نفاست پسندی میں الگ مقام رکھنے والے مظہر امام کی سب سے نمایاں شناخت ’’آزاد غزل‘ کے موجد کے طور پر ہوئی۔ دراصل وہ ادب میں نئے نئے تجربات کے حامی تھے اور جب غزل کی ایک نئی ہیئت’’آزاد غزل‘‘ کا تجربہ کیا تو سلسلے وار کئی معترضین سامنے آگئے۔ مگر ان خیالوں سے بے پروا وہ ہم خیال دوستوں کو اس کی ہیئت پر اکثر دلیلیں اور مشورے بھی دیا کرتے تھے۔ ان کی پیدائش 12 مارچ 1928 میں مونگیر میں ہوئی جہاں ان کے والد محکمہ ڈاک میں ملازم تھے۔ ان کا آبائی گھر بکسر کے قریب سونی پٹی تھا مگر عرصہ دراز تک شہر دربھنگہ سے وابستہ رہے جہاں ’’امیر منزل‘‘ جسے دربھنگہ کا ادب کدہ کہا جاتا تھا۔ بعد میں کل وقتی طور پر وہ دہلی منتقل ہوگئے اور یہیں 30 جنوری 2012 کو وفات پا گئے۔ مگدھ یونیورسٹی اور بہار یونیورسٹی سے ایم اے اردو اور ایم اے فارسی کی ڈگریاں حاصل کیں۔ شروع میں کلکتے میں ایک اخبار سے منسلک ہوئے پھر 1958میں آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ ہوئے۔ 1988 میں دور درشن سری نگر میں بطور ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ ادبی زندگی کا آغاز افسانہ نگاری سے کیا مگر جلد ہی شاعری کی طرف متوجہ ہوگئے۔ پہلا شعری مجموعہ ’’زخم تمنا‘‘ 1962 میں، دوسرا ’’رشتہ گونگے سفر کا‘‘ 1974 میں اور تیسرا شعری مجموعہ ’’پچھلے موسم کا پھول‘‘ 1988میں شائع ہوا ۔ ’’پچھلے موسم کا پھول‘‘ پر انہیں ساہتیہ اکادمی اعزاز سے نوازا گیا۔ بعد میں غزلوں اور نظموں کے کلیات بالترتیب بعنوان ’’پالکی کہکشاں کی‘‘ اور ’’بند ہوتا بازار‘‘ شائع ہوا۔ نثری ادب سے بھی ان کا خاصہ شغف رہا۔ شاعر کے ساتھ ساتھ وہ ایک اچھے ناقد کے طور بھی جانے گئے۔ ’’آتی جاتی لہریں، ایک لہر آتی ہوئی‘‘اور ’’تنقید نما‘‘تنقیدی مظامین کے مجموعوں کے علاوہ خاکوں کا ایک مجموعہ ’’اکثر یاد آتے ہیں‘‘ کو کافی مقبولیت حاصل ہوئی۔ ان کے خاکوں میں طنز، تنقیص یا تضحیک کا دور تک نشان نہیں ہے، البتہ ان کے تمام خاکے تاثرات پر مبنی ہیں۔