اسماعیل میرٹھی کا تعارف
تخلص : 'اسماعیل'
اصلی نام : محمد اسماعیل
پیدائش : 12 Nov 1844 | میرٹھ, اتر پردیش
وفات : 01 Nov 1917 | میرٹھ, اتر پردیش
آغاز عشق عمر کا انجام ہو گیا
ناکامیوں کے غم میں مرا کام ہو گیا
نئی نظم کے معمار
’’حالی اور آزاد کے ہمعصر، انّیسویں صدی کے
بہترین شاعرمولوی اسمٰعیل میرٹھی ہیں جن کی
نظمیں محاسن شاعری میں آزاد وحالی دونوں سے
بہتر ہیں‘‘
پروفیسرحامد حسین قادری
اردو کو جدید نظم سے روشناس کرانے والوں میں اسمٰعیل میرٹھی کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ 1857ء کی ناکام جنگ آزادی کے بعد سر سیّد تحریک سے عقلیت پسندی اور ذہنی بیداری کی جو فضا قائم ہوئی تھی اس میں بڑوں کے لہجہ میں باتیں کرنے والے تو بہت تھے لیکن بچّون کے لہجہ میں سامنے کی باتیں کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ اس وقت تک اردو میں جو کتابیں لکھی جا رہی تھیں وہ سماجی یا سائنسی علوم پر تھیں اور اردو زبان پڑھانے کے لئے جو کتابیں لکھی گئی تھیں وہ غیر ملکی حکام اور ان کے عملے کے لئے تھیں۔ پہلے پہل اردو کے قاعدوں اورابتدائی کتابوں کی ترتیب کا کام پنجاب میں محمد حسین آزاد نے اور ممالک متّحدہ آگرہ و اودھ میں اسمٰعیل میرٹھی نے کیا۔ لیکن بچّوں کا ادب اسمٰعیل میرٹھی کی شخصیت کا محض ایک رُخ ہے۔ وہ اردو کے ان شاعروں میں ہیں جنھوں نے جدید اردو نظم میں اوّلین ہیئتی تجربات کئے اور معریٰ نظمیں لکھیں۔
یوں تو نظم جدید کے میر کارواں کے طور پر آزاد اور حالی کا نام لیا جاتا ہے لیکن آزاد کی کاوشوں سے، انجمن تحریک پنجاب کے تحت 9 اپریل 1874ء کو منعقدہ تاریخ ساز مشاعرہ سے بہت پہلے میرٹھ میں قلق اور اسمٰعیل میرٹھی نظم جدید کے ارتقاء کے باب رقم کر چکے تھے۔ اس طرح اسمٰعیل میرٹھی کو محض بچّوں کا شاعر سمجھنا غلط ہے۔ ان کی تمام تحریروں کا خطاب بڑوں سے نہ سہی، ان کے مقاصد بڑے تھے۔ ان کی شخصیت اور شاعری کثیر الجہت تھی۔ بچوں کا ادب ہو، جدید نظم کے ہیئتی تجربات ہوں یا غزل، قصیدہ، مثنوی، رباعی، اور دوسری اصناف سخن، اسمٰعیل میرٹھی نے ہر میدان میں اپنا لوہا منوایا۔ اسمٰعیل میرٹھی کی نظموں کا اوّلین مجموعہ " ریزۂ جواہر" کے نام سے 1885ء میں طبع ہوا تھا جس میں کئی نظمیں انگریزی نظموں کا ترجمہ ہیں۔ ان کی نظموں کی زبان نہایت سلیس و سادہ ہے اور خیالات صاف اور پاکیزہ۔ وہ صوفی منش تھے اس لئے ان کی نظموں میں مذہبی رجحانات کی جھلک ملتی ہے۔ ان کا خاص مقصد اک خوابیدہ قوم کوذہنی، فکری اور عملی حیثیت سے، بدلتے ہوئے ملکی حالات سے ہم آہنگ کرنا تھا۔ اسی لئے انھوں نے بچوں کی ذہن سازی کو خاص اہمیت دی۔ ان کی خواہش تھی کہ بچے صرف علم نہ سیکھیں بلکہ وہ اپنی تہذیبی اور اخلاقی روایات سے بھی با خبر رہیں۔
