aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
ہندوستان کی آزادی کے ساتھ ساتھ تقسیم ہند کا سانحہ بھی ہوا اور اس کے ساتھ فرقہ ورانہ فسادات کا خونیں سلسلہ بھی شروع ہوا جس نے سماج کا شیرازہ بکھیر کر رکھ دیاانسان انسان کا دشمن بن گیا۔ اقتدار کی بھوکی سیاست نے اخلاق اور مذہب کے تمام اصولوں کو طاق پر رکھ کر ظلم و تشدد کا بازار گرم کیا۔ان تمام حالات نے اردو ادب پر گہرے اثرارت مرتب کئے۔اردو شاعری جو ابتک ترقی پسندی کے ماتحت انسان کی عظمت کے گیت گا رہی تھی۔یکجہتی اور ہم آہنگی کا پیغام دے رہی تھی اس دلدوز سانحے سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکی۔ جس انقلاب کے خواب اس نے دیکھے اور دکھائے تھے ، جس اجتماعیت کا راگ اس نے الاپا تھا وہ سب آزادی کے بطن سے اٹھنے والے طوفان کی گرد میں کھو چکی تھی اور انسان مایوسی اور قنوطیت کا شکار ہوگیا۔مغرب ومشرق میں دوسری جنگ عظیم کی تباہی کے اثرات بھی پڑے اور پوری دنیا میں انسان ایک روحانی بحران سے دوچار ہوا۔ملک میں ترقی پسندی کی تحریک بھی آزادی کے بعد کمزور پڑنے لگی کیونکہ اس میں یکسانیت پیدا ہونے لگی۔ آزادی کے بعد اب انقلاب اور اجتماعی فلاح اور یکجہتی کے نعرے کھوکھلے لگنے لگے۔لہذا ، ایسی قومی اور عالمی صورت حال میں شاعروں کو کسی نئے پیرایہء اظہار کی تلاش تھی۔وہ کسی تازہ ہوا کے جھونکے کے منتظر تھے۔اسی دوران شاعروں کے ایک گروہ نے ’’ حلقہء ارباب ذوق ،‘کی بنیاد ڈالی جس کے شعراء فکر وفن کی آزادی کے حامی تھے۔وہ ترقی پسندوں کے سیاسی منشور سے آزادی کا اعلان کر رہے تھے۔یہیں سے اردو میں ترقی پسندی کے خلاف بغاوت کا باقاعدہ آغاز ہوااور اردو شاعری میں نظموں کو فروغ حاصل ہوا۔زیر نظر کتاب میں ڈاکٹر عتیق اللہ نے آزادی کے بعد دہلی کے نظم گو شعرا کی نظموں کو مرتب کر کے کتابی شکل میں پیش کیا جن کو پڑھ کر ، آزادی کے بعد دہلی کے نظم گو شعرا کرام کے کلام میں پائے جانے والے عناصر مکمل طور پر نظر آتے ہیں۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets