aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
اردو میں لغت نویسی كا سلسلہ ابتدا سے ہی ملتا ہے۔یہ كام تحقیقی اور محنت طلب ہے۔ ڈاكٹر مسعود ہاشمی نے اپنی كتاب "اردو لغت نویسی كا تنقیدی جائزہ"میں لغت نویسی كےتاریخٰ ارتقا كے پس منظر میں آج كے عہد كے مسائل كوشامل كرتے ہوئے تحقیقی مواد كے ساتھ مدلل بحث كی ہے۔جو اپنے موضوع اور كام كی نوعیت كے اعتبار سے اہمیت كی حامل ہے۔جس كی خصوصیت معروضی انداز كا تقابلی مطالعہ اور تجزیاتی پیش كش ہے۔ہاشمی صاحب نے اردو لغت نویسی كی ابتدا كی نشان دہی منظوم نصاب ناموں سے كی ہے اور خاص طور پر اردو ،اردو لغت نویسی كا جائزہ لتے ہوئے علمی معائب اور محاسن كی طرف بھی اشارہ كیا ہے۔ہاشمی نے اپنی تحقیق وتنقید كی روشنی میں یہ نتایج اخذ كیے ہیں كہ ہر لغت نگار نے تدوین لغت كی بنیادی غایت زبان و بیان كی فصاحت كا مكمل خیال اپنے ذاتی علم ،معلومات ،مشاہدے ،تجربے اور مطالعے تك محدود ہوكر ركھا ہے ۔اس كے علاوہ بیشتر لغات میں ایك جیسا طریقہ كار اپنایا گیا ہے جبكہ مختلف طریقوں سے بھی مثالیں پیش كی جا سكتی تھیں۔ اگرچہ مصنف نے اہم لغات كا تنقیدی جائزہ ان اصولوں اور قواعد و ضوابط كی روشنی میں لیا ہے جو خود لغات کے مولفین نے طے كیے تھے۔لیكن اپنی مثالوں سے ثابت كیا ہے كہ مذكورہ مولفین نے بیشتر صورتوں میں اپنی ہی وضع كردہ اصولوں كی نہ تو پابندی كی اور نا ہی اپنے ہی اختیار كردہ طریقوں سے انصاف كیا ہے۔اس طرح یہ كتاب اپنے تحقیقی مواد ،علمی مباحث اور تاریخی اعتبار سے اردو لغت نویسی كی تاریخ میں دستایز ی اہمیت کی حامل ہے۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets