aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
परिणाम "عصری ادب"
असरी अदब दिल्ली
पर्काशक
پرجوش گفتگو جب نقطہِ عروج پر پہنچی تو دلائل کے ساتھ جذبات اور چہروں پر متانت کی بجائے حریفانہ سرخی اور لہجوں میں دبی ہوئی خفگی اور ناراضگی نمایاں ہونے لگی۔ سوال اٹھ رہے تھے کہ عصری ادب میں زندگی کہاں ہے؟ اور اگر ہے تو اتنی بے بس کیوں ہے؟ اس کے بازو شل اور اڑنے کی طاقت سے محروم کیوں ہیں؟ اِس لاغرپن کا آخر علاج ہے کیا؟
ظاہر ہے کہ ابلاغ اور زبان کے مسئلہ پر یہ خیالات ایک حد تک آغازی اور یک طرفہ ہیں۔ شیلی کا زیادہ تعلق اس بات سے ہے کہ شاعر وہ سب کچھ نہیں کہہ پاتا جو کہنا چاہتا ہے۔ ابلاغ کے مسئلہ کا یہ صرف ایک ہی رخ ہے۔ لیکن یہ بھی اس دوسرے رخ کی طرح اہم ہے جس پر ہمارے عہد نے زیادہ توجہ مرکوز کی۔ علاوہ بریں اس کے پہلے مغربی ادب میں ابلاغ کی بات کبھی اٹھائی ہی نہ گئ...
شکایت یہ کی جاتی ہے کہ حالی، آزاد اور شبلی نے نثر پر کیوں نہیں لکھا۔ ان بزرگوں نے عصری ادب پر بالکل نہیں لکھا ہے، اپنے دور کے نظم نگاروں پر بھی نہیں لکھا ہے۔ اپنے زمانے کے فکری اور عملی اکتسابات پر رائے دینا مشکل ہوتا ہے۔ کسی چیز کو دیکھنے اور پرکھنے کے لئے ایک مخصوص فاصلے اور زاویے کی ضرورت ہوتی ہے جو کسی کو خود اپنے عہد کے لئے میسر نہیں ہوتا۔ مع...
ہر انسانی عمل زمان ومکان کی حدوں کے اندر ہوتا ہے۔ شعری تخلیق اور کچھ نہ ہو ایک عمل ضرور ہے، جو کسی نہ کسی قسم کی داخلی یا خارجی تحریک سے وجود میں آتی ہے۔ اس لیے اس کے ظاہر ہوتے ہی رد عمل کا سلسلہ بھی شروع ہو جاتا ہے۔ زمان ومکان سے صرف حقیقت ہی کا احساس نہیں ہوتا، عمل کے فاصلوں کا اندازہ بھی ہوتا ہے جو تخلیق کی فنی اور معنوی قدریں متعین کرنے میں مد...
بلراج مین را نے اپنے رسالے شعور کے اداریے میں ان مسائل پرسیر حاصل گفتگو کی ہے۔ اور اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ادب سچائیوں سے گریز اختیار کر کے دیرپا نہیں بن سکتا، اور نظریات سے الگ رہ کر کوئی ادیب عصری ادیب نہیں ہو سکتا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ نظریات سے بیزاری در اصل ایک طرح کا فرار ہے لیکن وہ نظریے کوکسی کی ہدایت کے طور پر قبول کرنا نہیں چاہتے۔ مین...
तस्वीर को विषय बनाती उर्दू शाइरी, इश्क़-ओ-आशिक़ी और सामान्य जीवन के फैले हुए तजरबात को अपने ख़ास रंगों में पेश करती है । तस्वीर को शाइरी में उस की ख़ूबसूरती, ख़ामोशी, भाव एवं अभिव्यक्ति की स्थिरता और गतिशीलता के अलावा और दूसरे अर्थों में रूपक के तौर पर इस्तेमाल किया गया है । तस्वीर यूँ तो किसी वस्तु का अक्स ही होता है, लेकिन उस को देखते हुए हम जहाँ उस से प्रभावित होते हैं वहीं यूँ भी होता है किसी तरह की कोई प्रतिक्रिया नहीं होती । तस्वीर उर्दू शाइरी में महबूब का रूपक भी बनती है, और उस से एक विषय के तौर पर आशिक़ की बेचैनी और कश-मकश की सूरतें सामने आती हैं । इस तरह के अलग-अलग और फैले हुए तजरबे से लुत्फ़ हासिल करने के लिए यहाँ तस्वीर-शाइरी का एक संकलन प्रस्तुत किया जा रहा है ।
ग़ालिब की अज़मत का एतिराफ़ किस ने नहीं किया। न सिर्फ हिन्दुस्तानी अदबियात बल्कि आलमी अदब में ग़ालिब की अज़्मत और इस के शेरी मर्तबे को तस्लीम किया गया है। ग़ालिब के हम-अस्र और उनके बाद के शायरों ने भी उनको उनक उस्तादी का ख़िराज पेश किया है। ऐसे बहुत से शेर हैं जिनमें ग़ालिब के फ़न्नी-ओ-तख़्लीक़ी कमाल के तज़किरे मिलते हैं। हम एक छोटा सा इन्तिख़ाब पेश कर रहे हैं।
Shumara Number-041-042
सय्यद बहाउद्दीन अहमद
असरी अदब
057
Jan 1987असरी अदब
001
मोहम्मद हसन
Jan 1970असरी अदब
062
Jan, Apr 1989असरी अदब
Shumara Number - 052
Shumara Number-031,034
Jul 1978असरी अदब
013,016
005
Jan 1971असरी अदब
Shumara Number-029,030
May, Jun, Jul, Aug 1977असरी अदब
Asri Adab
Shumara Number-048,049
Shumara Number-039,040
शुमारा नम्बर-053
059
Jul, Aug, Sep, Oct 1987असरी अदब
Shumara Number-066
नमाज़-ए-अस्र अदा होनी थीहुई कि नहीं
صحافت کا تعلق سماجی ،سیاسی ،نفسیاتی ،جذباتی اور روز مرہ زندگی میں رونما ہونے والے اُن حالات وواقعات اور حادثات سے ہوتا ہے جن سے ہمیں صحافت آگاہ کرتی ہے ۔گویا صحافت ایک طرح سے سماج کی آئینہ داری کا فریضہ انجام دیتی ہے ۔یہاں ادب اور صحافت کا رشتہ اگرچہ ایک حد تک مربوط کہا جاسکتا ہے لیکن اس کے باوجود ادب ایک الگ دنیا ہے اور صحافت کی اپنی دُنیا ہے ۔ی...
اردو میں مجلاتی صحافت کی ایک عظیم اور شاندار روایت رہی ہے۔بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جب ہم اردو میں صحافت کے آغاز و ارتقا کی بات کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ روزناموں کے مقابلے میں رسائل و جرائد نے زیادہ اثرات مرتب کیے ہیں۔ بلکہ اردو صحافت میں یہ رسائل و جرائد سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ عام طور پر یہ کہا جاتا کہ اردو میں 1858 سے قبل نثر داستانوں کی دن...
ہندوستان کے مختلف شہروں اور دیہاتوں میں اب بھی اردو کے ایسے عالم وفاضل اور جنونی قسم کے بلند پایہ ادبا وشعر اموجود ہیں جنھوں نے اردو کی محبت وخدمت کے لیے اپنے آپ کو وقف کر رکھا ہے ۔اردو کے یہ متوالے حرص وہوس اور سود وزیاں کی پرواہ کیے بغیر اردو ادب میں ایسے تحقیقی،تنقیدی ،تخلیقی اور تاریخی کارنامے انجام دے چکے ہیں کہ جو باعث حیرت ہیں ۔اللہ تعالیٰ ...
میری نظر میں موجودہ اردو تنقید کی پہچان تشکیل کے اسی قضیے میں ہے۔ یہی وہ قضیہ ہے جس سے CreationاورProduction کی بحث چلی۔ روایتی نقاد پریشان ہو جاتا ہے کہ کیا فن کار ثقافتی تشکیل یا لسانی ساخت کے تابع ہوتا ہے یا اس کی قوت کے آگے بے بس ہوتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ فن کار کا تفاعل لسانی ثقافتی منبع سے جڑا ہوتا ہے جس کے تحت تخلیق کا تقلیبی آہنگ وجود میں آ...
तवाफ़ करते थे उस का बहार के मंज़रजो दिल की सेज पे उतरी अजब सवारी थी
اردو کی ادبی صحافت کی حتمی تاریخ کا تعین مشکل ہے ۔ڈاکٹر عبدالسلام خورشید اور جی ڈی چندن وغیرہ اس کا نقطۂ آغاز گلدستوں کو قرار دیتے ہیں۔ کچھ محققین ماہنامہ ’تہذیب الاخلاق‘، ’محب ہند‘ ، ’نور نصرت‘ اور ’مخزن الفوائد‘ کو ادبی صحافت کا نقش اول بتاتے ہیں۔ میری رائے میں منطقی طور پر ان بیانات کی کوئی مضبوط بنیاد نہیں ہے۔ جہاں تک گلدستوں کی بات ہے تو اس ...
خلیل الرحمٰن اعظمی (۹؍ اگست ۱۹۲۷ء ۔ یکم جون ۱۹۷۸ء )اپنے عہد کے ایک ایسے نابغہ تھے جن کی تخلیقی و تنقیدی نگارشات نے جدید اردو شاعری اور ادبی تنقید کی رجحان سازی میں اہم رول ادا کیا۔شاعری اور تنقیدہر دو میدان میںوہ اپنے رنگ میںیکتا اور منفرد رہے۔انہوں نے شاعری کے بہترین معیار کو پیش کیا ۔شاعری سے ان کا طبعی میلان تھا ۔ ’’ترقی پسند ادبی تحریک‘‘جیسی م...
اسی طرح ہم یہ بھی دیکھ سکتے ہیں کہ بعض ادیبوں کی تخلیقات محض اپنے زمانے کے کچھ تقاضوں کی پیداوارہوتی ہیں اور اسی زمانے میں مقید و محصور ہو کر رہ جاتی ہیں۔ ان کی تازگی اور تاثیر کچھ وقت گزرنے کے بعد ختم ہو جاتی ہے اور آگے چل کر ان کی اہمیت محض تاریخی ہو کر رہ جاتی ہے۔ اس کے برخلاف کچھ ادبی تخلیقات ایسی ہوتی ہیں جن کا دائرہ وسیع ہوتا ہے اور وہ ہرزما...
ایمرسن کہتا ہے کہ ہرور کو خود اپنا قومی ادب (Classics) پیدا کرنا چاہئے۔ یعنی ہر ادبی کارنامے میں ان عصری میلانات و خصوصیات کا ہونا ضروری ہے جن کے لئے جرمنی زبان میں (ZEITGIEST) کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے اور جس کے معنی ’’روح عصر‘‘ کے ہیں۔آج محض حسن کاری کو ادب نہیں کہتے۔ ادب اگر ملک اور زمانے کے تازہ ترین فکریات (IDEOLOGY) یعنی اجتماعی خیالات و افکار کا حامل نہیں ہے تو وہ صحیح معنوں میں ادب نہیں ہے۔ اب یہ حقیقت روشن ہو چکی ہے کہ حسن، خیر اور حقیقت تینوں کو ایک آہنگ بناکر پیش کرنے کا نام ادب ہے اور سب سے بڑا ادیب وہ ہے جو بیک وقت ہمارے ذوق حسن، ذوق فکر اور ذوق عمل کو نہ صرف آسودہ کرے بلکہ حرکت میں لائے۔ اب خیال حسن اور حسن عمل کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور ادبیات کو بے غرض وغایت ہوتے ہوئے بھی غائتی ہونا ہے۔ اس کے اندر ایک دبے ہوئے غایتی میلان (PURPOSE BIAS) کا ہونا لازمی ہے۔
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books