اک دھواں سا اٹھ رہا تھا شہر میں دو چار دن
اک دھواں سا اٹھ رہا تھا شہر میں دو چار دن
بعد اس کے خوب برسیں بارشیں دو چار دن
ہر طرف ناشاد چہرے دکھ رہیں ہیں آج کل
مسکرا کر ہم سے کوئی آ ملے دو چار دن
وصل میں دو پل سکوں کے آج گزریں گے تو کیا
پھر وہی کل سے پرانے سلسلے دو چار دن
جانے والا کہہ گیا دو چار دن میں آئے گا
کس کہ صحبت میں بتائیں ہم شب دو چار دن
مے کشی ہاں چھوڑ دی ہے یاد ہنگام قسم
پر کسی کی یاد میں پیتے رہے دو چار دن
آتش الفت میں جلنے کا الگ سا ہے مزہ
جو بھی گزرے خوب گزرے عشق کے دو چار دن
گھر مرے آتی نہیں ہے اب فلک سے روشنی
میرے آنگن رہنے دو جلتے دئے دو چار دن
مانگتا ہوں اپنے حق کے تم سے پل قربت کے میں
سال نامہ میں نہیں ہے کیا ترے دو چار دن
میں نے سنبھالے رکھا تھا با حفاظت پر مجھے
وقت پر ملتے نہیں ہیں وقت سے دو چار دن
گمشدہ صادقؔ کہیں ہے سال و مہ میرے سبھی
لاپتہ جانیں کہاں ہیں وہ مرے دو چار دن
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.