aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
"دھوپ کے پودے"ارشد کمال کا شعری مجموعہ ہے۔جس میں ان کا داخلی اور خارجی کرب واضح ہے۔ارشد نے اردو شعر و شاعری کو اپنا شعار ایسے وقت میں بنایا ہے جبکہ شاعرکے فکر وفن کے لئے حالات سازگار نہیں رہے۔ارشد کی شاعری کامرکزی تصور یا بنیادی نشان آج کا انسان ہے۔آج کاانسان جس کجروی اور تشکیک کا شکار ہے۔ان نقوش کو ابھارنے کے لیے شاعر نے دردمندی کا سہارا لیا ہے۔جس آب و ہوا میں ارشد کی شاعری پرورش پارہی ہے وہ مادیت اور زر پرستی کا دور ہے۔وسائل زندگی کی سہولتیں اور عیش و آرام کی فروانی نے سماجی ڈھانچے منتشر کر رکھے ہیں۔ارشد کی شاعری ایک مہذب احتجاج ہے اور اس تہذیب نے ان کی شاعری کو متانت اور سنجیدگی سے متصف کیا ہے۔غزل کا مزاج تو یوں بھی اعتدال چاہتا ہے۔ان کی نظموں میں بھی شور اور ہنگامہ نہیں ہے۔تبلیغ و تلقین بھی ان کا شعار نہیں لیکن تجربات اور مشاہدات کے سہارے انسانی کردارکی کمزریوں کی طرف اشارہ ضرور کرتے ہیں اور ان اشاروں میں ملیح طنز اور شکوہ شامل ہے۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets