aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
ظل حسنین نقوی عرف عام میں ظ - انصاری سے مشہور تھے۔ وہ لسانیات میں پی ایچ ڈی تھے ۔انہیں اردو ، روسی ، عربی ، انگریزی اور فارسی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ انہوں نے برنارڈشا، چیخوف اور ووستوئیفیسکی جیسے ادبا کے فن پاروں کو اردو قالب میں ڈھالا۔ زیر نظر کتاب میں انہوں نے ملک کے اولین وزیر تعلیم مولاناابوالکلام آزاد کے ذہنی سفر کو لفظوں کے لباس میں لپیٹنے کی سعی کی ہے۔ ان کے ذہن کے نہاں خانے میں کس کے لئے کیا چھپا ہوا تھا، اسے قاری تک پہنچانے کے لئے مصنف نے متعدد اہم مضامین شامل کئے۔ "ابوالکلام اور ہم" کے تحت ان کے اندازِ فکر پر شاندار روشنی ڈالی گئی ہے۔ پھر ابولاکلام کا ذہنی سفر ، سیاسی بصیرت کے علاوہ ان کے اور جواہر لال نہرو کے اٹوٹ روابط اور نہرو کے لئے ان کے ذہن و دل میں موجزن احترام کے بارے میں ذکر ہے ۔آخر میں مولانا کی شخصیت، کارناموں ، جیل سے رہائی ، وزارت، ان کی تصانیف اور پھر سانحۂ موت کے بارے میں تذکرہ ہوا ہے۔ عنوانات سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتاب ان کی تاریخ پر مبنی ہے مگر مطالعہ کرنے سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ ان کے فکری و ذہنی سفر کی نشاندہی کے مقصد کو لیے ہوئی ہے۔ مولانا کے بارے میں ایک بات کہی جاتی ہے کہ وہ جس کو چاہتے تھے، دل کھول کر چاہتے تھے اور ان کی یہ چاہت ان کی آنکھوں میں صاف جھلکتی تھی۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets