دکھ تو دکھ تھے جو ادھر بہر اماں آ نکلے
دکھ تو دکھ تھے جو ادھر بہر اماں آ نکلے
آپ اس دل کے خرابے میں کہاں آ نکلے
اک ذرا نکلے تو آواز دبا دیں اپنی
کیا کریں چپ کا اگر اس کی زباں آ نکلے
جانے کب قہقہے رونا پڑیں احباب کے ساتھ
جانے اطراف میں کب شہر فغاں آ نکلے
کچھ تو دل جوئی چلے دھوپ نما خواہش کی
دشت میں تذکرۂ ابر رواں آ نکلے
میرے قدموں سے کرے جوں ہی مسافت آغاز
زاد رہ میں سے اسی وقت زیاں آ نکلے
دیکھتے دیکھتے سورج کا لہو شام ہوئی
شب کے آلام تھے جتنے بھی بجاں آ نکلے
اپنے صحرا سے بندھے پیاس کے مارے ہوئے ہم
منتظر ہیں کہ ادھر کوئی کنواں آ نکلے
کیا میں پھر بھی نہ کروں آگ سلگنے کا گماں
جب مری سانس کی نالی میں دھواں آ نکلے
آئنے بیچ کے اب چلتے بنو خاورؔ تم
اس سے پہلے کہ کوئی سنگ گراں آ نکلے
- کتاب : namood (Pg. 13)
- Author : khaawar jilaani
- مطبع : humkhayal publishar pakishtan
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.