خودپرستی کیجئے یا حق پرستی کیجئے
یاس کس دن کے لیے نا حق پرستی کیجئے
مرزا یاس یگانہ چنگیزی کا یہ شعر ہمیں ان کی شاعری اور شخصیت دونوں کو سمجھنے میں بڑی مدد دیتا ہے کیونکہ یہی ان کا مطمح نظر تھا۔ یگانہ کے بارے میں نقادوں اور شاعروں کا رویہ زیادہ تر یک طرفہ تھا۔ مجھے اردو غزل کے مسئلے پر گفتگو کرتے ہوئے ہمیشہ یہ احساس ہوا ہے کہ ان کے ساتھ ناانصافی کی گئی ہے۔ ڈاکٹریوسف حسین خاں نے اپنی کتاب میں حسرت، فانی، اصغر اور جگر کا بار بار تذکرہ کیا ہے مگر یگانہ کے بارے میں ایک جملہ بھی کہیں نظر نہیں آتا۔ البتہ انہوں نے اتنا احسان ضرور کیا ہے کہ یگانہ کی چند غزلوں کو انتخاب میں شامل کر لیا ہے۔ اسی طرح ترقی پسند نقادوں نے (سوائے مجنوں گورکھپوری کے) بھی ان کو نظرانداز کیا ہے۔
بات یہ ہے کہ اس رویے کے بنانے میں خود یگانہ کا بھی حصہ ہے۔ انہوں نے تعلی کو خودپرستی کے فلسفے کا رنگ دیا اور اتنے زوروشور کے ساتھ پیش کیا کہ معتدل مزاج ادیبوں کو بھی ان سے شکایتیں پیدا ہو گئی تھیں۔ اس کے علاوہ ’’غالب شکن‘‘ لکھ کر انہوں نے اپنے خلاف خاصا مواد ’’دشمنوں‘‘ کو دے دیا۔ ان تمام باتوں کے باوجود یگانہ کے آرٹ میں آب وتاب بھی ان کے انتہاپسند نظریے سے آئی ہے۔ وہ اس دور میں پیدا ہوئے تھے جبکہ لکھنوی شاعری فرسودہ روایات کی ردا میں لپٹی ہوئی تھی اور شعرا اپنی انفرادیت کو نمایاں کرنے کے لیے دوسرے بڑے شاعروں کے رنگ میں غزلیں کہنا فخر سمجھتے تھے۔ عزیز لکھنوی کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ لکھنؤ اسکول کے اس دور کے شاعروں نے آتش سے اپنے رشتے توڑ لیے تھے اور میروغالب کے رنگ میں طبع آزمائی کر رہے تھے۔
دوسرے الفاظ میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ لکھنؤ کے یہ شاعر خود اپنے شہر کی قدیم روایات کو اس قابل نہ سمجھتے تھے کہ ان سے فیض حاصل کیا جا سکے۔ ایسے دور میں اگر کوئی شاعر کسی دور دیس سے آکر لکھنؤ کی بودوباش اختیار کرکے وہاں اپنی انفرادیت کا علم اٹھانا چاہے تو اسے باغی سے کم نہیں سمجھا جا سکتا۔ وہاں کی اکثریت کا اس کو اپنے خلاف ایک محاذ سمجھنا بھی عجیب معلوم ہوتا ہے۔ یگانہ کو لکھنؤ والوں سے جو بےشمار شکایتیں تھیں، ان میں تھوڑی بہت صداقت ضرور تھی۔
یہاں اس ’’خطرناک‘‘ مسئلے کو چھیڑنا مقصود نہیں ہے بلکہ اشارۃ ًیہ بتلانا چاہتاہوں کہ یگانہ کی شخصیت میں جو چڑچڑاپن پیدا ہوا وہ فطری تھا اور ان کے انتہاپسند رویے کی ابتدا بھی ایک ردعمل کی صورت میں ہوئی تھی۔ وہ شروع میں کھری کھری سنانا ہی ایک بڑا کام سمجھتے تھے اور اس حق گوئی نے آگے چل کر ان کے کلام پر وہ جلاکی ہے کہ قائل ہونا ہی پڑتا ہے۔ ان کوجن معرکوں کا سامنا کرنا پڑا تھا وہ انشا اور مصحفی کے دور کی یاد دلاتے ہیں۔ ان کی زندگی ان مظالم کے خلاف جدوجہد کرتے گزری تھی اور ان کے آرٹ میں جو زندگی کا ولولہ اور جوش ہے وہ بھی ایک زبردست احتجاج کی حیثیت رکھتا ہے۔
مجنوں گورکھپوری نے اپنے مضمون’’میر اور ہم‘‘ میں ایک اہم بات لکھی ہے۔ ان کے چند جملے نقل کرتا ہوں، ’’ہردور میں بڑا شاعر وہی ہوتا ہے جو اپنے زمانے کی کشاکشوں کا خودداری اور وقار کے ساتھ رچے ہوئے اشاروں میں اظہار کر لیتاہے لیکن شعر کو پروپیگنڈہ نہ ہونے دے۔ اسی کے ساتھ ساتھ شاعر کی عظمت کی ایک اور پہچان یہ ہے کہ وہ آئندہ نسلوں کے اندر بغیر واعظانہ یا مبلغانہ دھن اختیار کیے ہوئے یہ احساس پیدا کر سکے کہ ان کو بھی اپنے زمانے کی مشکلوں اور پیچیدگیوں کا خود اعتمادی کے ساتھ مقابلہ کرنا ہے۔‘‘ (فن کار نمبر۳۴، ص ۱۹)
اس بات کو پوری طرح سمجھ لینا چاہئے جبھی ہم یگانہ کی شخصیت میں شدید قسم کی کج روی کو سمجھ سکتے ہیں۔ ان کی خودداری نے انہیں انتہاپسندی کے دوسرے سرے پر پہنچا دیا تھا مگر اس سے ان کے آرٹ کو نقصان نہیں پہنچا۔ شاید کچھ لوگوں کویہ بات عجیب سی معلوم ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ یگانہ کے کلام میں جو تلوار کی کاٹ، دھار ے کی تیزی اور زندگی کی لگن ہے وہ اسی کی ودیعت کی ہوئی تھی۔ وہ بظاہر غالب کے شدید مخالف تھے مگر وہ ان کے معترف بھی تھے۔ یہ ایک نفسیاتی نکتہ ہے۔ ’’آیات وجدانی‘‘ پڑھتے ہوئے کم از کم مجھے بار بار اس کا احساس ہوا تھا کہ وہ غالب کی عظمت کے قائل ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کی پیروی کرنا کسر کشان سمجھتے ہیں اور یہ منطقی طور سے غلط بھی نہیں ہے۔
یگانہ آرٹ کو سمجھنے میں ’’آیات وجدانی‘‘ کا مطالعہ بڑی مدد کرتا ہے۔ یہ اپنی قسم کا واحد مجموعہ ہے جس میں اشعار کی شرح بھی شامل ہے۔ یہ کتاب ۱۹۲۷ء میں شائع ہوئی تھی۔ یہ دور اردو ادب میں ایک ہنگامے کا دور تھا۔ اقبال کی شاعری عروج پر تھی۔ جوش نے اپنا ایک حلقہ بنانا شروع کر دیا تھا اور لکھنؤ اسکول کے شعرا ابھی تک بڑے شاعروں کی پیروی میں محو تھے۔ حسرت موہانی نے غزل کا احیا کیا تھا لیکن اس کو وہ معیار نہیں دے سکے تھے جوان سے پہلے کلاسیکی شاعروں نے قائم کیا تھا۔ مجھے اس کا اقرار ہے کہ حسرت نے غزل کو دوبارہ مقبول بناتے ہوئے بڑا اہم رول ادا کیا ہے لیکن میں یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہوں کہ وہ غزل کو پروقار اور بہت بلند مقام پر لے گئے تھے۔ ان کا شعری لب ولہجہ دل نشین ہونے کے باوجود بڑی شاعری کا لب ولہجہ نہیں ہے اور کم وبیش یہی حال اس دور کے دوسرے غزل گو شعرا کا تھا۔
اس مضمون میں تمام شعرا کے تقابلی مطالعے کی گنجائش نہیں ہے، اس لیے اتنا کہنا ضروری ہے کہ جب اردو غزل دوبارہ ترقی کی منزلیں طے کرنے کے لیے قدم بڑھا رہی تھی، اس وقت جولوگ اس کے ساتھ ساتھ تھے ان میں یگانہ پیش پیش تھے۔ اس بات کا اعتراف نہ تو ڈاکٹر یوسف حسین نے ’’اردو غزل‘‘ میں کیا ہے اور نہ ہی پروفیسر رشیداحمد صدیقی نے اپنے مقالے ’’جدید غزل‘‘ میں۔ یگانہ کو شعوری اور غیرشعوری دونوں طریقوں سے نظرانداز کرنے کی مہم بڑی حد تک کامیاب رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اچھے پڑھے لکھے متوازن مزاج لوگ بھی ان کے کلام سے واقف نہیں ہیں۔ اس زیادتی کے خلاف کسی نہ کسی نقاد کو ایک دن قلم اٹھانا ہی پڑےگا۔
مرزا یاس کا اصلی نام مرزا واجد حسین اور تاریخی نام مرزا افضل علی بیگ تھا۔ ان کا پہلا تخلص یاس تھا لیکن لکھنؤ آکر انہوں نے یگانہ بھی رکھ لیا۔ وہ ۱۳۰۱ھ میں عظیم آباد میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کی ابتدائی تعلیم مولانا بیتاب اور مولانا شاد کے ہاتھوں انجام پائی تھی۔ وہ ۱۹۱۴ء سے لکھنوی ہو گئے تھے اور خود کو لکھنؤ کے فدائیوں میں سمجھتے تھے۔ یہاں ایک اور ناانصافی کا ذکر کروں۔ ڈاکٹر ابواللیث نے اپنی کتاب ’’لکھنؤ کا دبستان شاعری‘‘ میں معمولی معمولی شاعروں کے ساتھ یگانہ کابھی ذکر کر دیا ہے۔ یہ یقیناً زبردست زیادتی تھی مگریگانہ ان مظالم کے عادی ہو چکے تھے، جبھی تو یہ کہا کرتے تھے،
