکھیں۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سی کہانیاں ہیں جوانھوں نے اپنے نام سے لکھیں۔ چھدو، پوری جو کڑھائی سے نکل بھاگی، آدمی کی کہانی ایک ستارے کی زبانی۔ عقاب، ابو خان کی بکری، گل عباس وغیرہ۔ یہ کہانیاں کتابی شکل میں مکتبہ جامعہ نے شائع کیں۔ ان کی ’کچھوااور خرگوش‘ نامی کہانی کواس کے نام کی وجہ سے بچوں کی کے لئے لکھی گئی کہانی سمجھا گیا جب کی اس کااسلوب اور زبان بچوں کی سمجھ سے بالاتر ہے دراصل یہ تعلیم کے ایک مسئلے کی طرف توجہ دلاتی دلچسپ انداز کی کہانی ہے اور لسانی عصبیت، مذہبی نارواداری اور اقدارکی شکست وریخت کے مسائل کا بھی احاطہ کرتی ہے۔ انھوں نے بچوں کے لئےانگریزی ادب سے ماخوز دو ڈرامے بھی لکھے جو جامعہ مٰیں اسٹیج کئے گئے۔
ذاکر صاحب نے مختلف سماجی، سیاسی معاشی اور تہذیبی موضوعات پرمتعدد مضامین لکھے۔ مضامین، تعلیمی خطبات، صدراتی تقاریر اور تراجم پر مشتمل ان کی تحریروں میں دل آویزسادگی، تہہ داری، جزبے کی گرمی اور لطافت ہے اور وہ اپنی تحریر و تقریر میں ہمیشہ قاری یا سامع کو مستقل ذہن میں رکھتے تھے۔ ان کی تحریروں کو مرتب کرکے کتابوں کی شکل میں شائع کیا گیا ہے۔ ذاکر صاحب کی کچھ اہم کتب: فکر ذاکر( ہفتہ وار ’نئی روشنی‘ میں شائع مضامین)، ذاکر حیسن یادگاری خطبات، افکار ذاکر(مکاتیب کی روشنی میں)، اعلی تعلیم (مختلف یونیورسٹیوں کے جسلہ اسناد میں دئے گئے خطبات)، بنیادی قومی تعلیم (ذاکر حیسن کمیٹی کی رپورٹ اور بنیادی تعلیم کا مفصل نصاب )، حالی محب وطن، ہندوستان میں تعلیم کی ازسر نو تنظیم ( لکچرس کا ترجمہ)، مشاہیر کے اولین صحیفے، تعلیمی خطبات، ذاکر صاحب کے خط ، ذکر حسین، مبادی معاشیات (ترجمہ)، افلاطون اورریاست (ترجمہ)، ابو خان کی بکری اور چودہ کہانیاں، کچھوا اور خرگوش اور کھوٹا سونا اور دیانت(ڈرامے )۔ ذاکر صاحب کی شخصیت اور خدمات پرلکھی گئی کتابوں کی بھی ایک طویل فہرست ہے۔
Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25
Register for free