aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
"بستان حکمت" در اصل ملا حسین واعظ کاشفی کی انوار سہیلی کا اردو ترجمہ ہے۔ جس کو فقیر محمد خان گویا نے انجام دیا ہے۔ گلستان سعدی کے بعد سب سے زیادہ مقبولیت والی کتاب یہی انوار سہیلی ہے، جو سنسکرت کی مشہور کتاب پنچ تنتر کا فارسی جامہ ہے جس میں کہانیوں، داستانوں اور روایتوں کو بیان کیا گیا ہے۔ ان کہانیوں میں جانور، پرندے اور کیڑے مکوڑے سب انسانوں کی طرح کام انجام دیتے ہیں اور ان کے ہی مانند گفتگو کرتے ہیں۔ فقیر محمد گویا کے اس ترجمے کی اہمیت اس لئے بھی مزید ہوجاتی ہے کیونکہ لکھنو میں انیسویں صدی کے نصف اول میں سوائے فسانہ عجائب کے کوئی دوسرا بڑا نثری کارنامہ یہی ترجمہ ہے جس میں تخلیقی جوہر دکھائے گئے ہیں۔ زیر نظر نیر مسعود صاحب نے بستان حکمت سے کچھ حصے منتخب کرکے پیش کئے ہیں۔ تاکہ یہ نثری کارنامہ طاق نسیاں نہ ہوجائے۔
گویا۔ نواب حسام الدولہ تہور جنگ فقیر محمدؐ خاں گویاؔ مشہور شاعر جوش ملیح آبادی کے جد امجد لکھنؤ کے رہنے والے ۔عربی و فارسی کے جید عالم اور مشہور شاعر تھے ۔نواب اودھ کی سرکار میں رسالداری اور نظامت کے اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے ۔دو ہزار روپیہ ماہوار تنخواہ پاتے تھے ۔فرائض ملازمت کے علاوہ نہایت علم دوست اور خوش طبع بزرگ تھے ۔اہل علم اور شعرا کا ہر وقت ان کے ہاں جمگھٹا لگا رہتا تھا ۔ان کا کلام دیوان گویا کے نام سے چھپ چکا ہے ۔مشہور عالم فارسی کتاب اور سہیلی کا سب سے پہلے انہوں نے ہی 1836میں ترجمہ کیا اور دبستان حکمت نام رکھا۔1850 میں انتقال کیا۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets