روبرو غم کے یہ تقدیر کہاں سے آئی
دلچسپ معلومات
نذر مظفر حنفی
روبرو غم کے یہ تقدیر کہاں سے آئی
اور ہتھیلی کی یہ تحریر کہاں سے آئی
دل کے گوشے میں جسے میں نے چھپا رکھا تھا
تیرے البم میں وہ تصویر کہاں سے آئی
دبی خواہش کا تھا اظہار تماشہ گویا
خواب تھا خواب یہ تعبیر کہاں سے آئی
فن کو میدان کھلا چاہئے جینے کے لئے
رقص کی راہ میں زنجیر کہاں سے آئی
زندگی کے ابھی آثار ہیں باقی ورنہ
دور تخریب میں تعمیر کہاں سے آئی
ڈھونڈنے نکلے تھے ہم موت کے معنی لیکن
زندگی کی نئی تفسیر کہاں سے آئی
اس کو آدم ہی کی تقصیر کا ثمرہ کہئے
ورنہ جنت کی یہ جاگیر کہاں سے آئی
وقت کا سیل کرامتؔ تجھے لے ڈوبا تھا
یک بیک یہ تری تدبیر کہاں سے آئی
- کتاب : Shakhe Sanobar (Pg. 231)
- Author : Karamat Ali Karamat
- مطبع : Kamran Publications,Odisha (2006)
- اشاعت : 2006
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.