ایماں کی نمائش ہے سجدے ہیں کہ افسانے
ہیں چاند جبینوں پر اور ذہن میں بت خانے
کچھ عقل کے متوالے کچھ عشق کے دیوانے
پرواز کہاں تک ہے کس کی یہ خدا جانے
کم ظرف کی نیت کیا پگھلا ہوا لوہا ہے
بھر بھر کے چھلکتے ہیں اکثر یہی پیمانے
اب رنگ کے نسلوں کے بت ٹوٹ چکے ساقی
اب کیوں دیئے جاتے ہیں پہچان کے پیمانے
تمہید قیامت ہے اک رات کا ہنگامہ
احساس کی شمعیں ہیں جذبات کے پروانے
ساقی کے سلیقے پر حسن دو جہاں صدقے
سیاروں کی گردش ہے یا دور میں پیمانے
یہ ایک لڑی کے سب چھٹکے ہوئے موتی ہیں
کعبے ہی کی شاخیں ہیں بکھرے ہوئے بت خانے
کچھ تشنہ لب اے ساقی خوددار بھی ہوتے ہیں
اڑ جائے گی مے رکھے رہ جائیں گے پیمانے
اک کافر مطلق ہے ظلمت کی جوانی بھی
بے رحم اندھیرا ہے شمعیں ہیں نہ پروانے
تاریخ ورق اپنا الٹے گی سراجؔ اک دن
آفاق میں پھر زندہ ہوں گے مرے افسانے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.