aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
کیا کسی نقاد کی اہمیت کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اس سے اتفاق اور اختلاف کرنے والے لوگ اس کے ہم عصرون سے زیادہ ہوں ۔اگر ہان تو فاروقی اردو کے وہ واحد نقاد ہیں جن سے اختلاف و اتفاق کرنے والے آج بھی اسی مقدار میں موجود ہیں جتنے ان کی تحریروں کے لکھے جانےکے وقت تھے ۔ شمس الرحمن فاروقی کی تحریروں کی سب سے زیادہ نمایاں صفت جدید تر مباحث کا حامل ہونا ہے ان کی ہر تحریر کچھ پرانی لکیروں کو کاٹتی ہے اور کچھ نئی لکیریں کھینچتی ہے۔آپ ان سے اختلاف یا اتفاق کرسکتے ہیں لیکن ان کے پیچھے موجود ایک گہری فکرکے تسلسل اور سخت تنقیدی ریاضت کو تسلیم کرنا ہی پڑتا ہے ۔فاروقی کے یہاں تنقید باضابطہ اپنے ایک علمی ڈسپلن کے ساتھ آئ ہے ۔ان کی تحریروں کا خاص منطقی ،وضاحتی اور استدلالی انداز اردو تنقید کی پوری روایت میں ہمیں چونکاتا ضرور ہے ۔یہ کریڈٹ بھی فاروقی کو ہی جاتا ہے کہ اردو تنقید میں بہت سے نئے نظریاتی مباحث کا آغاز ان کی تحریروں سے ہوا ہے ۔شاعری،شعر فہمی ،شعر اور نثر کے مابین فرق،افسانہ،اس کی فنی تشکیل اوراس کی قرآت کے مسائل کے سیاق میں جو بنیادی سوالات ان کی تحریرں نے قائم کئے ہیں وہ آج بھی اردو تنقید کا حوالہ ہیں۔اثبات ونفی میں اقبال پر تین اچھے مضامیں ہیں ۔فاروقی نے اقبال کو ان کے فنی اور تخلیقی سیاق میں پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کی ہے اقبال تنقید میں یہ مضامین بہت بنیادی نوعیت کے ہی۔ شمس الرحمان فاروقی کی اور بھی کتابیں ریختہ پر موجود ہیں ۔آپ پڑھئے اور اپنے خیالات کا اظہار کیجئے ۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets