کیسا وہ موسم تھا یہ تو سمجھ نہ پائے ہم
کیسا وہ موسم تھا یہ تو سمجھ نہ پائے ہم
شاخ سے جیسے پھل ٹوٹے کچھ یوں لہرائے ہم
برسوں سے اک آہٹ پر تھے کان لگائے ہم
آج اس موڑ پہ آپ ہی اپنے سامنے آئے ہم
ہم سے بچھڑ کر تو نے ہم کو کیسا دیا ہے شاپ
آئینے میں اپنی صورت دیکھ نہ پائے ہم
پیڑوں کا دھن لوٹ چکے ہیں لوٹنے والے لوگ
جسم پہ مل کر بیٹھے ہیں پیڑوں کے سائے ہم
سورج نگلیں چاندنی اگلیں شاید ممکن تھا
لیکن اپنی اس امید کے کام نہ آئے ہم
پربت ہو یا پیڑ گھنا ہو یا کوئی دیوار
تیری یاد لئے پھرتے ہیں سائے سائے ہم
گم ہوتی سی لگتی ہے اس گھر کی ہر اک چیز
آئے ہیں بازار سے کیسے تھکے تھکائے ہم
اب یہ تیری اپنی خوشی ہے جو تجھ کو راس آئے
ہم آئے تو ساتھ اپنے سب موسم لائے ہم
کون کسی کا ہوتا ہے یہ جانتے ہیں ہم بھی
پھر بھی سب سے ملتے ہیں یہ بات بھلائے ہم
آنکھ کھلی تو سناٹے کی کوکھ میں تھے بے سدھ
کوئی عجب آواز تھی جس پر اڑتے آئے ہم
دھرتی پر رکھ دیں تو دھرتی کے ٹکڑے ہو جائیں
صبر و غم کا پتھر ہیں سینے سے لگائے ہم
لمحہ لمحہ ٹوٹ رہا ہے کس کی ٹھوکر سے
دیکھتے دیکھتے اجڑ رہے ہیں بسے بسائے ہم
کس کا چہرہ ابھر رہا ہے دل کے مشرق سے
دشا دشا میں گھوم رہے ہیں ہاتھ بڑھائے ہم
گاہ کوئی چٹان جہاں پر وقت کی چاپ تھمے
گاہ بنے بہتا ہوا پل اور ہاتھ نہ آئے ہم
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.