دل طوفاں شکن تنہا جو آگے تھا سو اب بھی ہے
بہت طوفان ٹھنڈے پڑ گئے ٹکرا کے ساحل سے
اس شعر کو یگانہ کی زندگی کے پس منظر میں دیکھئے تو اس میں ایک لمبی داستان پوشیدہ معلوم ہوگی اور اس کا بھی اندازہ ہوگا کہ یہ ایک بڑے جری شخص کے کارناموں کا خوبصورت شاعرانہ اعتراف ہے۔ ان کے کلام میں ایسے اشعار کی کافی تعداد ہے۔ وہ ان غزل گو شعراء میں نہیں تھے جن کے چند مصرعے یا دو ایک شعر ہی تاریخ ادب میں رہ جاتے ہیں۔ عزیز اور صفی اسی قبیل کے شاعر تھے مگر اپنے دور میں ان کو یگانہ سے زیادہ مقبولیت حاصل تھی۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ مقبول عام کو شاعرانہ عظمت کے لیے سند بناکر نہ پیش کرنا چاہئے۔ ورنہ وقت کا ایسا بڑا نقاد مشاعروں کے ہنگاموں، محفلوں کی شمعوں اور پروپیگنڈے کو حرف غلط کی طرح مٹاکر صرف کلام کو پرکھتا ہے اور یگانہ اس معاملے میں یقینا ًخوش نصیب ہیں کہ آنے والا زمانہ انہیں زیادہ عزت دےگا۔
یگانہ کا فلسفہ حیات ایک جامع صورت میں نہیں ملتا کیوں کہ ایک غزل گو شاعر سے اس کی توقع کرنا ہی بےسود ہے۔ پھر بھی زندگی کو فلسفیانہ رنگ میں پیش کرنے کا ایک انداز ضرور ملتا ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ایک روشن فکر کے مالک تھے اور ان کا ذہن رسا دور درازکے فکری مضامین کی بھی خبر رکھتا تھا۔ ان کے یہاں تصوف ایک عقیدے کی صورت میں نہیں ملتا جیسے کہ اصغر کی شاعری میں ہے بلکہ کلاسیکی شعرا کا یہ دستور تھا کہ ایک غزل میں مختلف موضوعات کو زیر بحث لاتے تھے اور خیال آرائی کے پیش نظر تصوف کے مضامین بھی نظم کرتے تھے۔ اس کے علاوہ اپنے انفرادی رنگ کو ابھارنے کے لیے دوسرے شاعروں کی زمینوں میں غزلیں کہتے تھے۔ اس طرح ایک ہی بحر میں دو تین شاعروں کی غزلیں دیکھئے تو اندازہ ہو جائےگا کہ یہ کس شاعر کا کلام ہے۔
مصرع طرح پر کہنے کا رواج عام تھا اور یگانہ کے یہاں بھی بہت سی غزلیں ایسی ملیں گی جو مشاعروں کے لیے لکھی گئی ہیں مگر وہ ’’روش عام‘‘ سے ہٹ کر چلتے تھے اور اپنی انفرادیت کا ہر لمحہ خیال رکھتے تھے۔ اس میں ان کی شخصیت کے مجروح ہونے کا امکان تھا۔ یگانہ کا فلسفہ حیات اردو کے کلاسیکی شعرا سے زیادہ مختلف نہ تھا۔ ان کے یہاں بھی جبر وقدر، وحدت الوجود، دنیائے فانی اور اس کے ساتھ ہی ساتھ انسانی جدوجہد پرایمان، خودشناسی، زندگی کی لگن اور کچھ کر گزرنے کی تمنا بھی ملتی ہے۔ انہوں نے آتش کی آبائی شاعری کو دوبارہ زندہ کیا تھا۔ وہ کلاسیکی شعرا سے ایک معنی میں مختلف بھی تھے۔ ان کے یہاں جو سوزوگداز ہے وہ عشق کی دین نہیں ہے بلکہ زندگی کے تلخ تر تجربات کا نتیجہ ہے جن سے انہیں سابقہ پڑ ا تھا۔
اس کے یہ معنی نہیں کہ ان کے یہاں عشقیہ اشعار نہیں ہیں لیکن ان کے کلام میں نمایاں حیثیت ان شعروں کی ہے جس میں زندگی کے کسی نہ کسی تجربے کو فکری انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ میرا تو خیال ہے کہ اگر ان کی شخصیت کی کج روی انہیں اپنے میں محدود کرنے کے بجائے کسی ادبی تحریک سے وابستہ کر دیتی تو وہ بہت ہی بڑے شاعر مان لیے جاتے۔ یوں بھی وہ بیسویں صدی کے غزل گو شاعروں میں سب سے زیادہ اہمیت کے مستحق ہیں۔ اس سے انکار کرنا زیادتی ہوگی۔ ’’آیات وجدانی‘‘ میں پہلی اردو غزل میں یہ اشعار ملتے ہیں۔ ملاحظہ ہوں،
ہنوز زندگی تلخ کا مزا نہ ملا
کمال صبر ملا، صبر آزما نہ ملا
امیدوار رہائی قفس بدوش چلے
جہاں اشارہ توفیق غائبانہ ملا
امیدوبیم نے مارا مجھے دوراہے پر
کہاں کے دیروحرم گھر کا راستہ نہ ملا
بجز ارادہ پرستی خدا کو کیا جانے
وہ بدنصب جسے بخت نار سا نہ ملا
اور ’’آیات وجدانی‘‘ کی پہلی غزل جو فارسی میں ہے اس کے یہ بھی شعر ملاحظہ ہوں،
منکہ برنمے تابم درد زیستن تنہا
صبح دم چساں بینم شمع انجمن تنہا
صد رفیق و صد ہمدم پر شکستہ و دل تنگ
داور انمی زیبد بال و پر بمن تنہا
ان اشعار کے پڑھنے کے بعد فوراً جو ردعمل ہوتا ہے وہ لطیف شاعرانہ کیفیت کے علاوہ قوت عمل کے جذبے کو جگاتا ہے اور ذہن کو بیدارکرتا ہے۔ ان اشعار کا لب ولہجہ بھی اس دور کے دوسرے شاعروں سے بہت مختلف ہے۔ ان میں بقول مجنوں گورکھپوری ایک مردانہ پن پایا جاتا ہے۔ یگانہ کا آرٹ میناکاری کا آرٹ نہیں ہے۔ ان کے یہاں نازک جذبات بھی زور بیان کے تیکھے پن کے ساتھ آتے ہیں اور ان کا یہی کارنامہ ہے کہ انہوں نے آتش اور غالب کی زمین میں بلند پایہ غزلیں کہی ہیں جو نہ تو ان شعرا کی آواز بازگشت ہیں اور نہ صدابہ صحرا بلکہ ان میں آواز کی تیزی اور سوزوگداز کی آنچ کے ساتھ زندگی کا ولولہ بھی پایا جاتا ہے جسے ہم یگانہ آرٹ کہہ سکتے ہیں،
سمجھتے کیا تھے مگر سنتے تھے ترانہ درد
سمجھ میں آنے لگا جب تو پھر سنا نہ گیا
کروں تو کس سے کروں درد نارسا کا گلہ
کہ مجھ کولے کے دل دوست میں سما نہ گیا
ان کے مجموعہ کلام ’’گنجینہ‘‘ کی پہلی غزل کے یہ دو شعر ہی میرے خیال کی پوری تائید کرتے ہیں۔ ان میں درد کی عظمت اور انسانی ہمدردی کا جذبہ اس خوبصورتی کے ساتھ نظم ہوا ہے کہ ہم بڑی آسانی کے ساتھ پوری کیفیت سے نہ صرف آگاہ ہو جاتے ہیں بلکہ روح کی بالیدگی کا احساس ہوتا ہے اور یگانہ کی یہ بھی ایک خوبی تھی کہ رائج الوقت خیالات کے شدید مخالف ہوتے ہوئے بھی ان انسانی تجربات اور محسوسات کی کامیاب ترجمانی کرتے ہیں جن سے ہم سب دوچار ہوتے رہتے ہیں۔
ان کی زندگی ایک شدید تنہائی اور اذیت کے ساتھ گزری تھی لیکن ہمیں کہیں بھی وہ قنوطیت نہیں ملتی جوفانی کا جزو ایمان تھی۔ وہ فراریت نہیں ملتی جو انسانوں کو آسمانوں میں پناہ لینے پر مجبور کرتی ہے۔ اصغر کی شاعری کی بنیاد اسی پر تھی۔ یگانہ کے یہاں ایک ایسا بانکپن ہے جو نامرادی اور غم کو بھی آسان بنا دیتا ہے۔ انہوں نے اس بات کو یوں کہا ہے،
مزے کے ساتھ ہوں اندوہ غم تو کیا کہنا
یقیں نہ ہو تو کرے کوئی امتحاں اپنا
اور یقیناً یگانہ اس امتحان میں کامیا ب رہے ہیں۔ ان کے کلام میں نشتریت ضرور ہے لیکن وہ زہر میں بجھی ہوئی نہیں ہے۔ ان کی خلش آدمی کو بےچین کر سکتی ہے مار نہیں ڈالتی۔ یہ اشعار ملاحظہ ہوں،
مصیبت کا پہاڑ آخر کسی دن کٹ ہی جائےگا
مجھے سرمار کر تیشے سے مر جانا نہیں آتا
کدھر چلا ہے ادھر ایک رات بستا جا
گرجنے والے گرجتا ہے کیا برستا جا
صبر کرنا سخت مشکل ہے تڑپنا سہل ہے
اپنے بس کا کام کر لیتا ہوں آساں دیکھ کر
خداؤں کی خدائی ہو چکی بس
خدارا بس دہائی ہو گئی بس
افسردہ خاطروں کی خزاں کیا بہار کیا
کنج قفس میں مر رہے یا آشیانے میں
جو غم بھی کھائیں تو پہلے کھلائیں دشمن کو
اکیلے کھائیں گے ایسے تو ہم گنوار نہیں
چپکے چپکے ریشہ دوانی یہ بھی کوئی پیٹتی ہے
للکار نہیں تو کچھ بھی نہیں جھنکار نہیں تو کچھ بھی نہیں
دل سے خدا کا نام لیے جا، کام کیے جا دنیا کا
کافر ہو، دیں دارہو، دنیادار نہیں تو کچھ بھی نہیں
مزہ جب ہے کہ رفتہ رفتہ امیدیں پھلیں پھولیں
مگر نازل کوئی فضل الہی ناگہاں کیوں
حسن پر فرعون کی پھبتی کہی
ہاتھ لانا یار کیو ں کیسی کہی
طاعت ہو یا گناہ، پس پردہ خوب ہیں
دونوں کا جب مزہ ہے کہ تنہا کرے کوئی
کیسے کیسے خدا بنا ڈالے
دم بخود ہے تو پھر خدا کیاہے
آگ میں ہو جسے جلنا تووہ ہندو بن جائے
خاک میں ہو جسے ملنا وہ مسلماں ہو جائے
جیسے دوزخ کی ہوا کھاکے ابھی آیا ہے
کس قدر واعظ مکار ڈراتا ہے مجھے
ان اشعار میں ظرافت کی چاشنی ہے۔ ہلکی ہلکی سی گدگدی ہے۔ طنز کی نشتریت ہے اور سب سے بڑھ کر یہ بات ہے کہ بہت سی کام کی باتیں کہی گئی ہیں جو زندگی میں بڑی اہمیت رکھتی ہیں۔ ہم ان اشعار کو پڑھ کر ذہنی لطف حاصل کرتے ہیں اور ہمیں طنز کی تلخی کا بھی احساس رہتا ہے۔ اس کے معنی ہیں کہ شاعر اپنے مقصد میں کامیاب ہے۔ یگانہ کے یہاں مزاح کہیں کہیں پھکڑپن کی صورت اختیار کر لیتا ہے، خا ص کر ان کی وہ رباعیات جو غالب کے بارے میں ہیں۔ مگر عموماً ان کے مزاح میں صرف الفاظ کی الٹ پھیر نہیں رہتی بلکہ ایک مقصد اور خیال کے تحت وہ تبسم ہونٹوں پر آ جاتا ہے جو زندگی کی صحت پر دلالت کرتا ہے۔ مندرجہ بالا اشعار میں ایک اور بات صاف نمایاں ہے وہ ہے خلوص نیت۔ وہ اپنے طنز کی دھار کو اپنے ذاتی مفاد کے لیے نہیں استعمال کرتے اورنہ کسی کی پگڑی اچھالنے کا کام لیتے ہیں، جس کی وجہ سے ایک خاص قسم کی شگفتگی پیدا ہوگئی ہے جو مزاح کے لطف کو دوبالا کر دیتی ہے۔
یگانہ کے کلام میں خاصا تنوع ہے۔ اس کے باوجود روایتی انداز کے اشعار بھی ملتے ہیں۔ پھر بھی ہر جگہ انہوں نے عام روش سے ہٹ کر الگ اپنی راہ بنانے میں کامیاب کوشش کی ہے اور یہی وجہ ہے کہ یگانہ اپنے دور میں مقبول نہ ہو سکے۔ وہ بازار کا بھاؤ دیکھ کر شعر نہیں کہتے تھے بلکہ ان پر جو گزرتی تھی اس کو ’’آتش سیال‘‘ بناکر پیش کرتے تھے۔ ان کے یہاں فکری عناصر کے ساتھ جذبات کی گہرائی بھی ملتی ہے۔ وہ عقل ودل کی کشمکش ہو یا حسن وعشق کی کشش، دونوں قسم کے موضوعات کو اچھوتے انداز میں پیش کرتے ہیں۔ ان سے یہ شکایت تو کسی کو نہیں ہو سکتی کہ ادائے خیال میں الجھتے ہیں یا محاورات کے استعمال میں کمزور ہیں۔ البتہ کچھ لوگ اتنی تیزی و طراری پسند نہیں کرتے۔ ان کی شاعری شیشہ گری نہیں کرتی۔ وہ شکست وریخت میں یقین رکھتے ہوئے بھی جدوجہد کا پیغام دیتے ہیں۔
اصل میں ان کے کلام میں خودپرستی نے ایک نئے قسم کا تیقن پیدا کر دیا ہے جو ترقی پسند اور دوسرے قسم کے غزل گو شعرا کے یہاں نہیں ہے۔ ان کی بڑھتی ہوئی انفرادیت نے اپنے لیے وہ سنگلاخ زمین چنی تھی جس کو میروغالب اور آتش ایسے شاعر پہلے ہی ہموار کرکے شاداب کر چکے تھے اور ان پامال موضوعات کو دل کی جلن کے طفیل نئے انداز میں پیش کرنے کا کام بھی یگانہ نے انجام دیا۔ وہ لکھنؤ کے شعرا سے لڑائی کرکے ادبی دنیا میں وقتی طور سے کامیا ب نہ ہو سکے لیکن انہوں نے اپنے کلام میں مردانگی، بانکپن، نشاط، مزاح اور فکری عناصر کے امتزاج سے وہ جو ہر ضرور پیدا کر دیا جو ان کو فاتح بناتا رہا۔ ان کے یہاں الفاظ کی بندش، محاورات کی سادگی، تراکیب کی خوبصورتی، تشبیہات کی قدرت بھی بدرجہ اتم پائی جاتی ہے اور کوئی بھی انصاف پسند نقاد ان کی شاعرانہ اہمیت سے انکار نہیں کر سکتا ہے۔
ان کا شعری لب ولہجہ نہ صرف اس دور کے اردو غزل گو شعرا سے الگ ہے اور بہتر ہے بلکہ اردو کے کلاسیکی شعرا کے مقابلے میں پیش کیا جا سکتا ہے اوراسی میں یگانہ آرٹ کی عظمت مضمر ہے۔ وہ اپنے مرتبے سے واقف تھے یا نہ تھے لیکن وہ اتنا ضرور جانتے تھے کہ ایک فنکار کے لیے خود اعتمادی ضروری ہے اور انہوں نے اپنی فطری صلاحیتوں پر اس سے صیقل کی ہے جبھی دھار میں وہ تیزی آ سکی ہے جو ایک ہی وار میں ٹکڑے ٹکڑے کر سکتی ہے۔ ان کے مندرجہ ذیل اشعار کو پڑھئے اور پھر تیور کا اندازہ لگائیے،
خودی کا نشہ چڑھا آپ میں رہا نہ گیا
خدا بنے تھے یگانہ مگر بنا نہ گیا
اسی فریب نے مارا کہ کل ہے کتنی دور
اس آج کل میں عبث دن گنوائے ہیں کیا کیا
بلند ہو تو کھلے تجھ پہ راز پستی کا
بڑوں بڑٰوں کے قدم ڈگمگائے ہیں کیا کیا
بڑھتے بڑھتے اپنی حد سے بڑھ چلا دست ہوس
گھٹتے گھٹتے ایک دن دست دعا ہو جائےگا
مجھے اے ناخدا آخر کسی کو منھ دکھانا ہے
بہانہ کرکے تنہا پار اتر جانا نہیں آتا
سراپا راز ہوں میں کیا بتاؤں کون ہوں کیا ہوں
سمجھتا ہوں مگر دنیا کو سمجھانا نہیں آتا
چلے چلو جہاں لے جائے ولولہ دل کا
دلیل راہ محبت ہے فیصلہ دل کا
خود اپنی آگ میں جلتا تو کیمیا ہوتا
مزاج داں نہ تھا پروانہ شمع محفل کا
عجب کیا وعدہ فردا پس فردا پہ ٹل جائے
کوئی شام اور آجائے نہ شام بے سحر ہوکر
اف رے تفرقات عشق آگ لگے دھواں نہ ہو
ڈوبے ہوئے ہیں سنگ دل لذت سوزوساز میں
یکساں کبھی کسی کی نہ گذری زمانے میں
یادش بخیر بیٹھے تھے کل آشیانے میں
موت مانگی تھی خدائی تو نہیں مانگی تھی
لے دعا کر چکے اب ترک دعا کرتے ہیں
دل نے بزور عشق لگایا ہے راہ پر
گم گشتگان غم کدہ روزگار کو
زمانہ لاکھ گم ہو جائے آپ اپنے اندھیرے میں
کوئی صاحب نظر اپنی طرف سے بدگماں کیوں ہو
یہ ناہموار ہی ہموار ہو جائے تو کیا کم ہے
زمیں سے جب نہیں فرصت تو فکر آسماں کیو ں ہو
شمع کیا شمع کا اجالا کیا
دن چڑھے سامنا کرے کوئی
دیوانہ وار دوڑ کے کوئی لپٹ نہ جائے
آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے دیکھا نہ کیجئے
شیطان کا شیطان، فرشتہ کا فرشتہ
انسان کی یہ بوالعجبی یاد رہے گی
تمہارے دم سے سلامت ہیں ولولے دل کے
سزا کے بعد مظاہر ابھارنے والے
نگاہ حسن سے اب تک وفا ٹپکتی ہے
ستم رسیدہ سہی، پیرہن دریدہ سہی
چتونوں سے ملتا ہے کچھ سراغ باطن کا
چال سے تو کافر پر سادگی برستی ہے
خضر منزل اپنا ہوں، اپنی راہ چلتا ہوں
میرے حال پر دنیا کیا سمجھ کے ہنستی ہے
میں نے اتنے زیادہ اشعار اس لیے پیش کیے ہیں کہ ان سے کچھ نہ کچھ ان کے کلام کی خوبیاں نمایاں ہو جاتی ہیں۔ اس مختصر مضمون میں ان کے اشعار کا تجزیہ اور تنقید کرنا مشکل ہے۔ پھر بھی مندرجہ بالا اشعار کے بارے میں چند باتیں کہہ دینا ضروری ہے۔ ان میں موضوع کے تنوع کے ساتھ لب ولہجہ کا اتار چڑھاؤ بھی موجود ہے۔ فکر کے پہلو بھی عیاں ہیں۔ خیال کی لطافت بھی ہے۔ عشق کا والہانہ پن بھی ملتا ہے اور سوزوگداز بھی ہے جو ناکامیوں کو قوت عمل میں تبدیل کر دیتا ہے۔ وہ تیقن بھی ہے جو زمانے کی راہ سے الگ اپنی راہ بنانے میں مدد دیتاہے اور یہی صاحب نظری کی دلیل بھی ہے۔ چند شعر تو ایسے ہی کہ اردو غزل کے سخت سے سخت انتخاب میں شامل کیے جا سکتے ہیں اور کئی شعر ضرب المثل بن چکے ہیں۔ لوگوں کویہ خبر نہیں ہے کہ یہ شعر یگانہ کی دین ہے۔
