aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
بہمنی دور کے پہلے شاعر فخر الدین نظامی کی یہ تخلیق ،دکنی اردو کی قدیم مثنوی ہے ، یہ اردو زبان کی پہلی طبع زاد مثنوی ہے ،یہ اردو زبان کا قدیم ترین ادبی و لسانی نمونہ ہے، اس کی زبان کافی پرانی ہےاوراردو زبان کےقدیم لہجے"دکنی" میں لکھی گئی ہے،اس کا قصہ تبدیلئ قالب سے متعلق ہے، تبدیلئ قالب،سنسکرت ادب کا نہایت مقبول موضوع رہا ہے، یہ تصور اصل میں ہندوعقیدہ "تناسخ" سے جڑا ہوا ہے، راجہ کدم راو، اکھر ناتھ نامی یوگی سے اپنی روح کو دوسرے کے مردہ جسم میں منتقل کرنے کا منتر سیکھتا ہے ۔ جس کے نتیجے میں اسے بڑی پریشانیوں اور مصائب و آلام کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہندوؤں کی بدشگونی اور توہم کو بھی قصے کا جز بنایا گیا ہے ۔ جب کدم راو جوگی اکھر ناتھ سے منتر سیکھنا شروع کرتا ہے تو مندر کا کلش ٹوٹ کرگر پڑتا ہے ۔قدیم ہندو عقیدے کے مطابق یہ بدشگونی ہے۔ مثنوی کے مرتب جمیل جالبی نے مثنوی کا تعارف و تجزیہ کرتے ہوئے بیش قیمت معلومات فراہم کی ہیں۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets