aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
انتظار حسین کا شمار اردو کے اہم افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے ان کے ناول اور افسانے ادب کی بلندی پر فائز ہیں ۔ ان کا کمال یہ تھا کہ وہ علامتی اور استعاراتی اسلوب کو نت نئے ڈھنگ سے بالکل اچھوتے انداز میں استعمال کرنے والے فن کار تھے ۔ان کا فن عوامی نہیں تھا بلکہ عام قاری کی فہم و بصارت سے کوسوں دور نظر آتا ہے ۔ ان کی تخلیق کا مطالعہ کر نے کے لیے وسیع مطالعہ ضروری ہے ۔ان کی کہانیوں میں چار طرح کے رنگ نظرآتے ہیں اول معاشر ہ کی عکاسی ، دوم رومانویت واخلاقیت کی منظر کشی اس میں وہ اخلاق ورومان کے زوال کے قصے بیان کرتے ہیں ۔سوم سیاسی اورسماجی اور چوتھا رنگ ان کی کہانیو ں میں جو نظرآتا ہے وہ ہے نفسیاتی ۔ ان کے علاوہ ہندودیومالائی اور بودھ جاتک کتھاؤں کابھی رنگ ان کے افسانوں میں جابجا نظرآتا ہے ۔ ان کے اس مجموعے میں سترہ افسانے ہیں ۔ ایک طر ح سے یہ شہر افسوس کا دوسرانا م ہے ، کیونکہ یہی کہانیا ں بھارت سے پہلے جب پاکستا ن میں شائع ہو ئی تھیں تو’’ شہر افسوس ‘‘ نام تھا لیکن بھارت میں ’’ انتظار حسین کے سترہ افسانے ‘‘ کے نام سے شائع ہوئی ۔ یہ ان کامقبول ترین مجموعہ رہا ہے ۔جس رنگ کے افسانوں کے لیے وہ جانے جاتے ہیں وہ اس میں مکمل طور پر پایا جاتا ہے ۔
इन्तिज़ार हुसैन का जन्म 21 दिसंबर 1925 को मेरठ में हुआ था। मेरठ कॉलेज से बी.ए. किया और पाकिस्तान बनने के बाद वो लाहौर पाकिस्तान चले आए, जहाँ जामिया-ए-पंजाब से उर्दू में एम.ए करने के बाद वे पत्रकारिता के क्षेत्र से जुड़ गए। उनका पहला फ़िक्शन संग्रह "गली कूचे " 1953 में प्रकाशित हुआ था। वो रेडियो में कॉलम भी लिखते थे। उर्दू अफ़्साना निगारी में उनका मक़ाम बहुत बुलंद है और उनके बेशुमार अफ़्साने लोगों में चर्चा का विषय हैं। उपन्यास लेखन में उनका विशेष स्थान है। उनकी किताबों का मुख़्तलिफ़ ज़बानों में तर्जुमा हुआ है। समीरा गिलानी ने उनकी किताब "बस्ती" और "ख़ाली पिंजरा" का फ़ारसी में अनुवाद किया है।
उनको हुकूमत-ए-पाकिस्तान ने सितारा-ए-इम्तियाज़ से नवाज़ा है। इन्तिज़ार हुसैन पाकिस्तान के पहले अदीब हैं जिनका नाम मैन बुकर प्राइज़ के लिए शॉर्ट लिस्ट किया गया था ।
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets