aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
پروفیسر احتشام حسین کا شمار اردو کے نام ور نقادوں میں ہوتا ہے، خاص طور پر ترقی پسند تنقید کا ذکر ان کے نام کے بغیر نامکمل ہے۔ لیکن وہ صرف نقاد ہی نہیں تھے، بلکہ استاد، افسانہ نگار، سفر نامہ نگار، ڈرامہ نگار اور شاعر بھی تھے۔احتشام حسین کا لہجہ ایک مفکر شاعر کا لہجہ ہے۔ جو اندر ہی اندر کرب آگہی کا عذاب سہ رہا اور دھیمے دھیمے سلگ رہا ہے یہ کیفیت کسی ذاتی غم کی نسبت سے بھی ہو سکتی ہے لیکن اس میں اپنے عہد، اپنے نصب العین اور انسان نواز آفاقیت کی موج تہہ نشیں کو باآسانی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ احتشام حسین کی شاعری غالب، اقبال، جوش، فراق، مجاز اور فیض کے خاندان سخن سے تعلق رکھتی ہے۔ اس شاعری کا ایک خاصہ یہ بھی ہے کہ ہر استاد سے فیض حاصل کرنے کے باوجود اپنی انفرادیت کواجاگر کرنے اور اپنے ذاتی لب و لہجہ کو متشکل کرنے کا ہنر بھی سکھاتی ہے اور یہ وصف احتشام حسین کی شاعری میں موجود ہے۔ زیر نظر کتاب"روشنے کے دریچے"سید احتشام حسین کا شعری مجموعہ ہے۔ اس مجموعہ میں احتشام صاحب کی وہ غزلیں اور نظمیں شامل ہیں جو انھوں نے 1933 کے بعد لکھی تھیں ۔روشنی کے دریچے کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیاہے۔پہلے حصے کو "وجدان" کا نام دیا گیاہے،اس حصے میں 1933 سے لیکر 1971 تک لکھی گئی غزلیں شامل ہیں ، جبکہ دوسرے حصہ "شوق فضول "ہے اس حصے میں ان کی ساری نظمیں شامل ہیں اور تیسرا حصہ "آوازیں" کے نام سے ہےاس حصہ میں ان کی وہ نظمیں شامل ہیں جو انھوں نے 1965 کے بعد ا۔ح نور ازل کے فرضی نام سے لکھیں تھیں اور ہ نظمیں مختلف رسائل میں شائع بھی ہوئی تھیں۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets