سگھ مدرسہ، بچوں کا گھر، اینگلو عربک کالج ’’ایشیا‘‘ میرٹھ، آل انڈیا ریڈیو دہلی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، شالیمار فلم کمپنی پونا۔۔۔ اور بالآخر بمبئی۔ بیسویں صدی کے صاحب طرز جدید شاعر کی زندگی کے سفر کے یہ نشانات ہیں۔ بمبئی آکر شاید ہی کوئی واپس جاتا ہے اور اگر کوئی کسی مجبوری کے باعث چلا بھی جاتا ہے تو بمبئی اس کے دل میں بسی رہتی ہے۔ اخترالایمان جب قدم بہ قدم سفر کرتے بمبئی تک آگئے تو اسی شہرِ خوباں کے ہو رہے اور یہیں کی خاک میں مدفون ہیں۔
ادب میں اختر الایمان کی پہچان ایک شاعر کی طرح ہے۔ لیکن وہ تنہا شاعر ہیں جنھوں نے فلم میں رہ کر اپنی شاعری کو ذریعہ معاش نہیں بنایا۔ تقریباً نصف صدی وہ فلم انڈسٹری سے وابستہ رہے، فلموں کے لیے اسکرین پلے اور مکالمے لکھتے رہے لیکن (سوائے فلم ’’غلامی‘‘ کے اوپیرا کے) کوئی گانا انھوں نے فلم کے لیے نہیں لکھا۔ ایسا نہیں کہ فلم کی سطح تک اتر کر شاعری نہیں کرسکتے تھے مگر ان کا شاعری کے لیے جذبہ احترام تھا کہ انھوں نے اسے میوزک ڈائریکٹروں کی دھنوں کی تان پر قربان نہیں کیا۔ بلکہ اپنے ’’شعری جینیس‘‘ کو صرف سنجیدہ اور فکر انگیز شاعری کے لیے ہی محفوظ رکھا اور فلمی ادیبوں کی بھیڑ میں منفرد ہے۔ آج کے دور میں اپنے فن کے لیے اس قدر پرخلوص ہونا بے مثال ہے۔ اخترالایمان نے نہ صرف یہ کہ فلمی شاعری نہیں کی، بلکہ سیاسی اور نیم سیاسی قصیدے بھی نہیں لکھے۔ اپنی شاعری کو ہر مصلحت سے دور رکھا اور وہی کہا جو شدت سے محسوس کیا اس لیے وہ اپنے پہلے مجموعہ کلام ’’گرداب‘‘ کی اشاعت (۱۹۴۳ء) کے ساتھ ہی صفِ اول کے شاعروں میں شمار کیے جانے لگے تھے اور یہ بلند مرتبہ انھیں اپنے ہم عصروں میں ممتاز کرتا ہے۔ اخترالایمان کی شاعرانہ عظمت نہ کسی ’’تحریک‘‘ کی رہین منت ہے نہ کسی سیاسی یا غیرسیاسی گروہ یا شخصیت کی۔ وہ تنہا اپنے بل پر نمایاں رہے، بھیڑ میں سب سے الگ۔
راقم الحروف کی ملاقات اخترالایمان سے ٹھیک ساٹھ سال پہلے ہوئی۔ ۱۹۴۲ء ماہ جون، میرے آبائی قصبہ نگینہ میں آل انڈیا انصار کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس میں ہندوستان کے کونے کونے سےانصاری برادری کے لیڈران آئے تھے۔ میرا مطلب ہے ’’انصاری جدید‘‘ اور اس کانفرنس کی وجہ سے قصبہ کے ایک مشہور حکیم ایوب انصاری اپنی بدنامی سے اس قدر ڈرے ہوئے تھے کہ تین روزہ کانفرنس کے دوران اپنے گھر سے ہی نہ نکلے۔ اس کانفرنس کے سکریٹری مشہور رہنما قیوم انصاری نے ایسی گرم تقریر کی کہ غیر انصاریوں کو جوش آگیا اور نقص امن کا اندیشہ ہونے لگا۔ تب صدر محفل کے کہنے پر اخترالایمان نے جو ان ’جغادریوں‘ کے سامنے ’’طفل مکتب‘‘ معلوم ہو رہے تھے، وہ دھواں دھار تقریر کی کہ دونوں فریقوں کو شکایت کی گنجائش نہ رہی۔ انھوں نے کہا کہ دراصل یہ انگریزی سامراج کی حکمت عملی کا نتیجہ ہے کہ ملت اسلامیہ کے دو گروپ ایک دوسرے کے حریف بنے ہوئے ہیں۔ اخترالایمان اس انصار کانفرنس کے ہیرو ٹھہرے۔ اور بعد میں ہم نوجوانوں نے جو ’’ساقی‘‘ میں ان کی نظمیں پڑھتے تھے، ان سے کلام سنانےکی فرمائش کی تو اخترالایمان نے اپنی دو نظمیں ’’نقش پا‘‘ اور ’’محلکے‘‘ ترنم سے سنائیں۔ تب تک ان کا مجموعہ کلام شائع نہیں ہوا تھا۔ چند ماہ بعد پھر وہ نگینہ تشریف لائے اور اس رات ہم نے ان کی زبانی وہ سب نظمیں سنیں جو ’’گرداب‘‘ میں شائع ہوئیں۔ ’’انصار کانفرنس‘‘ کی لیڈری ان کے قدموں میں تھی مگر اختر نے اس سلسلے کو منقطع کردیا۔ ان دنوں وہ ساغر نظامی کے رسالے ’ایشیا‘ کے نائب مدیر تھے۔ نگینہ کے بعد اخترالایمان سے میری ملاقاتیں دہلی میں ہوئیں مگر وہ جلد ہی علی گڑھ ایم۔اے کرنے چلے گئے۔ وہاں بھی ایک سال رکے اور ان کے کچھ عرصہ کے لیے قدم تھمے۔ پونا میں اور پھر پونا سے بمبئی۔ بمبئی میں اخترالایمان کو خاصی جدوجہد کرنی پڑی۔ انھوں نے فلم کا اسکرین پلے اور مکالمے لکھنا اپنا ذریعہ معاش بنالیا۔ باندرہ میں ان کا دو کمرے کا ایک فلیٹ تھا،گراؤنڈ فلور پر۔ پھر جب ان کی مقبولیت اور آمدنی میں اضافہ ہونے لگا تو انھوں نے اس مکان میں اپنی لائبریری بنالی اور باندرہ میں ہی ایک بڑا فلیٹ خرید لیا۔ بمبئی آنے کے بعد ان کی شادی ہوئی۔ اس نئے فلیٹ میں وہ ایک خوش حال زندگی گزار رہے تھے۔ ان کی لکھی ہوئی فلم ’’قانون‘‘ جس میں کوئی گانا نہیں تھا، ان کے مکالموں کے باعث بہت مقبول ہوئی اور وہ ان کی کامیابی اور خوش حالی کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔ البتہ آخری دنوں میں انھوں نے بیماری اور مالی مجبوریوں کے باعث وہ بڑا فلیٹ بیچ دیا تھا اور باندرہ میں ہی دو کمرے کا فلیٹ خرید لیا تھا۔
میں ان کے عقیدت مندوں میں تھا اور اکثر ان کے گھر ان سے ملنے جاتا تھا اور مجھے اخترالایمان نے ہمیشہ ایک مشفق بزرگ کا پیار دیا۔
جس طرح اخترالایمان نے غزل نہیں لکھی اور فلمی شاعری نہیں کی اسی طرح ان کی وضعداری کا ایک گواہ ان کا لباس بھی تھا۔ وہ ہمیشہ بغیر کالر کا کھدر کا کرتہ اور پاجامہ پہنتے تھے۔ دہلی میں تو سردیوں میں شیروانی پہنتے تھے مگر بمبئی میں بس ان کا یہی ایک لباس تھا۔ کھدر کا سفید کرتہ اور پاجامہ۔ اس لباس میں میں نے انھیں پہلی بار نگینہ میں دیکھا تھا۔ اور اسی لباس میں ان کے انتقال سے کچھ دن پہلے تک دیکھا۔
اخترالایمان کا ایک وصف بہت کاٹ دار تقریر کرنا تھا۔ ان کی سب سے پہلے تقریر تو میں نے انصار کانفرنس کے اسٹیج پر سنی اور دوسری تقریر ۱۹۴۴ء میں دہلی کے دربار ہال میں جہاں ترقی پسندوں اور رجعت پرستوں کے درمیان باقاعدہ مناظرہ ہوا تھا۔ ایک طرف خواجہ محمد شفیع، مولانا سعید احمد اکبر آبادی اور سلطان اور دوسری طرف سید سجاد ظہیر، فیض احمد فیض اور اخترالایمان تھے۔ اخترالایمان کی تقریر مدلل اور برجستہ تھی۔ ایک کامیاب ڈبیٹر کی تقریر اخترالایمان کی تیسری معرکۃ الآراء تقریر میں نے بمبئی میں صابو صدیق انسٹی ٹیوٹ کے ہال میں سنی۔ یہ بھی ایک مناظرہ ہی تھا۔ موضوع بحث تھا رسالہ ’’خیال‘‘ جو میراجی، ظ۔انصاری، مدھو سودن اور اخترالایمان نے مل کر نکالا تھا۔ اس رسالے کی مذمت علی سردار جعفری کر رہے تھے اور اسٹیج تھا انجمن ترقی پسند مصنفین کا۔ سردار جعفری کی تقریر ایک میدانی دریا کی طرح تھی جو ایک ہی رفتار سے بہتا ہے۔ مگر اخترالایمان کی تقریر کی تشبیہ ایک پہاڑی ندی سے دی جاسکتی ہے جو گاہ اچھلتی، گاہ طرارے بھرتی۔ اتار چڑھاؤ کے ساتھ تیزی سے بہتی ہے۔ سردار جعفری نے تمام ترقی پسند مصنفین کے نام یہ سرکلر جاری کردیا تھا کہ ’خیال‘ ایک رجعت پرست پرچہ ہے، اس میں کوئی نہ لکھے اور یہ اس وقت کی کمیونسٹ پارٹی کی پالیسی کے مطابق تھا۔ مگر اخترالایمان نے شدومد سے اس بات پر زور دیا کہ ’’ترقی پسند مصنفین پارٹی لائن پر چلیں‘‘ یہ ایک منشور میں نہیں لکھا ہے اس لیے کسی کو ادیبوں اور شاعروں کی آزادی اظہار کو سلب کرنے کا حق نہیں۔ ویسے ان دھواں دھار تقریروں کا کوئی نمایاں اثر نہیں ہوا اور دونوں فریق اپنے اپنے موقف پر قائم رہے۔ بہرحال ایک اچھا رسالہ کچھ دن بعد بند ہوگیا۔
یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ سردار جعفری کی انانیت نے اخترالایمان کو پنپنے نہ دیا لیکن جب ۱۹۶۰ء میں جدیدیت کی رو چلی تو اس گروپ نے اخترالایمان کو اپنا بنالیا تو اختر الایمان کو دیر سے ہی سہی، اپنی کاوشوں کا صلہ ملا اور ادبی حلقوں میں وہ سردار جعفری سےکہیں بہتر شاعر تسلیم کیے جانے لگے۔ مگر اپنے وقت کے ان دونوں بڑے شاعروں میں ایک محتاط دوستی تھی۔ محفلی زندگی میں دونوں ایک دوسرے کے دوست تھے۔ ایک دوسرے کے گھر آنا جانا بھی تھا، ملنا جلنا بھی تھا۔ لیکن معاصرانہ چشمک کی ایک لہر دونوں طرف تھی۔
اخترالایمان ذاتی طور پر نہایت شریف، رقیق القلب اور ہمدرد انسان تھے۔ انھوں نے زندگی کا تلخ ذائقہ بچپن سے چکھا تھا اس لیے ان کے دل میں ضرورت مندوں کی امداد کرنے کا جذبہ تھا۔ میں اخترالایمان کی ایک بات کبھی نہیں بھولتا۔ مجھے اپنے کالج میں فیس جمع کرنی تھی اور پیسے کا کہیں سے انتظام نہیں ہوسکا تھا۔ میں اخترالایمان کے پاس باندرہ گیا، ان کے پاس بھی گھر میں روپے نہیں تھے مگر بینک میں تھے۔ وہ میری خاطر شدید بارش میں اپنے گھر باندرہ سے میرے ساتھ نکلے اور فلورا فاؤنٹین آئے۔ اپنے بینک سے روپیہ نکالا اور میری ضرورت پوری کی۔ اخترالایمان کی پوری زندگی ثابت قدمی، خود اعتمادی، قناعت اورانسان دوستی سے عبارت ہے۔ ان کی نظمیں ان کے دل کی گہرائیوں سے نکلی ہیں۔ ان کا رنگِ سخن اور ان کا لب ولہجہ کسی قدیم شاعر کی صدائے بازگشت نہ تھا اور نہ ان کے بعد کوئی ان کے رنگ و آہنگ میں لب کشائی کرسکا۔ ان سے ملاقات کا شوق ہو تو ان کی نظم ’’ایک لڑکا‘‘ پڑھ لیجیے جس کے متعلق سجاد ظہیر نے پاکستان سے واپس آنے پر کہا تھا کہ اردو کا گزشتہ دس سال کا ادب ناکارہ ہے سوائے ایک نظم۔۔۔’’ایک لڑکا‘‘ کے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.