aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
شمس الرحمن فاروقی کی تصانیف علمی وادبی اعتبار سے بنیادی حوالوں کی حیثیت رکھتی ہیں۔ان کی کہی بات بطور حوالہ مستند مانی جاتی ہے۔انھوں نے نہ صرف اردو شعریات کے خد وخال کو نمایاں کیا ہے بلکہ مغربی ادب کے علاوہ عربی ، فارسی اور سنسکرت کے فکری و ادبی سرمائے سے استفادہ کرتے ہوئے اردو کی لسانی ،تہذیبی اور ادبی تونگری میں اضافہ کیا ہے۔ شمس الرحمن فاروقی کی یہ تصنیف"تنقیدی افکار"بھی ادب کے متفرق اصناف سے متعلق مختلف تنقیدی موضوعات کا احاطہ کرتی اہمیت کی حامل ہے۔جس میں جدید شعری جمالیات ،ارسطو کا نظریائی ادب ،"ہماری شاعری "پرایک نظر۔ ادبی تخلیق اور ادبی تنقید، ،اردو لغات اور لغت نگاری وغیرہ جیسے مختلف ادبی موضوعات پر فاروقی صاحب کے پر مغز مضامین شامل ہیں ۔ ان موضوعات کو سمجھنے میں فاروقی صاحب کی تنقیدی آرا معاون ہے۔گو یہ مضامین مشکل ہیں لیکن فاروقی صاحب نے ان موضوعات پر مختلف حوالوں اور دلائل کے ساتھ سیر حاصل گفتگو کی ہے جس سے قارئین بہتر طور سے ان موضوعات کوسمجھ سکتےہیں۔چونکہ کتاب میں شامل سبھی مضامین تنقیدی نظریہ کے حامل ہیں۔جس سے فاروقی صاحب کا تنقیدی نقطہ نظر بھی واضح ہوجاتا ہے۔