aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
اردو ادب میں امیج کو پیکر اور امیج سازی کو پیکرتراشی کی اصطلاحوں کے ذریعے پیش کیا جاتا ہے۔ پیکر کو ہم ایک ایسی لسانی تصویر کہہ سکتے ہیں جس کے ذریعے شاعر نہ صرف اپنے نازک ، نادر اور نایاب شعری تجربات کا اظہار کرتا ہے بلکہ ان کو نکھارنے ، سنوارنے اور روشن کرنے کا کام بھی کرتا ہے۔ پیکر ایک ایسا الہامی نزول ہے جس کا زیادہ تر حصہ لاشعوری ہوتا ہے اور وہ اس وقت ورود کرتا ہے جب شاعر کے جذبات بام عروج پر ہوتے ہیں۔ یہ ورود بنیادی طور پر شاعر کے جمالیاتی تجربوں سے متعلق ہوتا ہے۔ یعنی پیکرشاعر کے تصورات اور اس کے تخیل کی رہگزاروں سے متعلق ہوسکتا ہے ، اشیا اور ان کے اوصاف سے متعلق ہوسکتا ہے۔ علاوہ ازیں ان چیزوں اور واقعات سے متعلق بھی ہوسکتا ہے جن سے وہ گزرا ہو ، جو اس کی یادداشت میں محفوظ ہوں یا اس کو یاد بھی نہ ہوں۔ یعنی شاعر کے پیدا و پنہاں جمالیاتی تخلیقی اور مادی وغیر مادّی تجربوں کا عطر پیکر کہلاتا ہے۔پیکر شاعری کا وہ طاقتور لسانی عنصر یا اثر آفریں صورت اظہار ہے جو شاعر کے مافی الضمیر کو سامع و قاری کے ذہن پر پوری طرح منکشف کردیتا ہے اور جس سے تصور و خیال کی چلتی پھرتی تصویریں آنکھوں کے سامنے آجاتی ہیں۔ شاعر کا نصب العین اپنے اندرون کا اظہار ہوتا ہے اس لیے پیکر کو شاعر کی شخصیت کا آئینہ بھی کہا جاسکتا ہے۔زیر نظر کتاب شہپر رسول کی لکھی ہوئی کتاب ہے جس میں انھوں نے ادبی پیکر کے مفہوم ۔کلاسیکی اور نو کلاسیکی غزل میں پیکر تراشی ،ترقی پسند غزل میں پیکر تراشی ، ،جدید غزل میں پیکر تراشی ،وغیرہ موضوعات پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets