عاشقی کے آشکارے ہو چکے
عاشقی کے آشکارے ہو چکے
حسن یکتا کے پکارے ہو چکے
اٹھ گیا پردہ جو فی مابین تھا
من و تو کے تھے اشارے ہو چکے
ہے بہار گلشن دنیا دو روز
بلبل و گل کے نظارے ہو چکے
چل دیئے اٹھ کر جہاں چاہے وہاں
ایک رنگی کے سہارے ہو چکے
یاس سے کہہ دیں گے وقت قتل ہم
ہم تو اے پیارے تمہارے ہو چکے
واصل دریا جو قطرہ ہو گیا
غیریت کے تھے پکارے ہو چکے
گلشن ہستی میں دیکھی تھی بہار
اوج پر جو تھے ستارے ہو چکے
ورطۂ دریا کا غم جاتا رہا
غوطہ کھاتے تھے کنارے ہو چکے
نیک و بد سے تم کو مرکزؔ کیا غرض
دور دشمن تھے تمہارے ہو چکے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.