نئی شاعری کا پس منظر
ہر انسانی عمل زمان ومکان کی حدوں کے اندر ہوتا ہے۔ شعری تخلیق اور کچھ نہ ہو ایک عمل ضرور ہے، جو کسی نہ کسی قسم کی داخلی یا خارجی تحریک سے وجود میں آتی ہے۔ اس لیے اس کے ظاہر ہوتے ہی رد عمل کا سلسلہ بھی شروع ہو جاتا ہے۔ زمان ومکان سے صرف حقیقت ہی کا احساس نہیں ہوتا، عمل کے فاصلوں کا اندازہ بھی ہوتا ہے جو تخلیق کی فنی اور معنوی قدریں متعین کرنے میں مدد دیتا ہے، یہی قدیم اور قدیم تر، جدید اور جدید تر میں امتیاز پیدا کرنے اور ان کے فرق کو سمجھنے کا ذریعہ بنتا ہے اور اس کے احساس، جذبے اور خیال کے باہمی رشتوں کا تجزیہ کیا جا سکتا ہے۔
یوں تو ہر عصری ادب اپنے وقت میں جدید ہوتا ہے لیکن جب ہم شاعری کا ذکر تاریخ کے سیاق وسباق میں کرتے ہیں تو زمانی فاصلے کی وجہ سے قدیم جدید سے الگ ہو جاتا ہے۔ اس کا ادراک کرنے کے لیے شعری لطافت کے آئینے میں کثافت کی زنگار ضروری ہے۔ جدید شاعری کے مطالب، لب ولہجے، زبان، حسی اور فنی تجربات کو سمجھنے کے لیے وقت کے مزاج کو پہچاننا، زمانے کے تقاضوں کو نظر میں رکھنا، شعور کی نوعیت کو پرکھنا، روایت کی زندہ اور بے روح عناصر میں تمیز کرنا، سماج کے اندر مختلف مفادات کے تصادم کی کیفیت اور کمیت کو جاننا، اجتماعی ذہن میں طبقاتی کش مکش، ترقی پذیر اور زوال آمادہ عناصر کے فرق کو محسوس کرنا ضروری ہے۔ یہ وہ مادی حقائق ہیں جو تبدیلی کے لیے پس منظر فراہم کرتے ہیں۔ ان مختلف آئینوں میں شعروادب کی متحرک، بدلتی ہوئی، ایک منزل سے دوسری منزل کی جانب بڑھتی ہوئی اور رنگ تبدیل کرتی ہوئی تصویریں دیکھی جا سکتی ہیں۔ اس عقبی زمین کو نظر انداز کرکے شاعری اور ادب کو سمجھنے کی کوشش لایعنی ہوگی۔
جدید کیا ہے؟ کسی صورت حال میں وہ کون سی تبدیلیاں ہوتی ہیں جن کی بنا پر ہمیں جدید کا احساس ہوتا ہے؟ یہ نہ تو ہر جگہ کے لیے یکساں ہے، نہ ہر دور کے لیے کیونکہ کبھی ان میں تدریجی ارتقا کی صورت گری ہوتی ہے اور کبھی انقلابی سرعت اور تیزروی کی، کبھی زندگی کا نظام اس طرح بدلتا ہے کہ تغیر ایک جبر کی صورت میں رونما ہوتا ہے اور باطنی احساس میں محض ایک کش مکش اور انتشار بن کر چبھتا رہتا ہے، کبھی اس طرح تہہ نشیں ہو جاتا ہے کہ کسی بڑی تحریک ہی سے خارجی پیکر اختیار کرتا ہے۔ ملک ملک، قوم قوم، سماج سماج، فرد فرد، فرد اور سماج کے باہمی رشتوں میں جو ان گنت تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں، انھیں کا اظہار انفرادی اور اجتماعی سطح پر تہذیب کے مختلف شعبوں میں ہوتا ہے اور ردوقبول کے مختلف مراحل سے گزرتا ہے۔ سماجی شعور اس ردوقبول یا انتخاب میں فرد کی مدد نہیں کرتا بلکہ اس کے ادراک کو تیز کرکے اس کی آگے کی راہ بھی روشن کرتا ہے۔ تاریخ میں اس کی مثالیں بے شمار ہیں۔ تغیر کا ہر اہم موڑ اسی شعبے سے وابستہ ہوتا ہے۔