غالب کی زمین میں دو تین شعر بھی اتنے اچھے کہنا محال تھا اور یگانہ کے شعر (کیوں ہو) کسی لحاظ سے بھی غالب کے اشعار سے کم نہیں ہیں۔ ان میں جذبات کی تہیں نہ سہی فکر کی بلندی اور لب ولہجہ کا وقار ضرور ہے۔ حسن کی اتنی اچھی تصویر بھی ہے۔ چتونوں سے باطن کا سراغ لگانا اردو شاعروں کے لیے نیا خیال نہ سہی پھر بھی اپنی قسم کا واحدشعر ضرور ہے اوردنیا میں آدمی ماضی کی باتیں کتنی جلدی بھول جاتا ہے اس کو اس خوبصورتی سے پیش کیا ہے کہ جوش ایسے بڑے شاعر نے بھی یہ مصرع استعمال کیا ہے۔ یہاں تمام اشعار کی تفسیروتنقید کی گنجائش نہیں ہے۔ اس کا فیصلہ قاری پر چھوڑتا ہوں۔
یگانہ آرٹ کے سلسلے میں رباعیات کا ذکر بھی بہت ضروری ہے۔ یہ آبگینہ کا فن ہے اور اس میں مہارت چند ہی شاعروں کو حاصل ہے۔ ان میں بیسویں صدی کے شاعروں ہی میں نہیں بلکہ انیس کے بعد یگانہ ہی کا نام آتا ہے۔ پھر جوش اور فراق کا۔ اس فن میں یگانہ کا آرٹ اپنے عروج پر ہے اور اس بات کے تو وہ بھی قائل ہیں جویگانہ کو بڑا غزل گو شاعر نہیں مانتے ہیں۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ اچھے شاعر کے کمال کے جوہر اس میں کھلتے ہیں۔ چار مصرعوں میں ادائے خیال کے ساتھ ساتھ لب ولہجہ کا اتار چڑھاؤ اور سب سے بڑھ کر تیسرے اور چوتھے مصرع کی کاریگری ہی حسن رباعی کو دوبالا کرتی ہے۔
یہ ایک خطرناک صنف بھی ہے کیونکہ اوسط درجے کے غزل گو کا سارا بھرم کھل جاتاہے۔ دوسرے صرف تشبیہ واستعارہ سے کام نہیں چلتا ہے۔ خیال کی ندرت، تراکیب اور الفاظ کی بندش کا خاص خیال رکھنا پڑتا ہے۔ یہ صنف نظم اور غزل کے درمیان ایک پل کی حیثیت رکھتی ہے۔ یگانہ نے اس کو اپنے انتہاپسندانہ نظریے کے اظہار کا ذریعہ بنایا تھا۔ ’’ترانہ‘‘ کے نام سے منتخب رباعیات کا مجموعہ بھی ۱۹۳۳ء میں شائع ہوا تھا۔ اب ان کو ’’گنجینہ‘‘ میں شامل کر لیا گیا ہے۔ پہلی رباعی ہے،
ساجن کو سکھی منا لو پھر سو لینا
سوتی قسمت جگا لو پھر سو لینا
سوتا سنسار، سننے والا بیدار
اپنی بیتی سنا لو پھر سو لینا
اس رباعی میں کوئی بڑا خیال نہیں ہے لیکن حسن ادا اور سادگی نے اس کودل نشین بنا دیا ہے۔ ’’سننے والا بیدار‘‘ استعمال کرکے سکھی کے دکھ کی پوری کہانی کو چھیڑ دیا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جانے کتنی افسردہ دلی سے سوئی ہوگی۔ شاید انتظار کرتے کرتے تھک گئی ہو۔ اسی طرح ایک اور رباعی ملاحظہ ہو جو فلسفہ حیات کے بارے میں ہے،
چارہ نہیں کوئی جلتے رہنے کے سوا
سانچے میں فنا کے ڈھلتے رہنے کے سوا
اے شمع! تری حیات فانی کیا ہے
جھونکا کھانے، سنبھلتے رہنے کے سوا
شاعر نے ’’سنبھلتے رہنے‘‘ کہہ کر زندگی کی جدوجہد کی طرف اشارہ کیا ہے اور میرا خیال ہے کہ یہ رباعی انیس کے اس خوبصورت شعرسے زیادہ اچھی ہے۔
انیس دم کا بھروسہ نہیں ٹھہر جاؤ
چراغ لے کے کہاں سامنے ہوا کے چلے
یگانہ نے غم سے زندہ دلی کا کام لیا تھا اور طوفان ٹکراکر آگے بڑھتے رہتے تھے۔ امید کن دشوار گزار منزلوں سے گذرتی ہے، اس کا اندازہ وہی کر سکتا ہے جو اپنے پر پورا اعتماد رکھتا ہو اور امید پر نہ جیتا ہو۔ یگانہ نے اپنی رباعیات میں کہیں تو جذبات کے نازک نازک پھولوں کو پیش کیا ہے، کہیں مردانہ وار حالات سے جنگ مول لی ہے، کہیں زندگی کے تسلسل کو بیان کیا ہے اور کہیں موت کی آرزو کی ہے۔ کہیں غور فکر کے لیے وہ نظر پیدا کی ہے جو اوجھل راہوں کا پتہ لگاتی ہے اور پتھروں کا جگر چاک کر ڈالتی ہے۔ مندرجہ ذیل رباعیات ملاحظہ ہوں،
موجوں سے لپٹ کے پار اترنے والے
طوفان بلا سے نہیں ڈرنے والے
کچھ بس نہ چلا تو جان پر کھیل گئے
کیا چال چلے ہیں ڈوب مرنے والے
امکان طلب سے کوئی آگاہ تو ہو
منزل کا تہہ دل سے ہو ا خواہ تو ہو
چل پھر کے ذرا دیکھ جھجکتا کیا ہے
مل جائےگی راہ راست گمراہ تو ہو
ہر رنگ کو کہتا ہے فریب نظری
ہر بو کو ہوائے منزل بے خبری
ہر حسن کو فلسفی کی آنکھوں سے نہ دیکھ
دشمن کو مبارک ہو یہ بالغ نظری
ہاں فکر رسا دیکھ بڑا بول نہ بول
گنجینہ راز اندھی نگری میں نہ کھول
جس کی جتنی ضرورت اتنی قیمت
ہیرا کبھی کنکر ہے کبھی ہے انمول
دنیا میں رہ کے راست بازی کب تک
مشکل ہے کچھ آساں نہیں سیدھا مسلک
سچ بول کے کیا حسینؑ بننا ہے تجھے
اتنا سچ بول، دال میں جیسے نمک
دنیا سے الگ جاکے کہیں سر پھوڑو
یا جیتے ہی جی مردوں سے ناتا جوڑو
کیوں ٹھوکریں کھانے کو پڑے ہو بیکار
بڑھنا ہے بڑھو، نہیں تو رستہ چھوڑو
وہ حسن ہی کیا ہے جو گلے کٹوائے
فتنے برپا کرے، قیامت ڈھائے
دیکھا ہوگا مگر نہ دیکھا ہوگا
وہ حسن جسے دیکھ کر چپ لگ جائے
کعبہ کی طرف دور سے سجدہ کرلوں
یا دیر کا آخری نظارہ کر لوں
کچھ دیر کی مہمان ہے جاتی دنیا
اک اور گنہ کرلوں کہ توبہ کر لوں
یگانہ کی ان رباعیات میں تمام فنی خوبیاں ملتی ہیں۔ ان میں جامعیت ہے اور خیال کی پوری ادائی بھی۔ زبان وبیان پر انہیں پوری قدرت حاصل تھی، اس کا اظہار بھی ملتا ہے۔ آخری زمانے میں انہوں نے زیادہ تر رباعیات ہی لکھی تھیں۔
وہ اردو کے ان غزل گو شعرا کی صف میں یقینا ًشامل ہیں جن کے نام سے غزل کی شمع آج تک روشن ہے اور ان کے اس مرتبے کو ادب کے طالب علم کو پہچاننا چاہئے۔ انہوں نے لکھنؤ کے آخری دو ر کی شاعرانہ روایات سے بغاوت کرکے اسکول تو نہیں قائم کیا مگر فراق ایسے غزل گو کو ضرور متاثر کیا اور جو رچاؤ اور وقار ان کے کلام میں ملتا ہے وہ اصغر اور جگر کے یہاں خال خال نظر آتا ہے۔ یگانہ کے خلاف جتنے ہنگامے اٹھائے گئے تھے، اس کا کسی موجودہ شاعر کو سامنا نہ کرنا پڑا اور ان صبر شکن حالات میں وہ پوری خودداری کے ساتھ اپنے آرٹ کی پرورش کرتے رہے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ان کو زمانہ کی ناقدری کا نشانہ بننا پڑا۔ وہ آزاد فکر اور روشن طبع شاعر تھے۔ ان پر جہالت اور تعصب نے ہر طرح کے وار کیے اور جاننے والے جانتے ہیں کہ ان کے سینے میں زخم ناسور بن چکے تھے مگر جب بھی درد شعر میں ڈھل کر آیا ہے تو وہ مردانہ وار حالات سے مقابلہ کرنے والا جنون بن کے آیا ہے۔ ایسی بلند شخصیت کے کتنے لوگ ہیں، جو اپنے خیالات اور نظریات کے لیے سخت سے سخت سزائیں برداشت کر لیتے ہیں اور پوری زندگی غم واندوہ میں گزارنے کے باوجود اپنے کلام میں مزاح کی چاشنی، طنز کی نشتریت، لب ولہجہ کا وقار، مضامین کی بلندی اور زبان وبیان کی قدرت کا اظہار کرتے ہیں۔
یگانہ آرٹ وہ آئینہ ہے جس میں ایک بلند شخصیت کے شاعر کی تنہا جدوجہد کی پوری داستان چھپی ہے اور آج بھی وہ حیرت سے ہما ری طرف دیکھ رہا ہے، کیونکہ ابھی تک لوگوں نے ان کو نظرانداز کیاہے۔ یہ سلسلہ کب تک جاری رہےگا کوئی کیا جانے۔ مگر میں اتنا ضرور کہنا چاہتا ہوں کہ قدر شناس نظروں نے ان کے کلام کو پہچان لیا ہے اور بہت جلد اردو ادب کا نیا مؤرخ بھی ان کو وہ بلند مقام عطا کرےگا جس کے وہ مستحق تھے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.