جو ہے ہی نہیں وہ ابھی چاہئے
جو ہے ہی نہیں وہ ابھی چاہئے
دعا یوں نہ اے ملتجی چاہیے
یہی چاہیے بس یہی چاہیے
ہمیں زندگی سروری چاہیے
دعا مانگنے کا سلیقہ نہیں
ان آنکھوں میں کچھ تو نمی چاہیے
اگے فصل کیسے زمیں بانجھ ہے
نمو کے لئے کچھ نمی چاہئے
نہیں ہے پتہ کل پھر آئے نہ آئے
ہمیں وعدۂ سرمدی چاہیے
جو گھڑنا ہو کوزہ بھی کوئی تمہیں
تو مٹی بھی چکنی چھنی چاہیے
بڑھا جا رہا ہے جو خواہش کا جال
تو پھیلی ہوئی زندگی چاہیے
نہ ہو اتنی گرمی کہ جل جائے بات
لبوں پر نمایاں تری چاہیے
زباں پر نہ ہو شکوۂ تشنگی
سمندر سی دریا دلی چاہیے
اگر دکھ ہے پیغمبروں کی طرح
تو پھر مجھ کو پیغمبری چاہیے
گزارے ہیں جیسے یہ دو چار دن
ہزاروں برس زندگی چاہیے
طلب گار ہوں تیرے جلوے کا میں
نہیں مجھ کو لیکن غشی چاہیے
درختوں سے چاہے قلم کاٹ لو
نہ سائے میں اس کے کمی چاہیے
بھٹکتا ہوں رستے پہ میں اس لئے
کہ منزل نہیں گمرہی چاہیے
اڑو تم جہازوں سا نصرتؔ مگر
زمیں پر نظر بھی جمی چاہیے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.