جب جدید کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے تو اس کے معنی بھی سب کے لیے یکساں نہیں ہوتے کیونکہ شعور کی سطح یکساں نہیں ہوتی۔ جو شخص اسے محض وقت کی رفتار سے متعین کرتا ہے وہ شعور اور احساس کی کارفرمائیوں کو نظر انداز کرتا ہے، کیونکہ وقت کے اعتبار سے نئے زمانے میں ہوتے ہوئے بھی کسی کا شعور قدیم سے وابستہ ہو سکتا ہے اور اس کے برعکس کوئی فرد سماجی ارتقا کے اصولوں سے واقفیت حاصل کرکے اپنے شعور کو حال اور مستقبل کی درمیانی کڑی بنا سکتا ہے، جب ہندوستان میں شاعری اور جاگیردارانہ نظام کی جڑیں کمزور ہوئیں، بیرونی دنیا سے ربط قائم ہوا اور مختلف قسم کے اندرونی اور بیرونی سیاسی اثرات نے تبدیلی کا احساس پیدا کیا، نئے علوم وفنون اور نئے ذرائع رسل و رسائل، نئی تعلیم اور صنعت کاری نے ذہن بدلے تو ہندوستان میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا، جس کے اثرات مختلف افراد اور مختلف تحریکوں کی شکل میں ظاہر ہوئے، جس کی نمائندگی واضح طور پر راجہ رام موہن رائے، کیشپ چندر سین، سرسید، رانا ڈے، آزاد، حالی، نذیر احمد، شبلی، بھارتیندو ہریش چند، سبرامنیم بھارتی، ٹیکم چندر چٹرجی وغیرہ کرتے ہیں۔
یہ مختلف طرح کی قوت پرواز رکھنے والے، نئی روشنی کی پہلی کرن کے پروانے ہیں اور اپنی انفرادیتوں، اپنے مذہبی اور فکری پس منظر، اپنے جماعتی شعور کے باوجود ایک بنیادی خواہش تغیر و ارتقا کے جذبے سے سرشار نظر آتے ہیں۔ مادی سطح پر جو نیاپن معاشی اور سیاسی حالات سے پیدا ہوا تھا، تہذیبی اور فکری سطح پر اس کا اظہار گوناگوں طریقوں سے ادب میں بھی ہونے لگا، کیونکہ ان کے طریقۂ فکر میں ادب ان کی پوری شخصیت سے باہر کوئی چیز نہ تھا، وہی اس عہد کے ذہنی رہ نما بھی تھے اور ادبی ہر اول بھی، تاریخی پس منظر کو ذہن میں رکھے بغیر یہ سمجھنا ناممکن ہوگا کہ یہ لوگ فیضی، ابوالفضل، تلسی داس، شاہ ولی اللہ، اورنگ زیب، داراشکوہ ہی نہیں میرؔ، سوداؔ اور غالبؔ سے بھی کیوں مختلف تھے۔
مغرب کے بعض ملکوں میں حالات بدل چکے تھے۔ صنعتی انقلاب اور سیاسی بیداری نے فکر وخیال، احساس و شعور کی راہ میں پہلے ہی چراغ جلا دیے تھے اور وہاں شاعری میں زندگی کے رموز واسرار سے پردہ ہٹانے، فن اور سماج کے باہمی ربط کو جاننے کی کوشش بہت پہلے شروع ہو چکی تھی۔ تہذیب، تاریخ، سیاست، معاشی نظام، سائنسی ارتقا اور فکر وادب کو کسی من مانے فلسفے کے تحت ’’خالص‘‘ بنانا چاہتے ہیں، جو احساس اور شعور کو مابعد الطبعیاتی سمجھتے اور خیال وفکر کو مادی زندگی کے اثرات سے ماورا اور بےنیاز قرار دیتے ہیں، تجزیہ کیا جائے اور منطقی بحث کی جائے تو آخرکار وہی لوگ نکلیں گے جو سیاسی اور تاریخی حیثیت سے کسی خاص قسم کے تغیر کے مخالف ہوتے ہیں لیکن اپنی وابستگی اور ترجیح پر پردہ ڈالنے کے لیے شعروادب ہی کو بےمقصد، بے سمت، لایعنی اجتماعی تعلقات سے گریزاں قرار دیتے ہیں اور شاعری کو اظہار محض یا انکشاف ذات بتاکر اس کے پس منظر سے بالکل محروم کر دینا چاہتے ہیں۔
پس منظر کتنا ہی غیرواضح، الجھا ہوا، جلد جلد بدلنے والا، ٹھہرا ہوا اور بے رنگ ہو، شاعری کے خط وخال کے پہچاننے میں مدد دیتا ہے، شعر کی فنی خوبیوں اور خامیوں، تبدیلیوں اور اضافوں کو روشنی میں لاتا ہے، روایت اور تجربے کی منزلوں کا پتا دیتا ہے۔ کیا اقبالؔ اور ٹیگورؔ کی شاعری عالمی فکر، ہندوستانی بیداری، انقلاب روس، روایتی سرمایہ، فکروادب اور عصری تقاضوں پر غور کیے بغیر سمجھی جا سکتی ہے؟ یہاں تک کہ دونوں عظیم المرتبت شاعروں کے ماورائی اور مثالی افکار کے سوتے بھی اس پس منظر میں تلاش کیے جا سکیں گے۔ یہ صحیح ہے کہ ماحول اور تخلیق شعر کا رشتہ ریاضیاتی یا میکانکی نہیں ہے لیکن اس سے ماورا بھی نہیں ہے۔
انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے آغاز میں اردو شاعری کے موضوعات قومی تحریک آزادی کے مختلف پہلوؤں سے اس طرح مربوط ہیں کہ ایک کے مطالعے سے دوسرے کے مطالعے میں مدد ملتی ہے۔ حقیقت پسندی اور رومانیت کی جو کشاکش اردو اور ہندی میں پہلی جنگ عظیم سے ۱۹۳۰ء تک نظر آتی ہے، اسے محض شاعروں کی انفرادی ذہنی اپج سے تعبیر کرنا سادہ لوحی کے مترادف ہوگا کیونکہ خود ہندوستانی ذہن مغربی افکار، مغربی سیاسی تصورات، ادبی تحریکات سے متاثر ہو رہا تھا اور اس کا عکس شعری تخلیقات میں جھلکتا تھا۔ ان اثرات کو اس وقت کا کوئی شاعر کس حد تک قبول کرتا تھا، کیوں کرتا تھا، یہ اس کا انتخابی شعور تھا لیکن مواد اس کو اپنے گردوپیش ہی سے ملتا تھا اور تحریک، بدلے ہوئے حالات سے۔
۱۹۳۰ء کے بعد سے اشتراکی خیالات اور نفسیاتی تجزیے کی طرف زیادہ توجہ ہونے لگی۔ اس کے بھی مادی اسباب تھے۔ یورپ اور امریکا میں ایک جانب سرمایہ داری اور اشتراکیت نے ایک دوسرے پر تفوق حاصل کرنے کی جدوجہد شروع کر دی تو دوسری طرف شعور اور لاشعور، مذہب پرستی اور مادیت، حقیقت اور باطنیت کی جنگ شروع ہوئی۔ دونوں کے باہمی رشتوں کا تلاش کر لینا مشکل نہیں ہے۔ جو لڑائیاں باہر سیاسی اور سماجی نظاموں میں ہوتی تھیں، وہی تہذیبی اور فکری شکل میں فلسفے، شاعری اور ادب کے نظریات اور اظہار میں ہوتی تھیں۔ ہندوستان بھی ان لڑائیوں کا میدان بنا، کیونکہ وہ سیاست اور فکر دونوں میں اپنے مفاد کے مطابق عالمی افکار و سیاسیات سے اپنا تعلق قائم رکھنے پر مجبور تھا۔ اردو شاعری میں ترقی پسند تحریک اور اس کی تحریکات اسی آویزش کا عکس پیش کرتی ہیں۔ انھیں صرف فن کے مخالف دھارے کہہ کر واضح نہیں کیا جا سکتا۔
شعروادب کو فکر کے عام بہاؤ سے الگ کر لینے کی کوشش اس لیے ہمیشہ ناکام رہتی ہے کہ اس سے وہ خارجی حقائق پس پردہ نہیں پہنچتے جو زوروشور کے ساتھ ایک دوسرے پر غلبہ پانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ شاعری اگر ایک سے اپنا رشتہ نہیں جوڑتی تو ایک دوسرے کی طرف دار معلوم ہونے لگتی ہے۔ چاہے یہ کوشش شعوری اور واضح نہ ہو، تیسرے، چوتھے اور پانچویں پہلو بھی ہو سکتے ہیں لیکن بنیادی تجزیے میں وہ اصل آویزش کی ایک نہ ایک صورت سے قریب ہو جائیں گے۔
پس منظر کے ابھار میں شاعری پر غور کرنے سے اس کے اندر کے وہ چھپے ہوئے معنی بھی سامنے آ جاتے ہیں جنھیں ہم لاشعوری کہتے ہیں اور شاعر کے انفرادی رجحان زندگی کی طرف اس کے رویے اور فنی جمالیاتی شعور کا علم بھی اس کے وسیلے سے ہوتا ہے۔ گزشتہ پچیس سال میں دنیا نے بڑے بھیانک خواب دیکھے، بہت سی تلخ حقیقتوں سے دوچار ہوئی، بہت سے نئے افق روشن ہوئے، سائنس نے نئے امکانات کی راہیں کھولیں تو سیاسی جوڑ توڑنے دل بجھا دیے، بیماریوں کے علاج نکلے تو ذہنی الجھنوں کے سامان پیدا ہوئے۔ طرح طرح کے زندگی بخش اور خواب آور نظریات پیش کیے گئے اور انسان جیسے چوراہے پر راستہ بھول گیا۔
یہ سب حقیقتیں ہیں جو آج کی شاعری میں منعکس ہو رہی ہیں، یہ کہنا کہ شاعر ان کا ادراک نہیں رکھتا یا انھیں سمجھ نہیں سکتا، صحیح نہیں ہے۔ جس حد تک وہ محسوس کرتا ہے اور اپنی تخلیق میں اسے ظاہر کرتا ہے، وہ اس کے شعوری اور نیم شعوری رجحان کا غماز ہوتا ہے۔ موجودہ عہد کے صنعتی عدم توازن، موت کے خوف، سیاسی عقائد کی طرف سے بےیقینی، شک اور بیزاری، منتشر مزاجی اور نراجی، باغیانہ ولولے کے باوجود ہر مخلص شاعر اپنا موضوع اسی زندگی سے لیتا ہے جسے وہ جھیل رہا ہے اور اس طرح اسے ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہے جو اس کے تصور فن سے ہم آہنگ ہوتا ہے اور جس کے لئے سماج کے کسی نہ کسی طبقے یا گروہ میں پذیرائی کا امکان موجود ہوتا ہے، اس لیے جدید ترین شاعر بھی تخلیق کے ساتھ تنقید حیات کے عمل سے گزرنے پر مجبور ہے۔
آج کی شاعری کا پس منظر آج کی پوری زندگی ہے۔ شاعر اپنا نقش خیال ابھارنے کے لیے اس کے کسی حصے سے کام لے سکتا ہے اور کسی موضوع، مواد اور طرز اظہار کا انتخاب کر سکتا ہے لیکن اگر اس کے دل میں قاری کی بھی کوئی جگہ ہے تو اسے اس سوال کا جواب دینے کے لیے بھی تیار رہنا چاہئے کہ اس نے اپنی آزادی کا استعمال کس طرز فکر کے حق میں کیا ہے اور کیوں۔
تمام تاریخی اور سائنسی پہلووؤں کو نظرانداز کرکے جدید یا جدیدیت کو ایک خود ساختہ محدود معنی میں استعمال کرنے والے چند مفروضات کی تکرار کرتے اور یہ سمجھتے ہیں کہ انھوں نے ہر قیدوبند سے شعروادب کو آزاد کرا دیا اور اس الزام سے اپنے کو بھی بچا لیا کہ انھیں کسی نقطۂ نظر یا کسی مخصوص خیال کا حامی سمجھا جائے۔ دلیل کے طور پر وہ یہ کہتے ہیں کہ وہ بغیر سمت معین کیے ہوئے چلتے ہیں، وہ ناوابستہ ہیں اور وہی کہتے ہیں جو ان کے تجربے سے متعلق ہے۔ وہ زندگی کے کسی مسئلے کاحل پیش کرکے قاری کی آزادی میں رکاوٹ نہیں پیدا کرنا چاہتے، بلکہ صرف واقعیت کا اظہار کرتے ہیں اور زبان کا بے خوف استعمال کرکے اسے نئے معنی سے آراستہ کرتے ہیں۔ موجودہ سائنسی عہد میں اور ماضی کی تاریخ کی موجودگی میں یہ سارے دعوے بے حقیقت ہیں اور اگر خود فریبی یا لاعلمی پر مبنی نہیں ہیں تو شعوری طور سے ذہنوں کو بھٹکانے کی اس کوشش کے سوا انھیں اور کچھ نہیں کہا جا سکتا جس کی جدوجہد عالمگیر پیمانے پر جاری ہے۔
آج کا ذہین قاری یہ اچھی طرح سمجھتا ہے کہ ہر عہد میں اچھے شاعروں نے اپنی ذات ہی کے وسیلے سے حقائق کا اظہار کیا ہے، ہرعہد میں زبان اس معنویت کو گرفت میں لانے کے لیے توڑی مروڑی گئی ہے جو شاعر کا مقصود ہے، ہر عہد میں تجربے کیے گئے ہیں اور ہر عہد میں شاعر نے اپنی آزادی کا کوس لمن الملک بجایا ہے، رہی یہ بات کہ آج کے شاعر کا مقصد بغیر سمت معین کیے ہوئے اظہار حقائق ہے، یہ اس وقت بے معنی ہو جاتی ہے جب نہ صرف انفرادی طور پر شعرا کے فکروخیال کی سمتیں معین ہو جاتی ہیں بلکہ ایک جماعتی ارتکاز بھی پیدا ہو جاتا ہے جس میں صرف چند موضوعات کی تکرار جدیدیت کی پہچان بن جاتی ہے، شاعری فارمولا بننے لگتی ہے اور وہ صورت حال پیش آتی ہے جو ایک سوچے سمجھے مقصد اور منصوبے کے تحت ہم خیال، ہم ظرفی اور ہم رنگی میں ڈھل جاتی ہے۔ انفرادیتیوں کا رنگ پھیکا ہوکر اڑ جاتا ہے اور عدم مقصدیت کا سہارا لینا بھی ممکن نہیں کیونکہ خود نراجیت ایک مربوط فلسفہ نہ سہی، ایک نقطۂ نظر ضرور ہے۔
اپنی شاعری پر جدیدیت کا لیبل لگانے والے بہت سے شعرا نثر میں بھی اظہار خیال کرتے ہیں یا اگر وہ خود نہیں لکھتے تو ان کی جانب سے دوسرے ان کی بے تعلقی اور ناوابستگی کی وکالت کرتے ہیں۔ ان مضامین میں شاعری کے اندر ابہام کے پردے میں چھپاکر رکھے ہوئے نقطۂ نظر، فلسفے یا مقصد کی واضح ترجمانی ہوتی ہے اور بڑی شدت سے دوسروں کے خیالوں سے مقابلہ کرکے اپنے مقاصد شاعری کی حمایت کی جاتی ہے۔ جو بات نظموں میں پوشیدہ رہتی ہے، وہ مضامین میں ظاہر ہو جاتی ہے۔ فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ ایک نقطۂ نظر رکھنے والے اس کا اظہار بھی کر دیتے ہیں کہ وہ انسانی آزادی، سائنسی اور علمی ترقی، جمہوریت، معاشی آسودگی، امن، انصاف، انسانی محبت، زندگی میں حسن ومسرت کے طرف دار ہیں اور دوسرے تقریباً نوے فی صدی ان اقدار حیات کے مخالف ہوتے ہیں اور ادیب کی آزادی خیال کو آڑ بناکر موت، خوف، جارحیت، لایعنیت، انسان کی بے وقعتی، عقل ودشمنی اور نراج کا کھلا ڈھکا پرچار کرتے ہیں۔
آزاد دونوں ہیں اور قدروں کے انتخاب کا سوال اختیاری ہے۔ اس کے بعد بھی ناوابستگی اور لاتعلقی کا اظہار محض پروپیگنڈا نہیں تو اور کیا ہے یا ادب اور شاعری کو فلسفہ، سیاست اور سائنس کی طرح ایک مکمل اور قائم بالذات شے تسلیم کرنا اور اسے زندگی کے کسی درد کا مداوا، کسی سوال کا جواب، کسی زخم کا مرہم نہ سمجھنا ایسا متضاد موقف ہے جس کو وہی لوگ درست سمجھ سکتے ہیں جو شعروادب کے ذریعے زندگی میں انتشار پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ساری الجھنیں اس لیے پیدا ہوتی ہیں کہ کچھ لوگ شاعری کو اس کے زندہ روابط اور شاعر کو اس کے ذہنی اور سماجی پس منظر سے الگ کرکے دیکھتے ہیں اور شاعر کی ذات کو شاعر اور سماجی انسان میں تقسیم کرکے اس کے دونوں جزوں کے ذمے الگ الگ فرائض کر دیتے ہیں۔ شاعر کی حیثیت سے سماجی کش مکش، سیاست، سائنسی ترقی، فکرونظر اس کے لیے شجر ممنوعہ ہیں اور سماجی انسان کی حیثیت سے وہ دوسرے تمام لوگوں کے ساتھ کے تجربوں میں شریک ہو سکتا ہے۔ کیا یہ مطالبہ فطری اور عقلی کہا جا سکتا ہے۔
پس منظر کی واقعیت کا ادراک شاعری میں واقعیت پیدا کرتا ہے لیکن بدقسمتی سے نئی شاعری کے بعض مبلغ اردو کے نئے شاعروں کے لیے اس پس منظر کو زیادہ شاعرانہ اور حقیقی قرار دیتے ہیں جو تقریباً سو سال پہلے کے فرانس میں، پچاس سال پہلے کے یورپ میں تھا یا آج کے امریکا میں ہے۔ وہ ایلیٹؔ کے ویسٹ لینڈ کی دنیا کو اب تک حقیقی دنیا، کافکا اور کامیوؔ کے کرداروں کو حقیقی کردار سمجھتے ہیں۔ دنیا بدل چکی ہے اور خود ہندوستانی زندگی خاص طرح کے درد زیست میں مبتلا ہے۔ اس کا کرب کچھ اور ہے، اس کی امیدیں اور مایوسیاں دوسرے انداز کی ہیں اور اس کا سچا احساس یہیں کے پس منظر اور یہیں کی زندگی کو سمجھنے سے ہو سکتا ہے۔ اس مخلصانہ احساس سے جو شاعری وجود میں آئےگی وہ نئی شاعری ہوگی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.