aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
مرزاہادی رسوا کا نام ،ناول نگاری کی فہرست میں ہمیشہ سر فہرست رہاہے،انھوں نے اپنی جدت پسندی ،وسعت نظر،باریک بینی،فنی اوصاف،اور قوت مشاہدہ سے اردو ناول نگاری کی نئی راہ ہموار کی۔ انھوں نے شعوری طور پر اردو ناول کوفنی اوصاف کا حامل بنانے کی بھی کوشش کی،ان کے ناولوں کی ایک اہم خصوصیت یہ بھی ہے کہ انھوں نے اپنے ناولوں کے ذریعہ عورتوں کی زوال آمادہ تہذیب میں طوائفوں کی زندگی کو نئے زاویے سے حقیقی ترجمانی کی،جس کی مثال ان سے پہلے اردو ادب میں نہیں ملتی ۔اس زمانے میں عورتوں کے حالات کی ایسی تصویر کشی اور کہی نہیں ملتی کہ شریف آدمی طوائفوں کی زلفوں میں سکون تلاش کرتا جب کہ بیویاں گھر کی زینت کا سامان بن کر اپنی قسمت کا رونا روتی، امراؤ جان ادا ‘ جسے ہم پہلا تانیثی ناول بھی کہہ سکتے ہیں اس سلسلے میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے ،جس میں انھوں نے نہ صرف اس زمانے کی عکاسی کی بلکہ اس عہد کا ترجمان بنادیا۔اس ناول میں انھوں نے ایک ایسی لڑکی کی زندگی کی ترجمانی کی ہے جو گناہ آلود سماج و سوسائٹی میں زندگی بسر کرنے والی بے بس و لاچار اپنے اندر پوشیدہ ایک نیک اور شریف عورت کو بے نقاب کیا ہے،زیر نظر کتاب مرزا رسوا کے صرف دو ناولوں یعنی امراؤ جان ادا اور"شریف زادہ" کے حوالے سے ہے چونکہ ان دونوں ناولوں میں ایک ہی عہد کی مختلف اقدار کی پابند عورتوں کو پیش کیا گیا ہے ،اس لیے مرزا کے ان دونوں دونوں کے حوالے سے اس کتاب میں گفتگو کی گئی ہے، اس کتاب کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، پہلے حصے میں ، عورتوں کے حوالے سے دنیا کے مختلف مذاہب کے نظریات اور تاریخ کی روشنی میں مختلف تہذیبی مراکز میں عورتوں کی حیثیت پر تبصرہ اور قدیم دور سے انیسویں صدی عیسوی تک ہندوستانی سماج میں عورتوں کی حالت پر گفتگو کی گئی ہے، اور دوسرے حصے میں مرزا رسو اکے مزکورہ بالا دونوں ناولوں کے نسوانی کرداروں کا جائزہ لیا گیا ہے ، آخر میں ان تمام حوالہ جات کا ذکر بھی موجود جن کے تعاون سے یہ کتاب تحریر کی گئی ۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets