اگرچہ آج بھی زندہ ہیں لیکن کل میں رہنا ہے
اگرچہ آج بھی زندہ ہیں لیکن کل میں رہنا ہے
مسلسل ارتقا کے دستۂ اول میں رہنا ہے
ابھی ہم سانس لینے کے بہانے سانس روکیں گے
کشاکش اور کشش کے آہنی چنگل میں رہنا ہے
یہ دل ہے کہ گل نازک عجب ہے اس کا مستقبل
اسے انگار بن کے درد کی منقل میں رہنا ہے
ہوئی تھی برف باری تو وہاں کوہ گراں ہم تھے
اسی باعث تو اب سلگے ہوئے جنگل میں رہنا ہے
ہوا میں خواہش پرداز نے بھی پر نکالے ہیں
زمین رزق ہے مجھ کو اسی دلدل میں رہنا ہے
شکایت کا محل کیا ہے مقام رحم ہے یہ تو
مرے قاتل کو آئندہ اسی مقتل میں رہنا ہے
تمہاری یاد کا ساون برستا ہے برسنے دو
کہ ڈوبوں یا تروں مجھ کو اسی جل تھل میں رہنا ہے
عبارت میں مقام و مرتبہ تو بعد کی شے ہے
ابھی قرطاس پر موہوم سے جدول میں رہنا ہے
ہمیشہ سعدیہؔ کو موسموں کا ساتھ دینا ہے
کبھی کھدر پہننا ہے کبھی مخمل میں رہنا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.