aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
شمس الرحمن فاروقی کی تحریروں کی سب سے زیادہ نمایاں صفت جدید تر مباحث کا حامل ہونا ہے ان کی ہر تحریر کچھ پرانی لکیروں کو کاٹتی ہے اور کچھ نئی لکیریں کھینچتی ہے۔آپ ان سے اختلاف یا اتفاق کرسکتے ہیں لیکن ان کے پیچھے موجود ایک گہری فکرکے تسلسل اور سخت تنقیدی ریاضت کو تسلیم کرنا ہی پڑتا ہے ۔فاروقی کے یہاں تنقید باضابطہ اپنے ایک علمی ڈسپلن کے ساتھ آئ ہے ۔ان کی تحریروں کا خاص منطقی ،وضاحتی اور استدلالی انداز اردو تنقید کی پوری روایت میں ہمیں چونکاتا ضرور ہے ۔یہ کریڈٹ بھی فاروقی کو ہی جاتا ہے کہ اردو تنقید میں بہت سے نئے نظریاتی مباحث کا آغاز ان کی تحریروں سے ہوا ہے ۔شاعری،شعر فہمی ،شعر اور نثر کے مابین فرق،افسانہ،اس کی فنی تشکیل اوراس کی قرآت کے مسائل کے سیاق میں جو بنیادی سوالات ان کی تحریرں نے قائم کئے ہیں وہ آج بھی اردو تنقید کا حوالہ ہیں۔تعبیر کی شرح میں کئی معرکتہ الآرا مضانین ہیں ’’ہماری کلاسیکی غزل کی شعریات ‘‘ مرثیے کی معنویت ‘‘ تعبیر کی شرح ‘‘یہ ایسے مضامین ہیں جو ادبی اور تنقیدی معاملات میں ایک نئی سوچ کا اضافہ کرتے ہیں ۔شمس الرحمان فاروقی کی اور بھی کتابیں ریختہ پر موجود ہیں ۔آپ پڑھئے اور اپنے خیالات کا اظہار کیجئے ۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets