ہم ان کو چھین کر لائے ہیں کتنے دعوے داروں سے
ہم ان کو چھین کر لائے ہیں کتنے دعوے داروں سے
شفق سے چاندنی راتوں سے پھولوں سے ستاروں سے
ہمارے زخم دل داغ جگر کچھ ملتے جلتے ہیں
گلوں سے گل رخوں سے مہوشوں سے ماہ پاروں سے
زمانے میں کبھی بھی قسمتیں بدلا نہیں کرتیں
امیدوں سے بھروسوں سے دلاسوں سے سہاروں سے
سنے کوئی تو اب بھی روشنی آواز دیتی ہے
گپھاؤں سے پہاڑوں سے بیابانوں سے غاروں سے
برابر ایک پیاسی روح کی آواز آتی ہے
کنوؤں سے پن گھٹوں سے ندیوں سے آبشاروں سے
کبھی پتھر کے دل اے کیفؔ پگھلے ہیں نہ پگھلیں گے
مناجاتوں سے فریادوں سے چیخوں سے پکاروں سے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.