وحشتیں بڑھتی گئیں ہجر کے آزار کے ساتھ
وحشتیں بڑھتی گئیں ہجر کے آزار کے ساتھ
اب تو ہم بات بھی کرتے نہیں غم خوار کے ساتھ
ہم نے اک عمر بسر کی ہے غم یار کے ساتھ
میرؔ دو دن نہ جئے ہجر کے آزار کے ساتھ
اب تو ہم گھر سے نکلتے ہیں تو رکھ دیتے ہیں
طاق پر عزت سادات بھی دستار کے ساتھ
اس قدر خوف ہے اب شہر کی گلیوں میں کہ لوگ
چاپ سنتے ہیں تو لگ جاتے ہیں دیوار کے ساتھ
ایک تو خواب لیے پھرتے ہو گلیوں گلیوں
اس پہ تکرار بھی کرتے ہو خریدار کے ساتھ
شہر کا شہر ہی ناصح ہو تو کیا کیجئے گا
ورنہ ہم رند تو بھڑ جاتے ہیں دو چار کے ساتھ
ہم کو اس شہر میں تعمیر کا سودا ہے جہاں
لوگ معمار کو چن دیتے ہیں دیوار کے ساتھ
جو شرف ہم کو ملا کوچۂ جاناں سے فرازؔ
سوئے مقتل بھی گئے ہیں اسی پندار کے ساتھ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.