اسمٰعیل میرٹھی 12 نومبر 1844ء کو میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام شیخ پیر بخش تھا۔ ان کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی جس کے بعد فارسی کی اعلی تعلیم مرزا رحیم بیگ سے حاصل کی جنھوں نے مرزا غالب کی قاطع برہان کے جواب میں ساطع برہان لکھی تھی۔ فارسی میں اچھی استعداد حاصل کرنے کے بعد وہ میرٹھ کے نارمل اسکول (ٹیچرس ٹریننگ اسکول) میں داخل ہو گئے اور وہاں سے مدرسی کی اہلیت کی سند حاصل کی۔ نارمل اسکول میں اسمٰعیل میرٹھی کو علم ہندسہ سے خاص دلچسپی تھی اس کے علاوہ اس اسکول میں انھوں نے اپنے شوق سے فزیکل سائنس اور علم ہیئت بھی پڑھا۔ اسکول سے فارغ ہو کر انھوں نے رڑکی کالج میں اوور سیئر کے کورس میں داخلہ لیا لیکن اس میں ان کا جی نہیں لگا اور وہ اسے چھوڑ کر میرٹھ واپس آ گئے اور 16 سال کی ہی عمر میں محکمۂ تعلیم میں بطور کلرک ملازمت کر لی۔ 1867ء میں ان کا تقرر سہارنپور میں فارسی کے استاد کی حیثیت سے ہو گیا جہاں انھوں نے تین سال کام کیا اور پھر میرٹھ اپنے پرانے دفتر میں آ گئے۔ 1888ء میں ان کو آگرہ کے سنرل نارمل اسکول میں فارسی کا استاد مقرر کیا گیا۔ وہیں سے وہ 1899ء میں ریٹائر ہو کر مستقل میرٹھ میں مقیم ہو گئے۔ ملازمت کے زمانہ میں ان کو ڈپٹی انسپکٹر آف اسکولز کا عہدہ پیش کیا گیا تھا لیکن انھوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا تھا کہ اس میں سفر بہت کرنا پڑتا ہے۔ مولانا کی صحت کبھی اچھی نہیں رہی۔ ان کو بار بار درد گردہ اور درد قولنج کی شکایت ہو جاتی تھی۔ حقّہ بہت پیتے تھے جس کی وجہ سے برانکائٹس میں بھی مبتلا تھے۔ یکم نومبر 1917ء کو ان کا انتقال ہو گیا۔
اسمٰعیل ممیرٹھی کو شروع میں شاعری سے دلچسپی نہیں تھی لیکن معاصرین بالخصوص قلق کی صحبت نے انھیں شعر گوئی کی طرف مائل کیا۔ ابتدا میں کچھ غزلیں کہیں جنھیں فرضی ناموں سے شائع کرایا۔ اس کے بعد وہ نظموں کی طرف متوجہ ہوئے۔ انھوں نے انگریزی نظموں کے ترجمے کئے جن کو پسند کیا گیا۔ پھر ان کی ملاقاتوں کا سلسلہ منشی ذکاءاللہ اور محمد حسین آزاد سے چل پڑا اور اس طرح اردو میں ان کی نظموں کی دھوم مچ گئی۔ ان کی قابلیت اور ادبی خدمات کے صلے میں حکومت وقت نے ان کو "خان صاحب " کا خطاب دیا۔
اسمٰعیل میرٹھی کے کلام کے مطالعہ سے ہمیں اک ایسے ذہن کا پتہ چلتا ہے جو مخلص اور راست گو ہے۔ جو خیالی دنیا کی بجائے حقیقی دنیا میں رہنا پسند کرتا ہے۔ انھوں نے کائنات کے حسن کی تصویریں بڑی چابکدستی سے کھینچی ہیں۔ ان کے ہاں انسانی ابتلاء اور کلفتوں کے نقوش میں اک نرم دلی اور خلوص کی لہریں موجزن نظر آتی ہیں۔ وہ زندگی کی ناپائداری کے قائل ہیں لیکن اس کے حسن سے منہ موڑنے کی تلقین نہیں کرتے۔ ان کے کلام میں اک روحانی خلش اور اس کے ساتھ حزن کی اک ہلکی سی تہہ نظر آتی ہے۔ وہ خواب و خیال کی دنیا کے شاعر نہیں بلکہ اک عملی انسان تھے۔