aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
"دیوان چرکین" دیکھ کر یقینی طور پر ہر نوجوان کی آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں۔ کیوں کہ ہم میں سے سب نے اپنے بچپن میں ایک دو اشعار ضرور سن رکھے ہونگے جس سے اس کے اور اشعار سننے کا ذوق پیدا ہوا ہوگا مگر اس کی پوری شاعری کو پڑھنے کی طرف توجہ نہ جا سکی ہوگی۔ عام طور پر چرکین کی شاعری کو فحاشی سے تعبیر کیا جاتا رہا ہے حالانکہ اگر ہم کلاسیکی عربی شاعری کا مطالعہ کریں تو اسے ام الفحاشی کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔مگر اتنی غلاظت کے باوجود اس شاعری کو ادب عالیہ کا نمونہ سمجھ کر پڑھا اور پڑھایا جاتا ہے۔امرءالقیس کی شاعری لاکھ محاشی ہو مگر عربک لٹریچر کا اعلی نمونہ شمار کی جاتی ہے۔ اسی طرح جب ہم فارسی شاعری کا مطالعہ کرتے ہیں تو جامی جیسے صوفی لوگ فحاشی سے نہیں بچ پاتےاور جب ہم سبک ہندی کا مطالعہ کرتے کرتے اورنگزیب کے عہد تک آتے ہیں تو جعفر زٹلی کا نام ہمارے سامنے آتا ہے جس کی شاعری اگر ایک طرف اردو فارسی شاعری کا بہترین امتزاج ہے اور جہاں وہ اردو فارسی کی آمیزش کچھ اس انداز میں کرتا ہے کہ : کشتی جعفر زٹلی در بھنور افتادہ است/ ڈبکوں ڈبکوں می کند در ایک لحظہ پار کن۔ وہیں اس نے ہجویات میں وہ فحش نگاری کا مظاہرہ کیا ہے کہ چرکین کی شاعری شرما جائے۔ جعفر کا" گنڈمروا نامہ" اور "ہجو در عصمت النسا بیگم" اس کی فحش نگاری کی اعلی مثال ہیں۔ ہمیں اس جیسی شاعری میں ادب دیکھنا چاہئے ناکہ چند اعضائے جسم کی وجہ سے اس کو یکسر متروک و مردود قرار دے دیا جانا چاہئے۔ چرکین ہو یا جعفر زٹلی یا امرء القیس ان سب کی شاعری میں جدت خیالات اور ندرت مضامین کی بھرمار ہے۔ استعاروں کا نادر استعمال یقینا شاعر کو داد دئے بغیر نہیں رہتا۔ ایک بار جعفر زٹلی میرزا بیدل دہلوی کے پاس آیا اور اس نے مصرع پڑھا کہ ( چہ عرفی چہ فیضی ہمہ بہ پیش توفش) بیدل نے صلہ نکالا اور دے کر چلتا کیا مصاحبوں نے کہا کہ حضرت پڑھنے دیجئے دیکھتے ہیں "فش" کا قافیہ کیا لاتے ہیں۔ تو چرکین کی شاعری اور اس کا دیوان بھی ندرت مضامین سے مالا مال ہے اور جدت طبع اور استعاروں کا بر محل استعمال یقینا تعریف کے لائق ۔ اگر ہم امرء القیس کو عربی شاعری میں برداشت کر لیتے ہیں تو چرکین کی شاعری اردو میں کیوں نہیں برداشت کی جا سکتی۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets