aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
परिणाम "مای شاتل خانه"
सब पीछे ही रह जाएँगे ऐ 'ख़ाना-ब-दोशा'ये माल मवेशी तिरे डंगर ये तिरे ढोर
"हुकम! सारे शह्र में कर्फ़्यू है। ज़्यादा दूर न जा सका। पास के शिविर से इन्हें ले आया। मजबूरी थी, हमारी भी, इनकी भी। हुज़ूर! माई बाप। इनसे काम चला लीजिए।" डूंगर गोला ने कमर को ख़म करते हुए दोनों हाथ जोड़ कर इस बे-बसी से कहा कि बड़ी कुँवर रानी साहिब लाजवाब हो गईं और मौक़े की नज़ाकत को महसूस करके, जो है उसे ग़नीमत जानो, की तर्ज़ पर जिस तेज़ी से उठीं ...
اسی آنولہ میں ڈاکٹر ایوب قادری ایک علمی خاندان میں پیدا ہوئے، ان کا خاندان شروع سے علم وادب کا گہوارا رہا ہے۔ تاریخ وانساب اور علوم دینیہ سے دل چسپی اس کا نمایاں وصف رہا ہے اور ایوب قادری کو یہ چیزیں وراثت میں ملی تھیں۔ ان کے مورث اعلی روہیلوں کے عہد میں آنو لہ آئے۔ نواب علی محمد خان والی روہیل کھنڈ نے حضرت شاہ نوری نیازی کی زیارت کے بعد جو بڑی ارا...
سالہ محمد شاہ رنگیلے پر رقاصہ فلک کے رنگین اثرات جب رنگ لائے تو کوکہ جی خادمہ، روشن الدولہ خواجہ سرا اور عبدالغفور شاہ جی جیسے نچلے درجے کے لوگوں نے انہیں انگلیوں پر نچانا شروع کیا۔ جاگیرداری کی پروردہ مخصوص قسم کی طبقاتی کشمکش اور نسلی امتیازات اپنے پورے شباب پر تھے۔ امراء بھلا کیونکر برداشت کرسکتے تھے۔ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے بغض و حسد ک...
اس تجویز کو قوت سے فعل میں لانے کے لئے ضرورت ہے کہ کم سے کم سو صفحے ہر مصنف کے نذر کئے جائیں۔اس طرح پانچ سو صفحوں کی ایک کتاب تیار ہوجائےگی جس کا ایک طبع خاصہ (یعنی اڈیشن ڈی لکس) بہتر سے بہتر کاغذ اور چھپائی کے ساتھ شائع ہوگا، جس میں مصنفین کے ساتھ منقدین کی ہاف ٹون عکسی تصویریں شامل کی جائیں گی۔ اس کی تکمیل مالی امداد سے قطعاً بے نیاز ہے۔ صرف ضرور...
ظاہر ہے یہ کہنے کے لیے صرف جرأت ہی نہیں فنکارانہ ایمانداری بھی چاہئے۔ ترقی پسندی انسانی زندگی کو’’حسین سے حسین تر‘‘ بنانے کی کوشش میں تنگ سے تنگ تر کرتی گئی جیسا کہ مذاہب کے ساتھ حشر ہوا کہ وہ خدا کے بندوں کو راہ راست پر لانے کے لیے آئے تھے مگر آہستہ آہستہ انسانوں پر اس کے دروازے بند ہوتے گئے اور یہ چھوٹی دنیا بہت سے چھوٹے چھوٹے فرقوں میں بدل گئ...
پولیانی نے تو یہاں تک کہا ہے، ’’عیسائی استبداد سے عوام کو بچانے میں یہ معاون رہی ہے۔‘‘ اور یہ تقریباً ہر عہد کے حکمراں ثقافتی رجحانات کے طلسم پر سوالیہ نشانات تشکیک کے بدولت لگائے گئے ہیں اور غالب جس عہدمیں پیدا ہوئے تھے اس عہد میں بھی یہ سوالات تھے کہ علم کی رسائی کہاں تک ہے؟ عرفان کیا ہے؟ حقیقت کسے کہتے ہیں؟ کیا سب وہم ہے؟ تصوف کے بہت سے بنیادی خ...
مرزا یاس یگانہ چنگیزی کا یہ شعر ہمیں ان کی شاعری اور شخصیت دونوں کو سمجھنے میں بڑی مدد دیتا ہے کیونکہ یہی ان کا مطمح نظر تھا۔ یگانہ کے بارے میں نقادوں اور شاعروں کا رویہ زیادہ تر یک طرفہ تھا۔ مجھے اردو غزل کے مسئلے پر گفتگو کرتے ہوئے ہمیشہ یہ احساس ہوا ہے کہ ان کے ساتھ ناانصافی کی گئی ہے۔ ڈاکٹریوسف حسین خاں نے اپنی کتاب میں حسرت، فانی، اصغر اور جگر...
ان کے شعور کو سمجھنا ہے تو شروع سے ان کی شخصیت کے ان پہلوؤں پر نظر رکھنی ہوگی جس میں خودسری کے ساتھ خودتنقیدی بھی شامل ہے۔ وہ اپنے قریبی دوست مولوی فضل حق خیرآبادی کے سلسلے میں ایک خط لکھ چکے تھے کہ مولوی صاحب میں مسلمان کی تعریف میں تعصب تھا، یعنی مولوی صاحب تنگ نظر مسلمان تھے۔ غالب کی آزادروی انہیں مفاہمت پرمجبور تو کر سکتی تھی مگر ذلیل نہیں۔ ا...
ख़लील ने ये नहीं लिखा कि कौन उन्हें उठाकर जीप में लिटाकर जामा’ मस्जिद ले गया था। ख़लील ने ये दीबाच: 65 ई० में लिखा था। मुमकिन है वो मेरा नाम भूल गए हों। ये भी मुमकिन है कि वो मेरा ज़िक्र करना मुनासिब न समझते हों, इसलिए कि दोस्ती ख़त्म होने के बा’द से एक तवील ‘अर्से तक ख़लील मुझे एक ‘‘फ़ालतू-आदमी” ही समझते थे और मुझे शिकायत भी नहीं है। इसलिए कि हम ज़िन्...
یہی نہیں، احمد علی کا خیال ہے کہ ایک معنی میں میر ایک وجودی شاعر تھے اور سارتر کا بیان نقل کرتے ہیں :Existence Precedes Essence یعنی وجود روح سے پہلے ہے۔ میر کا خیال ہے، ’’مقدور سے زیادہ مقدور ہے ہمارا‘‘ کی مثال بھی دیتے ہیں۔ میر پر انگریزی میں جو چند مضامین اور کتابیں میری نظر سے گزری ہیں ان میں یہ کتاب زیادہ ’’شہرت‘‘ کی مستحق تھی، اس لیے کہ اس کت...
آج تہذیبی روایات پر بہت زور دیا جا رہا ہے اور اس بات کو سمجھنے اور سمجھانے کا کام بھی ہمارے ادیب اور نقاد کر سکتے ہیں۔ میرے خیال سے آج کے ملکی مسائل کو پیش نظر رکھتے ہوئے نقاد کے نئے رول کے بارے میں کچھ کہا جا سکتا ہے۔ ایک چیز پر اب تک بہت زور دیا گیا ہے اور وہ بھی اچھی طرح سے ہمارے ادیبوں کی تخلیقات میں نہیں ملتی ہے۔ وہ ہے ادب اور زندگی کا گہرا ...
’’نامور فلسفی بڈیسہ راڈ BANDRILLARD اسے ثقافتی اخراج سمجھتا ہے یا آخری TECHONOSCAPE کی طرف مراجعت، مشہور فرانسیسی ڈرامانگار آرتار (ARTAND) کا خیال ہے یہ ایک جسم ہے بغیر کسی اعضا (ORGANS) کے۔‘‘اور بھی کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ RICHARDROTRY کاکہنا ہے ’’دریدا یا کوئی اور کہتا ہے روایات نے متنی تنقید کو نظرانداز کیا ہے صحیح نہیں ہے۔ پرانی طرز گفتگو کا الٹ پھیر ہے اور خاصا مشکوک بھی۔ ساری بحث کا آغاز مابعد سے شروع ہوتا ہے۔ کیا یہ رد جدیدیت ہے یا اس کے اوپر مسلط کیا گیا ہے۔‘‘ یہ بحث ناتمام رہتی ہے اور ناتمامی اس کی ایک خصوصیت ہے۔ لینڈا نے تصویر کے دونوں رخ پیش کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ قارئین خود فیصلہ کریں۔ جیسے وہ پیراڈی (PARODY) کے بارے میں کہتی ہے۔ یہ اٹھارہویں صدی کا مزاح (WIT) نہیں ہے۔ اس کی نئی تشریح کی گئی ہے۔ وہ یکسانیت کے دونو ں پہلو کو پیش کرتی ہے۔ طنز کی نشاندہی کرتی ہے کہ دونوں رخ سامنے آجائیں یعنی ہاں بھی اور نہیں بھی۔ یہ پیراڈی تاریخ نگاری م، ابعدفکشن، فلم، مصوری، فن تعمیرات میں نمایاں ہے۔ یہ تبدیلی اور تسلسل میں بھی کارفرما ہے۔ اس لیے یونانی لفظ Pare ذومعنی لفظ ہے۔ تبدیلی کا مخالف دونوں معنی میں استعمال ہوتا ہے۔
’’آدمی بنے بغیر فلسفی بننے کی کوشش نہ کرو اور صرف وہ آدمی بنوجو غوروفکر کرتا ہے اور مفکر کی طرح نہ سوچو، جو مسائل کو سیاق وسباق سے الگ کرکے سوچتا ہے۔ فکر کو زندہ رکھو یعنی حقیقی۔۔ اس شخص کی طرح رہو جس کو دنیا کے سمندرکی لہریں تروتازہ اور توانا رکھتی ہیں۔ وجودی طریقے سے سوچو۔۔۔‘‘جس کتاب کا آغاز اتنے فکر خیز طریقے سے ہووہ یقینا ًدلچسپ تو ہوگی، پھراس میں استالین کے زمانے میں سو ویت یونین میں اشتراکیت کی کیا درگت بنی اس کا خاصا ذکر ہے۔ علیحدگی ALIENATION کے مسئلے پر بھی بحث ہے۔ یہاں کتاب کا خلاصہ دینا مقصود نہیں ہے۔ مگر وارث نے شاید اس کتاب کے چند صفحات ہی پڑھ کر چھوڑ دیے، اس لیے کہ اس کا نہ کہیں ذکر کیا اور نہ اس کے بارے میں کبھی گفتگو کی۔ میں نے اس کتاب کا اس لیے ذکر کیا کہ وارث علو ی’’ترقی پسند گزیدہ‘‘ ہے اور یہ جاننا نہیں چاہتا کہ سو ویت مارکسزم اور مارکسزم الگ الگ ہیں اور یہ کہ سوشلزم روس، چین اور کیوبا میں فروغ نہیں پا سکا ہے تواس کے معنی یہ ہرگز نہیں ہیں کہ سوشلزم کی جدوجہد ہی غلط ہے اوریہ کہ ادب بھی مجموعی ثقافت کا ایک اہم حصہ ہے اور اس کی اپنی اوپری شناخت سے الگ کرکے خودمختار سمجھنا صحیح نہیں ہے۔
ظاہر ہے کہ سرور صاحب کا توازن میتھیوآرنلڈ سے آگے کا تصور ہے۔ مگر بنیادی طور سے جدیدیت کو قابل قبول بنانے کے لیے اس کو ایک سرد تصور میں ڈھال لیا گیا ہے۔ اگر جدید ادیبوں اور شاعروں نے توازن کی تلاش کی ہوتی تو جدیدیت کا فروغ ممکن ہی نہ تھا۔ یہاں سرور صاحب یہ کہیں کہ جدیدیت سے ہمدردی نے انہیں ترقی پسندوں کا حریف بنا دیا ہے، تواس کے لیے عرض کروں گا کہ...
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books