aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
اردو ادب میں جس طرح دوسری اصناف کو اہمیت ملی تمثیل نگاری کو وہ مقام نہیں مل سکا، شاید اردو اپنے شاعرانہ مزاج سے الگ ہٹ کر اسٹیج کی طرف خاص متوجہ نہیں ہوسکا، اور پھر پردے نے تو پورے عالم میں ہی اسٹیج کو نقصان پہنچایا ہے۔ لیکن پھر بھی مغربی ڈرامے کے پیش نظر اردو میں بھی کچھ اچھے اور یادگار ڈرامے تخلیق کئے گئے۔ رہی بات اردو میں یک بابی ڈرامے کی، تو مغربی علوم و فنو ن کے زیر اثر ہی یک بابی ڈرامے کی ابتداء ہو تی ہے۔ اس فن کا فروغ بھی تراجم سے ہوا۔ اس میں امتیا ز علی تاج کے علاوہ ڈاکٹر اشتیا ق حسین کا ’’نقش آخر’’ شاہد دہلوی کا ’’کھڑکی‘‘ عابد علی عابد،اشفاق احمد، احمد ندیم قاسمی،کے نام قابل ذکر ہیں۔ مزرا ادیب نے اس فن کو مزید عروج عطا کیا۔ ان کو اس فن کی باریک بینیوں کا علم ہے۔ ان کے ڈرامو ں میں ’’آنسو اور ستارے، لہو اور قالین اور رشتے کی دیوار‘‘ اپنی مثال آپ ہیں۔ پروفیسر فصیح احمد صدیقی نے نہ صرف اچھے یک بابی ڈرامے لکھ کر اس روایت میں اضافہ کیا بلکہ یک بابی ڈرامہ کی تاریخ و تنقید بھی لکھی اور خوب تحقیق و جستجو سے لکھی۔ اس سے پہلے یک بابی ڈرامے پر یہ دقیق نظر دیکھنے کو نہیں ملتی ہے۔ یہ ایک اردو یک بابی ڈرامہ سیریز ہے۔ جس میں یک بابی ڈرامے کے تمام پہلووں پر نہایت ذمہ دارانہ گفتگو کی گئی ہے۔ یہ سیریز چار حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلا حصہ اردو کا پہلا یک بابی ڈرامہ (تحقیق و تنقید) ہے۔ دوسرا حصہ جنگ آزادی ۱۸۵۷ سے لیکر حصول آزادی ۱۹۴۷ کی تاریخ و تنقید کا احاطہ کرتا ہے۔ تیسرا حصہ آزادی کے بعد سے دور حاضر تک کی تاریخ پر محیط ہے جبکہ آخری حصہ کا تعلق زیادہ تر فنی ہے جس میں تکنیک و تمثیل پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔ زیر نظر حصہ چہارم ہے۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets