aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
احسان دانش کو اردو ادب میں ایک انتہائی معتبر بزرگ انشا پرداز اور شاعر ہونے کادرجہ حاصل ہے۔ وہ ایک مزدور شاعرکے طور پر جانے جاتے ہیں۔وہ بنیادی طور پرانقلابی شاعر ہیں۔ان کی شاعری کا موضوع وہ مفلوک الحال طبقہ ہے جو ننگا اور بھوکاہے جو جھونپڑی میں زندگی کی تلخیوں سے دوچار ہوتے ہوئے زندہ رہنے کی دھن میں سسک رہا ہے اور بے رحم سماج کے ہاتھوں زندہ درگور ہے۔احسان دانش ایسے تباہ حال اور پسے ہوئے لوگوں کے طبقے سے اس قدر قریب رہے ہیں کہ ان کے دھڑکتے دلوں کی آواز خوب سن سکتے ہیں۔واقعات و مناظر کا ہو بہو پیش کرنا آپ کا امتیازی پیرایۂ بیان ہے ۔یہ تصویر کشی کے خدو خا ل بھی وہ ایک فنکارکی طرح کرتے ہیں اورتصویر کے خدو خال اس طرح نمایاں کرتے ہیں کہ ضرورت و خواہش کے مطابق اثرکم یا زیادہ ہوتا رہتا ہے۔اکثر اس اثر کو تیز کرنے کے لیے احسان دانش ایک بہت دلکش ،تمہید یا پس منظر دے کر مفلسی کی کئی دل سوز تصویر پیش کرتے ہیں یا امیروں کی شان و شوکت کے مقابلے میں غریبوں کی بے کسی اور حرماں نصیبی دکھاتے ہیں یاکبھی فطرت کی مسرت بخش آغوش میں کسی مصیبت زدہ کو اس طرح دکھاتے ہیں کہ تمام کائنات رونے پر مجبور ہو جائے۔ احسان دانش کے کلام میں الفاظ اور تراکیب کی خوبصورتی اور دل کشی ایک خاص حیثیت رکھتی ہے ۔ منظر نگاری کے باب میں لہجے کی سچائی اور بیان کی شگفتگی کا امتزاج حسن فطرت کو چار چاند لگا دیتاہے۔ زیرنظر کتاب "زخم و مرہم " ان کا شعری مجموعہ ہے جس میں نعتیہ کلام سے لیکر توہین ، بے بسی ، مزدور،سرمایہ دار،دیہات کی صبح و شام اور وعدہ خلافی جیسے موضوعات پر نظمیں شامل ہے۔
एहसानुल-हक़ (1914-1982)ज़िन्दगी का हौसला और जोश बढ़ाने वाली शाइरी के लिए मशहूर। कान्धला, मुज़फ़्फ़र नगर (उत्तर प्रदेश) में जन्म। ग़रीबी ने चौथी क्लास से आगे न पढ़ने दिया। घर चलाने के लिए मज़्दूरी करने लगे। 15 साल की उम् में लाहौर जा बसे और वहाँ भी मज़्दूरी, चौकीदारी और बाग़बानी जैसे काम किए। फिर एक बुक डिपो में नौकरी मिल गई। इन सब कामों के बीच पढ़ाई भी की और शाइरी भी। ‘ताजवर’ नजीबाबादी के शागिर्द थे।
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets