کتب خانہ: تعارف
اقبال کا بھوپال سے خاص تعلق ہے، علامہ اقبال نے اپنی کتاب ”ضربِ کلیم“ بھوپال کے نواب سر حمیداللہ خاں کے نام منسوب کی ہے، اقبال نے بھوپال میں قیام کے دوران کئی نظمیں بھی تخلیق کی ہیں۔ اقبال نے اکثر بھوپال کا دورہ کیا اور وہاں بغرض علاج اور دیگر وجوہات کی بنا کافی عرصہ قیام بھی کیا۔ اسی تعلق کی بنا پر بھوپال میں اقبال کے نام سے ایک لائبریری منسوب کی گئی۔ "اقبال لائبریری" 1939 میں قائم ہوئی تھی اور رفتہ رفتہ وسطی ہندوستان کے بڑے کتب خانوں میں شمار ہونے لگی تھی۔ علامہ اقبال سے موسوم یہ لائبریری بھوپال کے شیش محل کے سامنے واقع ہے۔ علامہ جن دنوں بھوپال گئے تھے، انہوں نے اسی عمارت میں قیام کیا تھا۔ اس کتب خانے میں کہا جاتا ہے کہ اسّی ہزارکتابیں موجود تھیں۔ ان میں سب سے زیادہ اردو کتابیں اور رسالوں کی بندھی ہوئی جلدیں تھیں۔ اقبال لائبریری ایک غیر سرکاری ادارہ ہے، اس کے وسائل قلیل ہیں، عملے کو برائے نام اجرت ملتی ہے اور کئی رضاکار بلا معاوضہ کام کرتے ہیں۔ لیکن پچھلے دنوں موسلا دھار بارش اپنے ساتھ ایسا ریلا لائی کہ دیکھنے والے کہتے ہیں کہ اچانک سب کچھ تیرنے لگا۔ اور ایک بیان کے مطابق بے شمار کتابیں بھیگ کر پانی میں گھُل گئی تھیں۔ لیکن اب ریختہ کی ڈیجیٹل لائبریری نے اقبال لائبریری، بھوپال کی زیادہ تر کتابوں کو محفوظ کرلیا ہے، جہاں شوکت سبزواری کی "اردو لسانیات"، سید عقیل کی "اردو مثنوی کا ارتقا"، فاروق جائسی کی "اردو غزل کی سرحدیں"، سید عابد علی وجدی کی "تاریخ ریاست بھوپال"، مرزا علی لطف کی "تذکرہ گلشن ہند"، شوکت تھانوی کی "چار سو بیس"، ندا فاضلی کی "دیواروں کے بیچ"، شبیر صدیقی کی "شام اودھ"، ارسطو کی "شعریات"، علی عباس حسینی کی "کہانیاں"، جون ایلیا کی "گمان"، فیض احمد فیض کی "مہ و سال آشنائی"، جیسی اور اس کے علاوہ بہت ساری نارد و نایاب کتابیں یہاں آن لائن پڑھنے کے لئے دستیاب ہیں۔