aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
مختصر افسانہ (short story) کی آمد نے ادب کو اچانک سے وہ بلندی عطا کردی کہ اس کی رفتار اور ترقی میں پر لگ گئے۔ داستان کوتاہ جس دور اور حالات میں ہندوستانی ادب میں داخل ہوئی اس دور میں سرسید تحریک اپنی تمام تر ضروریات پوری کر چکی تھی اور اسے ضرورت تھی ایک نئی اور تازہ تحریک کی تاکہ منجمد اور فرسودگی کی طرف مائل ادب ایک بار پھر سے متحرک اور متجدد ہو جائے ۔ اسی لئے جب افسانہ آیا تو ساتھ میں ایک تحریک بھی لیکر آیا جسے اردو دنیا ترقی پسند تحریک کے نام سے جانتی ہے۔ اور اس نے ادب میں حقیقت نگاری اور مقصدیت کو پیش پیش رکھتے ہوئے اپنے ادب پارے تخلیق کئے۔ اس کے اولین افسانہ نگاروں نے اپنے تئیں یہ لازم قرار دیا کہ ادب سماج کا آئینہ ہے اس لئے ہمیں ادب میں حقیقت کو جوں کا توں بیان کرنا ہے گو بعض نے اس سے گریز بھی کیا مگر اکثر طرفدار ہی نظر آئے۔ یہ کتاب اسی عہد کی تحقیقی و انتقادی پہلو کو پیش کرتی ہے۔ کتاب پانچ ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلے باب میں مغربی ناقدین کے نظریات کو پیش کیا گیا ہے جن میں سے بیشتر مختصر افسانے میں ایک خیال اور تاثر کے قائل ہیں ۔ دوسرے باب میں مختصر افسانے کے ارتقاء کو بیان کیا گیا ہے ۔ تیسرا باب ابتدائی افسانہ نگار و ناقدین کے فنی نظریات پر محمول ہے۔ چوتھے باب میں آزادی کے بعد منظر عام پر آنے والے افسانوں پر انتقادی خیال پیش کیا گیا ہے۔ پانچویں باب میں افسانہ نگاروں کے فنی تصورات کو واضح کیا گیا ہے جن میں سے اکثر مقصدیت کے قائل ہیں ۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets