aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ ",2k13"
پھر وہی کنج قفس پھر وہی صیاد (213) کا گھرمیں نے باتوں باتوں میں یہ بھی کوشش کی کہ مولوی صاحب کی طبیعت کا اندازہ لگاؤں۔ پہلے تو ذرا بند بند رہے، لیکن آخر میں بالکل کھل گئے۔ میں نے جو رائے ان کے متعلق قائم کی ہے وہ سن لیجئے۔ سب سے پہلے تو یہ ہے کہ ان میں ظرافت کا مادہ بہت تھا۔ لیکن یہ ظرافت اکثر رکاکت کی صورت اختیار کر لیتی تھی۔ کسی کوبرا بھی کہتے تو ایسے الفاظ میں کہتے کہ سننے سے تکلیف ہوتی، اور جب کہنے پر آتے تو پھر یہ نہ دیکھتے کہ میں کیا کہہ رہا ہوں اور کس کے سامنے کہہ رہا ہوں۔ نتیجہ اکثر یہ ہوتا کہ لوگ ادھر سے ادھر لگا دیتے اور مولوی صاحب کی کسی نہ کسی سے بگڑ جاتی۔ شاید ہی کوئی بھلا آدمی ہوگا جو سچے دل سے ان کو چاہتا ہو۔ ان کے علم، ان کی سمجھ، ان کی زود فہمی اور ان کی طبع رسا کی سب تعریف کرتے ہیں لیکن ان کی طبیعت کے سب شاکی ہیں اور وہ خود بھی اس سے بیزار تھے۔
یہ خیال مہمل ہے کہ (الف) اردو میں بچوں کا ادب کم لکھا گیا ہے۔ (ب)ادب اطفال کو تحقیق و تنقید کا موضوع کم بنایا گیا ہے۔ (ت) اردو میں بچوں کے کم رسائل شائع ہوئے ہیں۔ (الف) مقدار کے لحاظ سے دیکھا جائے تو اردو میں بچوں کے ادب کا وافر ذخیرہ موجود ہے بلکہ بچوں کی ضرورت سے کہیں زیادہ ہے۔ جیسا کہ مناظر عاشق ہرگانوی کی کتاب ’’بچوں کا ادب کی اینتھالوجی‘‘ 22 جلدوں پر مشتمل گوپی چند نارنگ اور مظفر حنفی کی مرتب کردہ ’’وضاحتی کتابیات‘‘ اور اردو کے اہم اشاعتی اداروں(مکتبہ پیام تعلیم، مکتبہ کھلونا، نیشنل بک ٹرسٹ، نئی دہلی، قومی اردو کونسل، نئی دہلی،رحمانی پبلی کیشن، مالیگاؤں، ادارہ الحسنات رام پور، نسیم بک ڈپو، لکھنؤ)کی فہرست کتب سے اندازہ ہوتا ہے۔ ویسے بھی بچوں کے ادب کی تاریخ پر نگاہ ڈالی جائے تو اردو ادب کے بہت سارے اہم نام ادبِ اطفال کے ضمن میں سامنے آتے ہیں۔ امیر خسرو، نظیر اکبر آبادی، مرزا غالب، ڈپٹی نذیر احمد، محمد حسین آزاد،انشاء اللہ خاں انشائ، الطاف حسین حالی، پریم چند، اقبال، اسماعیل میرٹھی، برج نارائن چکبست، تلوک چند محروم، نظم طبا طبائی، سرور جہاں آبادی، حفیظ جالندھری، صوفی غلام مصطفیٰ تبسم، رضیہ سجاد ظہیر، کرشن چندر، قرۃ العین حیدر، عصمت چغتائی، فیض احمد فیض، عظیم بیگ چغتائی، امتیاز علی تاج یہ وہ نام ہیں جنہوں نے بچوں کے ادب میں گراں قدر اضافے کئے ہیں۔ کمیت کے اعتبار سے ادب اطفال کی کمی نہیں ہے۔ کیفیت کے لحاظ سے یقینا کم ہے اسی لئے ادب اطفال کے معیار پر سوالات اٹھتے رہے ہیں۔ پروفسیر مظفر حنفی نے ادب اطفال کے نثری حصہ کو کسی حد تک ادبیت کا حامل قرار دیا ہے مگر شاعری کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ: ’’شاعری کی حالت خستہ ہے۔ 95فیصد لکھنے والے اسکولوں کے اساتذہ ہیں جو پند و موعظت سے مملو ایسی سپاٹ قسم کی تک بندیاں پیش کرتے ہیں جنہیں پڑھ کر ابکائی آتی ہے۔‘‘ کچھ ایسی ہی رائے اسد اریب کی بھی ہے: ’’جو شاعری بچوں کے لئے اس وقت تخلیق کی جار ہی ہے وہ اخلاقی، مذہبی اور ملی پروپیگنڈے کی شاعری ہے۔ اس میں بچوں کی بھولی بھالی معصوم فطرت کی خواہشوں کی کوئی لہر وہر نہیں ملتی۔ نہ پرندے ہیں نہ طوطے ، کوے، بلبلیں نہ چوہے ، بلیاں، چوزے اور بطخیں، نہ شرارتیں، شوخیاں اور تحیر ہے، نہ چہلیں۔‘‘ معیار کے اعتبار سے بچوں کے ادب کی اب بھی ضرورت ہے۔ خاص طور پر سائنس ، ٹیکنالوجی اور ماحولیات کے حوالے سے کہ اس ضمن میں بچوں کا ادب کم تخلیق کیا گیا ہے جب کہ انسانیت کا مستقبل سائنس سے وابستہ ہے اور اس پہلو پر بچوں کے ادیبوں کو زیادہ سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ (ب) اردو میں ادب اطفال کے حوالے سے بہت سے تحقیقی و تنقیدی مطالعات بھی سامنے آئے ہیں۔ جن میں خوشحال زیدی کی ’’اردو میں بچوں کاادب‘‘(ادارہ بزم خضر راہ کانپور، 1989) ، ’’اردو ادب اطفال میں خواتین کا حصہ‘‘(بزم خضر راہ نئی دہلی، 2009) ’’اردو ادب اطفال کے معمار‘‘(نہرو چلڈرن اکیڈمی، نئی دہلی،1993)بچوں کا ادب اکیسویں صدی کی دہلیز پر (ادارہ بزم خضر راہ، نئی دہلی،2007) سیدہ مشہدی کی ’’اردو میں بچوں کا ادب‘‘، (ایمن پبلی کیشنز ،رانچی، 1996) مشیر فاطمہ کی ’’بچوں کے ادب کی خصوصیات‘‘ ۔ (انجمن ترقی اردو، علی گڑھ، 1962) ڈاکٹر اسد اریب کی ’’اردو میں بچوں کا ادب نئے رجحانات‘‘( کاروان ادب ملتان،1983) مرزا ادیب کی ’’اردو میں بچوں کا ادب‘‘ پروفیسر اکبر رحمانی کی ’’اردو میں ادب اطفال ایک جائزہ‘‘ (ایجوکیشنل اکادمی اسلام پورہ، جلگاؤں، 1991) ضیاء الرحمن غوثی کی ’’بہار میں بچوں کا ادب‘‘(نئی دہلی، 2005) بانو سرتاج کی ’’ادب اطفال ایک مطالعہ‘‘، حافظ کرناٹکی کی ’’بچوں کا ادب اور ہماری ذمہ داریاں‘‘(ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی، 2015) سیداسرارالحق سبیلی کی ’’بچوں کے ادب کی تاریخ‘‘ (ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی، 2016) زیب النساء بیگم کی ’’اقبال اور بچوں کا ادب‘‘ امیر حمزہ کی مرتب کردہ ادب اطفال (عذرا بک ٹریڈرس، دہلی۔2018) غزالہ فاطمہ کی ’’معصوم جذبوں کی جمالیات‘‘ ،’ڈاکٹر شمیم اختر کی ’’ودربھ میں بچوں کا نثری ادب اور وکیل نجیب‘‘ (الفاظ پبلی کیشن کامٹی،2019)،ڈاکٹر عبدالعزیز عرفان کی ’’ادب عرفان کے درخشاں ستارے‘‘ (اورنگ آباد،2020)،ڈاکٹر بانو سرتاج کی ’’معماران اردو ادب اطفال‘‘ (چندر پور،2019)، ڈاکٹر شیخ طاہرہ عبدالشکور کی ’’ادب اطفال اور نذیر فتح پوری‘‘ (مالیگاؤں 2017)اور شاذیہ کی ’’رامپور میں بچوں کا ادب اور ماہنامہ نور‘‘، ڈاکٹر منصور خوشتر کی ’’بہار میں بچوں کا ادب‘‘ (2021 )نہایت اہم ہیں۔ ان کے علاوہ مختلف عصری جامعات میں ادب اطفال کے حوالے سے تحقیقی مقالے لکھے گئے ہیں۔ جن میں فوزیہ چودھری کا تحقیقی مقالہ، اردو میں بچوں کا ادب، شیخ محمد صابر محمد محمود کا پی ایچ ڈی مقالہ، مہاراشٹر میں اردوادب اطفال کا تنقیدی مطالعہ(شعبۂ اردو مہاراشٹر ادے گیر کالج، اود گیر، ضلع لاتور، مہاراشٹر)آفاق عالم کا تحقیقی مطالعہ، کرناٹک میں اردو ادب اطفال، (کوئمپو یونیورسٹی، شیموگا، کرناٹک)، مسز عابدہ خانم سونور کا تحقیقی مقالہ: بیسویں صدی میں بچوں کا اردو ادب(دھارواڑ یونیورسٹی، کرناٹک) ، مہہ جبیں بانو کا آزادی کے بعد ہندوستان میں بچوں کے ادب کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ (شعبۂ اردو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ) ،ڈاکٹر محمدخالد کا ’اردو اور ہندی میں بچوں کے نثری ادب کا تقابلی مطالعہ‘ (جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی)، ڈاکٹر قیصر زاہدی کا ’’اردو میں بچوں کا ادب ایک تحقیقی و تنقیدی مطالعہ (پٹنہ یونیورسٹی، پٹنہ) اور سالک جمیل برار کا ’مشرقی پنجاب میں ادبِ اطفال کی روایت‘ (پنجابی یونیورسٹی پٹیالہِ)قابل ذکر ہیں۔اس کے علاوہ ادب اطفال پر پاکستان میں کئی تحقیقی مقالے لکھے گئے ہیں۔ پروفیسر مجیب ظفر انوار حمیدی کے مطابق اسد اریب نے بچوں کا ادب کے عنوان سے پی ایچ ڈی کا تحقیقی مقالہ لکھا اور اسی طرح ڈاکٹر محمود الرحمن کا بھی تحقیقی مقالہ بچوں کے ادب سے متعلق ہے اور خود پروفیسر مجیب ظفر انوار حمیدی نے اردو میں بچوں کا ادب آزادی کے بعد کے عنوان سے پی ایچ ڈی کی ہے۔ بہت سے رسائل نے بھی ادب اطفال پر خصوصی شمارے شائع کئے جن میں نیا دور (لکھنؤ) کا اطفال نمبر(نومبر، دسمبر1979) ، آجکل نئی دہلی کا ادب بچوں کا نمبر(جنوری1979ئ) شاعر ممبئی کا بچوں کا ادب نمبر (جون 2013)مژگاںکولکاتہ کا ادب اطفال نمبر اہم ہیں۔ ان کے علاوہ ادب اطفال کے حوالے سے مقالات اور مضامین کی اشاعت رسائل میں ہوتی رہی ہے۔ جن میں مظفر حنفی کا مضمون ’’اردو میں ادب اطفال‘‘ نہایت وقیع ہے جو ان کی کتاب ’جہات و جستجو‘ (1982)میں بھی شامل ہے۔ ڈاکٹر عمران مشتاق کا مضمون بچوں کا اردو ادب مشمولہ: مخزن برطانیہ۔۶ اور نیرنگ خیال میں شائع کسری منہاس کا مضمون ’’بچوں کا ادب اور اسماعیل میرٹھی‘‘ بھی اس ضمن میں قابل ذکر ہیں۔ (ت) یہ کہنا بھی بے معنی ہے کہ اردو میں بچوں کے رسالے کم شائع ہوئے ہیں۔ ضیاء اللہ کھوکھر کی کتاب ’’بچوں کی صحافت کے سوسال‘‘ (عبدالمجید کھوکھر یادگار لائبریری گوجرانوالہ) سے یہ اندازہ لگانا دشوار نہیں ہے کہ تقریباً دو سو سے زائد بچوں کے رسالے ماضی تا حال شائع ہوتے رہے ہیں۔ ہاں یہ بات صحیح ہے کہ بچوں کے رسائل کے مدیروں سے ہماری واقفیت بہت کم ہے جب کہ بڑوں کے رسائل کے بیشتر مدیران سے ایک بڑا طبقہ واقفیت رکھتا ہے ۔بچوں کے بہت سے رسائل کے نام ہمارے ذہنوں پر نقش نہیں ہیں۔صرف چند ہی نام ہیں جو ہمارے ذہن میں آتے ہیں ان میں ماہنامہ ’پھول‘ ’نونہال‘ ’کھلونا‘ ’غنچہ‘ ’پیام تعلیم‘ ’امنگ‘ ’ٹافی‘ ’کلیاں‘ قابل ذکر ہیںمگر ان رسالوں کے مدیران سے بھی ایک بڑا طبقہ ناآشنا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بچوں کے رسائل کے مدیران کا نہ تو مکمل سوانحی خاکہ ملتا ہے او رنہ ہی ان کے کارناموں کی تفصیلات ۔ بچوں کے رسائل بھی ان مدیران کا تعارف نہیں کراتے جس کی وجہ سے مستقبل کے یہ معمار دشت گمنامی میں کھو جاتے ہیں۔ اس لئے ضرورت ہے کہ بچوں کے مدیران پر سیمیناروں کا انعقاد کیا جائے اور ان کی خدمات پر مشتمل دستاویز مرتب کی جائے کیوں کہ بچوں کے رسائل کے یہی مدیران ہیں جنہوں نے بڑے بڑے قلم کاروں کو جنم دیا ہے۔ آج کے بہت سے مشہور ادباء و شعراء انہیں بچوں کے رسائل کی دین ہیں ۔ ماضی میں ماہنامہ ’پھول‘ (لاہور ) نے بہت سے تخلیقی اور ادبی ذہنوں کی تربیت کی اور آج ان کے نام ادبی منظرنامہ پر روشن ہیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان لوگوں کا بنیادی ارتکاز بچوں میں مضمون نگاری کا ذوق پیدا کرنا اور صحیح انداز میں ان کی تعلیم و تربیت کرنا تھا۔ ان کے سامنے ایک مشن اور مقصد تھا اسی لئے وہ اپنے مقصد میں کامیاب رہے۔ دراصل رسائل سے ہی بچوں کی تحریری اور ذہنی تربیت ہوتی ہے اور یہی رسائل ہوتے ہیں جو بچوں کے ذہن اور ذوق کو جلا بخشتے ہیں۔ ان رسالوں میں بچوں کے لئے بہت ہی دلچسپ اور معلوماتی مواد ہوتا تھا۔ معروف ادیبوں کی دلچسپ کہانیو ںاور نظموں کے علاوہ ایسے کالم ہوتے تھے جو بچوں کو مہمیز کرتے تھے۔ دراصل ایک رسالہ کا مقصد بچوں کو Curious, Creative, Caring اور confident بنانا ہوتا ہے۔ اور ماضی میں زیادہ تر رسالوں نے یہ کام بخوبی انجام دیا۔ صحیح خطوط پر بچوں کی تعلیم و تربیت کا انتظام کیا۔ خاص طور پر بچوں کے رسائل کی ضرورت کا احساس ان افراد کو زیادہ تھا جو قومی عروج کی جڑ بچوں کی تعلیم کو سمجھتے تھے۔ اسی لئے ان لوگوں نے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے رسائل شائع کئے۔ تفریح کے ساتھ تعلیم و تربیت بھی ان کا مقصد تھا۔ صحافتی تاریخ کے مطابق بچوں کا اولین ماہانہ رسالہ پیسہ اخبار کے مدیر مولوی محبوب عالم نے مئی 1902ء میں شائع کیا تھا ۔جس کا نام تھا ’’بچوں کا اخبار‘‘یہ کثیر الاشاعت ماہنامہ تھا۔ اس میں ترغیب و تشویق کے لئے بچوں کی غیر معیاری تحریریں بھی شائع کی جاتی تھیں۔ دس سال کی مدت اشاعت پوری کرنے کے بعد یہ رسالہ بند ہوگیا۔ اس رسالے کی قیمت اس وقت سالانہ معہ محصول ڈاک دو روپے چھ آنے تھی ۔اس کے بعد جو رسالے نکلے ان میں تہذیب نسواں کے ایڈیٹر مولوی ممتاز علی (فاضل دیوبند) کا ’’پھول‘‘ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس کی اشاعت کا آغاز اکتوبر؍1909ء میں لاہور سے ہوا۔ یہ بچوں کا پہلا ہفت روزہ رسالہ تھا۔ جس کا بچوں کو بہت ہی شدت سے انتظار رہتا تھا۔ اس میں بچوں کی نگارشات ترجیحی طور پر شائع کی جاتی تھیں۔ مولوی ممتاز علی نے اس رسالہ میں آسان اور سلیس زبان کا التزام رکھا تھا۔ اس بابت انہوں نے ایک جگہ یہ لکھا ہے کہ : ’’پھول میں وہ مضامین نہیں چھاپے جاتے جن میں مشکل الفاظ یا مشکل خیالات ہوں یا بے جا مبالغہ ہو۔‘‘ اس رسالے کو معروف ادیبوں کا تعاون حاصل تھا۔ ایک خوبصورت دیدہ زیب رسالہ جس سے حفیظ جالندھری، عبدالمجید سالک، امتیاز علی تاج، احمد ندیم قاسمی وغیرہ کی وابستگی تھی۔ محترمہ بنت نذرالباقر، محمدی بیگم اور حجاب امتیاز علی بھی اس کی ادارت سے وابستہ رہی ہیں۔ اس رسالہ کے قلم کاروں میں پطرس بخاری، محمد دین تاثیر، شوکت تھانوی اور اختر شیرانی جیسی قدآور شخصیتیں تھیں۔تقریباً 48 سال تک بچوں کے لئے دلچسپ اور خوشنما یہ رسالہ شائع ہوتا رہا اور 1958ء میں یہ رسالہ بھی بند ہوگیا۔ اس کے بعد بہت سے رسالے شائع ہوئے جن میں سعید لخت کا تعلیم و تربیت(لاہور) کلیم چغتائی کا ساتھی (کراچی)مقبول احمد کا بچوں کاباغ (لاہور) علامہ تاجور نجیب آبادی کا ’’پریم‘‘ (لاہور) نونہال(کراچی) انوکھی کہانیاں (کراچی) جنگل منگل(کراچی) وغیرہ اہم ہیں۔ ان میں ’’ہمدرد نونہال‘‘ کو بے پناہ شہرت و مقبولیت ملی اور یہ شاید واحد ایسا رسالہ تھا جو مواد اور موضوعاتی تنوع کے اعتبار سے بچوں کے ذہنی تقاضوں کی تکمیل کرتا تھا۔ یہ ایسا رسالہ تھا جس کے بارے میں کہا جا سکتا تھا کہ بچوں کے لئے اس میں کمپلیٹ پیکج ہے۔ حکیم محمد سعید نے جس مقصد اور مشن کے تحت اس رسالہ کا اجراء کیا تھا اسے مسعود احمد برکاتی اور سعدیہ راشد نے پایۂ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کی۔ یہ بے نظیر مجلہ ہے جس کی تقلید کی جاتی تو شاید ہندوستان سے شائع ہونے والے بچوں کے رسالوں کو بھی اتنی ہی شہرت اور مقبولیت ملتی۔ مگر ہندوستان میں چند رسالوں کوچھوڑ کر بیشتر رسالے بچوں کا رابطہ رسائل سے جوڑنے میں ناکام رہے۔ اس لئے بچوں نے اسکرین سے اپنا رشتہ جوڑ لیا۔ جس کی وجہ سے اب بچوں کے تجسس اور تخیل کی قوت بھی ختم ہو جارہی ہے۔ اب یہ شکوہ عام ہے کہ اردو میں بچوں کے رسائل کم شائع ہوتے ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ بچوں کے کچھ رسائل بازار میں تو ضرور ہیں مگر ان کے خریدار نہیں ہیں اور یہ بھی المیہ ہے کہ یہ رسائل قاری تو پیدا کر رہے ہیں مگر قلم کار نہیں۔ جب کہ ماضی میں بچوں کے رسائل نے قاری کے ساتھ ساتھ قلم کار بھی پیدا کئے ہیں۔ اردو میں بچوں کے رسائل کے ساتھ بڑے مسائل ہیں۔ ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ بچوں کے معتبر اور مستند ادباء بچوں کے لئے لکھنا کسر شان یا کارزیاں سمجھتے ہیں اور بقول شعیب مرزا ’’بچوں کے لئے معیاری ادب تخلیق کرنے کے بجائے بڑوں کے لئے بچکانہ ادب لکھنے میں مصروف رہتے ہیں۔‘‘ اور یہ بھی ٹریجڈی ہے کہ جن کے پاس وسائل ہیں وژن نہیں ہے اور جن کے پاس وژن ہے وہ وسائل سے محروم ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ اپنے رسالوں کو خوب سے خوب تر بنانے کی کوشش نہیں کر پاتے۔ اور ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اردو کے زیادہ تر مدیران انگریزی یا دیگر ہم رشتہ زبانوں میں نکلنے والے بچوں کے رسائل پر نگاہ بھی نہیں رکھتے اس لئے عالمی منظرنامہ سے ان رسائل کی مطابقت نہیں ہوپاتی اور وہ اپنے رسائل میں وہ مواد فراہم نہیں کرپاتے جن کی ضرورت بچوں کو ہے۔ ان رسائل میں سائنسی اور تکنیکی ایجادات پر مضامین کم ہوتے ہیں اور ان رسائل کا دائرۂ موضوعات بھی بہت محدود ہوتا ہے۔ بچوں کی ذہنی عمر کا بھی خیال کم رکھا جاتا ہے۔ جب کہ انگریزی اور دیگر رسائل میں تعلیم اور نفسیات کے ماہرین کی ایک ٹیم بچوں کے لئے مواد کا انتخاب کرتی ہے اور ان کے ذوق و ذہن کے مطابق انہیں رسالے میں شائع کیا جاتا ہے۔ اور اس میں خاص طور پر ایسے موضوعات کو شامل کیا جاتا ہے جو بچوں کے شعور و ادراک اور ایموشنل انٹلی جینس کو ترقی دے سکے۔ ان کے بیشتر موضوعات بچوں کے ذہنی ارتقاء پر مرکوز ہوتے ہیں اور یہ بچے کی تخلیقی اور ادراکی صلاحیتوں کو نکھارنے میں معاون ہوتے ہیں۔ان لوگوں کی میگزین کا کینوس بھی وسیع ہوتا ہے اور وہ ایسے مواد بچوں کو فراہم کرتے ہیں جس سے بچے اپنی زبان، تاریخ، جغرافیہ، ریاضی اور دیگر معلومات عامہ سے واقف ہو سکیں۔ اس کے علاوہ بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو ابھارنے کے لئے بچوں کی نگارشات بھی شائع کرتے ہیں۔’بنک روم‘ ایسا ہی ایک رسالہ ہے جس میں آٹھ سے اٹھارہ سال کے بچوں کی تحریریں شائع ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ مشہور کارٹونسٹ کے شنکر پلائی کی میگزین ’’چلڈرینس ورلڈ‘‘ میں نہ صرف بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کی حوصلہ افزائی کے لئے ان کی تحریریں شامل کی جاتی ہیں بلکہ یوم اطفال کے موقع پر پورا شمارہ ہی بچوں کی نگارشات سے مزین ہوتا ہے۔ ان رسالوں میں بچوں کے بنیادی حقوق کے تعلق سے بھی گفتگو ہوتی ہے۔ جب کہ ہمارے یہاںاردو میں بچوں کے ایسے رسالوں کی کمی ہے جو بچوں کو ماحولیات، منشیات، ان کے حقوق ، ذمہ داریوں اور مسائل سے آگاہ کر سکیں۔ صرف پاکستان سے ایک رسالہ ’’ساحل ‘‘نکلتا ہے جو بچوں کے تحفظ اور شعور و آگہی کے لئے مختص ہے۔ منیزے بانو کی ادارت میں نکلنے والا اس رسالہ کا ایک وژن اور مشن ہے اور اس کا مقصد بچوں کے حقوق کا تحفظ، فلاح و بہبود اور بچوں پر ہونے والے تشدد، استحصال، غذائی قلت اور دیگر مسائل سے معاشرے اور بچوں کو آگاہ کرنا ہے۔ اردو میں بہت کم رسالے ایسے ہیں جن میں بچوں کی صحت اور حقوق کے حوالے سے مضامین ہوں یا ڈیجیٹل میڈیا کے خطرات سے آگاہ کرنے والی تحریریں ہوں۔جب کہ دوسری زبانوں میں بچوں کے لئے ایک مخصوص تھیم پر مبنی رسالے شائع ہوتے ہیں۔ لبنان کے آزاد اشاعتی ادارہ ’دارانیوز‘ نے بچوں کے لئے ایک رسالہ جاری کیا ہے جس کے ہر شمارے کا ایک تھیم ہوتا ہے۔ سائنس، کھیل، کامکس، آرکی ٹیکچر، آرکیا لوجی، کیلی گرافی، سنیماٹو گرافی، آرٹ، تاریخ، انفوگرافکس اس طرح یہ رسالہ بچوں کو ایک خاص موضوع سے آگاہ کرتا ہے۔ اس طرح کے رسالوں سے بچوں کا ذہنی افق بھی وسیع ہوتا ہے اور انہیں مسائل کی تفہیم میں بھی مدد ملتی ہے۔ عربی میں بچوں کے لئے بعض رسالے ایسے ہیں جو صحت پر مرکوز ہیں۔ مگر اردو میں اس طرح کے مجلات کی بڑی کمی ہے ،دلچسپ معلوماتی مواد نہ ہونے کی وجہ سے بچے اردو کے رسائل سے جڑ نہیں پاتے اور بالآخر یہ رسالے دم توڑ دیتے ہیں۔ شاید اسی وجہ سے گگن کے بالغ نظر مدیر شمس کنول نے بچوں کے ایک رسالے پرپر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ’’ یہ رسالہ بچوں کے لئے شائع ہوتا ہے مگر اس میں بچوں کے لئے کچھ نہیں ہوتا۔‘‘ اور اسی طرح کا شکوہ آموزگار کے مدیر پروفیسر اکبر رحمانی کو بھی ہے کہ: ’’اردو میں شائع ہونے والے بچوں کے رسائل کی اہمیت اور افادیت سے انکار نہیں لیکن یہ رسائل جدید تقاضوں، بچوں کی ضروریات اور دلچسپیوں کو پورا کرنے سے قاصر ہیں۔ رنگین تصویروں کی کمی، کارٹونوں، خاکوں اور موضوعات میں یک رنگی بار بار کھٹکتی ہے۔ ان رسائل کا کوئی علاحدہ اور بڑا ادارتی عملہ نہیں ہے۔ ان رسائل کے مدیران نے مختلف عمروں کے بچوں کی ضرورتوں دلچسپیوں اور رجحانات کو جاننے کے لئے مطالعاتی کیمپ یا سروے کیا ہو ایسا واقعہ اب تک میری نظروں سے نہیں گزرا ہے۔ ‘‘ یہ ایک تلخ حقیقت ہے جسے تسلیم کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ آج اردو میں بچوں کے رسائل میں بچوں کی کشش کا زیادہ سامان نہیں ہوتا اور یہ رسالے بچوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں ناکام ہیں۔ اسی لئے بہت سے بچے صرف اپنے نصاب سے میکانکی رشتہ قائم کرنے پر مجبور رہتے ہیںجس سے ان کے تجسس کی صلاحیت مر جاتی ہے۔ یا انٹرنیٹ کی دنیا میں کھو جاتے ہیں۔ انہیں انٹرنیٹ سے باہر نکال کر کتابوں سے رشتہ قائم کرنا آج کے وقت کی بڑی اہم ضرورت ہے اور اس کے لئے انہیں ان رسائل پر توجہ مرکوز کرنی ہوگی جو ہندوستان کی دوسری زبانو ںمیں نکلتے ہیں۔ خاص طور پر تیلگو، ملیالم میں جو بچوں کے رسالے شائع ہوتے ہیں وہ بچوں کے ذوق اور ذہن کی پوری تکمیل کرتے ہیں اور ان رسالوں کی تعداد اشاعت کی اچھی خاصی ہوتی ہے جب کہ وہاں رسائل بھی زیادہ ہیں۔ یہ رسائل بچوں کی ذہنی بالیدگی اور جذباتی آسودگی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ آخر کوئی تو وجہ ہوگی کہ تیلگو کا چندا ماما ہندی، مراٹھی،گجراتی، ملیالم، اڑیہ ، سندھی، بنگالی، پنجابی، آسامی، سنسکرت، سنہالی اور دیگر زبانوں میں شائع ہوتا ہے اور ان کے پڑھنے والوں کی تعداد اچھی خاصی ہے۔ اردو میں چمپک، ننھے سمراٹ، بال بھاسکر، نندن جیسے رسالے کتنے ہیں۔ دراصل اردو رسائل کے پاس نہ ماہرین کی ٹیم ہے اور نہ ہی مصور اور آرٹسٹ اور نہ ہی تولیکا جیسے اشاعتی ادارے ہیں جہاں بچوں کے تقریباً 150 مصنفین،125 السٹریٹر اور 100 کے قریب ترجمہ نگار ہیں۔ اسی وجہ سے اردو کے رسالے بچوں کے ذہنی تقاضے کی تکمیل نہیں کر پاتے۔ ہمیں اب یہ سوچنا ہوگا کہ ہمارا مقابلہ ’’ہیری پوٹر سیریز‘‘ سے ہے۔ جس نے ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ جے کے رولنگ (J.K Rowling)کی یہ کتاب 500 ملین سے زائد فروخت ہوچکی ہے اور تقریباً 80 زبانوں میں اس کا ترجمہ ہو چکا ہے اور یہ کردار ہمارے بچوں کے ذہن پر نقش ہو چکا ہے۔ اردو کے رسائل ایسا مضبوط کردار آج تک بچوں کو نہیں دے پائے ہیں اسی لئے اب ہمیں نئے تناظر میں سوچنا ہوگا اور ہمیں اپنے پڑھنے والوں کی تعداد بڑھانے کے لئے نئے تکنیکی ذرائع استعمال کرنے پڑیں گے ۔بچوں کی پسند اور ترجیحات کو بھی سامنے رکھنا ہوگا تبھی بچوں کے اچھے رسائل شائع ہو پائیں گے اور بچوں کا اچھا ادب تخلیق ہو پائے گا۔ ہمیں ان موضوعات اور مسائل کی تکرار سے بھی بچنا ہوگا جو ماہنامہ کھلونا، غنچہ، ٹافی اور پیام تعلیم جیسے پرانے رسالے پیش کر چکے ہیں۔ بچوں کی بدلتی ترجیحات کے تناظر میں ہمیں رسائل کو نئی شکل و صورت عطا کرنی پڑے گی اور رسائل کو نئے سرے سے ڈیزائن کرنا پڑے گا۔ غیر روایتی طرز کی تخلیقات کے علاوہ وہ مواد پیش کرنا ہوگا جس سے بچہ اپنے مستقبل کا ذہنی نقشہ ترتیب دے سکے۔ اس وقت بچوں کے ذہنی ارتقاء پر مرکوز رسائل کی ضرورت ہے کہ بچوں کے Optimal growth کے لئے رسائل لازمی ہیں۔ پھر بھی مادیت اور صارفیت کے اس عہد میں جب کتاب کلچر سے ہمارے معاشرے کا رشتہ ٹوٹ چکا ہے تو ایسے میں اگر بچوں کے کچھ رسائل نکل رہے ہیں تو ہمیں ان کی حوصلہ افزائی کے ساتھ مکمل مدد کرنی بھی چاہئے۔ یہ الگ بات ہے کہ ماضی میں بچوں کے صحافتی ادب کا منظر نامہ زیادہ تابناک رہا ہے اور اب یہ منظرنامہ دھندلا سا گیا ہے۔ پھر بھی جو رسائل نکل رہے ہیں انہیں مزید مستحکم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور ان رسالوں کو سرکاری اشتہارات بھی ملنے چاہئیں بلکہ اس وقت ضرورت ہے کہ ہندوستان کی تمام اردو اکیڈمیاں بچوں کے رسالوں کی اشاعت پر توجہ دیں کیوں کہ جب تک ہماری جڑ مضبوط نہیں ہوگی زبان ترقی نہیں کرے گی۔ ہماری زبان کا مستقبل انہی بچوں سے وابستہ ہے۔ یہی بچے مستقبل کے معمار ہیں اور ان بچوں کی کردار سازی ہمارے لئے بہت ضروری ہے۔ کہ بقول معروف شاعر قیس رام پوری: کریں نہ ٹھیک سے بچے کی ذہن سازی ہم تو بڑھ کر یہ کئی فتنے جگا بھی سکتا ہے یہی چراغ جسے خون دل پلائیں ہم نظر نہ رکھیں تو گھر کو جلا بھی سکتا ہے یہ خوش آئند بات ہے کہ ماضی میں بچوں کے اچھے رسائل شائع ہوتے رہے ہیں اور ان رسائل نے بچوں کی تربیت و تعلیم کے ساتھ زبان و ادب کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ریاستی اعتبار سے بچوں کے رسائل کی اشاعت کا جائزہ لیا جائے تو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ آج کے مقابلے میں پہلے بچوں کے زیادہ رسائل شائع ہوا کرتے تھے۔ 1 ہندوستان کے دارالحکومت دہلی میں بچوں کا ادب تخلیق کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد ہے۔لیلیٰ خواجہ بانو، اشرف صبوحی، صالحہ عابد حسین، غلام ربانی تاباں،مظفر حنفی، سراج انور، حسین حسان، قدسیہ زیدی، مسعودہ حیات ، اظہار اثر، شمیم حنفی، مظفر حنفی، پرکاش پنڈت، خوشحال زیدی، یوسف پاپا، انور کمال حسینی، خسرو متین، پریم پال اشک، عبدالغفار مدھولی، آصفہ مجیب ان کے علاوہ موجودہ دور میں غلام حیدر، محمد خلیل، ڈاکٹر اسلم پرویز، شمس الاسلام فاروقی، ابرار کرت پوری، اسد رضا، نصرت ظہیر، فیروز بخت احمد، ابوالفیض عزم سہریاوی، سراج عظیم، عادل اسیر، عادل حیات، کرن شبنم وغیرہ بچوں کا ادب تخلیق کر رہے ہیں اور اسی دہلی سے ’نونہال‘ ’کھلونا‘’پیام تعلیم‘ ’امنگ‘ ’بچوں کی دنیا‘ ’پھلواری‘، ’نرالی دنیا‘ ، ’سائنس کی دنیا‘ ، ماہنامہ ’پھول‘ جیسے رسائل بھی شائع ہوتے رہے ہیں۔ کھلونا، نئی دہلی پیارے بچوں کا پیارا ماہنامہ رہا ہے۔ اس کی اشاعت کا آغاز اپریل،1948ء میں ہوا۔ اس کو جو شہرت اور مقبولیت ملی وہ کسی اور رسالے کو نہیں نصیب ہوئی۔ اس کے بانی ادارہ شمع کے مالک یوسف دہلوی تھے۔ ان کے بعد یونس، ادریس اور الیاس دہلوی نے اس کی ادارت کی۔ اس رسالے کو جن مشاہیر قلم کاروں کا قلمی تعاون حاصل تھاان میں کرشن چندر، بلونت سنگھ، عادل رشید، سلام مچھلی شہری، مرزا ادیب ، عصمت چغتائی، رام لعل، خواجہ احمد عباس، واجدہ تبسم، اے آر خاتون، رضیہ سجاد ظہیر، جیلانی بانو، خدیجہ مستور اور شفیع الدین نیر جیسی شخصیات تھیں۔کھلونا آٹھ سے 80 سال کے بچوں کے لئے شائع ہوتا تھا۔اسی رسالہ میں سراج انور کا خوفناک جزیرہ ، کالی دنیا، نیلی دنیا، ظفر پیامی کا ستاروں کے قیدی اور کرشن چندر کی چڑیوں کی الف لیلیٰ جیسی شاہکار تخلیقات شائع ہوئیں۔ کھلونا کا سالنامہ بچوں میں بہت مقبول تھا۔ جو معتبر ادیبوں کی نگارشات پر مشتمل ہوتا تھا۔ یہ شاید واحد رسالہ تھا جس میں بچوں کی پسند اور ناپسند کے بارے میں پوچھا جاتاتھا۔ اپنے جاذب نظرگیٹ اپ، السٹریشن اور دیدہ زیب طباعت کی وجہ سے اس رسالے نے بہت جلد مقبولیت اور شہرت کی بلندیاں طے کر لیں۔ شمع گروپ کی سرپرستی کی وجہ سے یہ بچوں کا ہردلعزیز رسالہ بن گیا۔ بچوں کے رسائل کے ضمن میں یہ ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایک مثالی مجلہ جس کی کمی آج کے دور میں بھی محسوس کی جار ہی ہے۔ یہ رسالہ 1987ء میں بند ہوگیا۔ڈاکٹر محمد اسداللہ (ناگپور) نے ماہنامہ کھلونا ایک انتخاب کے عنوان سے کتاب شائع کی ہے جس میں ماہنامہ کھلونا کی کہانیاں، مضامین، ڈرامے اور نظمیں شامل ہیں۔ پیام تعلیم،نئی دہلی اس کاشمار بھی بچوں کے اہم رسائل میں ہوتا ہے۔ اس رسالے کے روح رواں ڈاکٹر ذاکر حسین تھے۔ ڈاکٹر عابد حسین پی ایچ ڈی برلن جیسے دانشور کی سرپرستی کی وجہ سے اس رسالہ کو بہت مقبولیت ملی۔ اپریل؍1926ء میں یہ پندرہ روزہ تعلیمی رسالہ کی شکل میںجاری ہوا، پھر ماہنامہ بن گیا۔ 1956ء میں اس کی اشاعت بند ہوگئی تھی پھر اس کی اشاعت ثانی جولائی 1964ء میں عمل میں آئی اور محمد حسین حسان ندوی جامعی اس کے مدیر بنائے گئے۔ جو خود بچوں کے معروف کہانی کار اور ادیب تھے۔ ’’دنیا کے بچے‘‘ ان کی مشہور کتاب ہے۔ وہ برسوں تک اس رسالے کی ادارت کرتے رہے اور نوک و پلک سنوارکر خوب سے خوب تر بناتے رہے۔ انہوں نے چھوٹاچمو، ننھا پپی کے علاوہ ’’پیام تعلیم کی کہانی‘‘ کے عنوان سے بھی ایک کہانی لکھی جس میں رسالہ پیام تعلیم کے آغاز و ارتقاء کی پوری داستان ہے۔ اس رسالہ کو بھی مشاہیر قلم کاروں کا تعاون حاصل تھا۔ اس کے سرورق پر ایک بہت ہی معنی خیز عبارت ہوا کرتی تھی کہ ’’جاگو اور جگاؤ‘‘ اور یہ شاید واحد رسالہ تھا جو یوپی ، سی پی، برار، میسور، حیدر آباد، کشمیر وغیرہ کے محکمۂ تعلیم کی طرف سے منظور شدہ تھا۔ اس رسالے نے بہت سے اہم تجربے کئے۔ اس کی فہرست سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس رسالہ نے ہر عمر کے بچوں کے ذوق اور ذہن کا خیال رکھا تھا۔ اس کے ایک گوشے میں بچوں کے لئے مضامین ہوتے تھے اور دوسرے گوشے میں بڑے لڑکوں کے لئے اور تیسرے گوشے میں لڑکیوں کے لئے۔ پیام تعلیم میں موضوعات کی سطح پر بھی تنوع کا خیال رکھا جاتاتھا۔ معلوماتی اور مفید فیچرس کی وجہ سے اس کی بہت زیادہ مقبولیت تھی۔ کشیدہ کاری، باغبانی، فوٹو گرافی اور دیگر دلچسپ موضوعات پر مضامین کی اشاعت ہوتی تھی اور اداریے میں بطور خاص بچوں سے تخاطب ہوتا تھا۔ ان کے مسائل اور مشکلات پر گفتگو ہوتی تھی۔ اس لئے اس رسالے میں بچوں کی بہت دلچسپی تھی۔ پیام تعلیم کا سب سے پہلا شمارہ اپریل 1926ء میں نکلا تھا جو پندرہ روزہ کی شکل میں تھا۔ تو اس وقت امیر جامعہ حکیم اجمل خان تھے۔ انہوں نے بچوں کے نام ایک اہم پیغام بھیجا تھا جس کی اہمیت آج بھی مسلم ہے۔ انہوں نے بچوں کو نصیحت کی تھی: ’’تم اکیلے ہو ‘‘یا اوروں کے ساتھ اپنے کمرے میں ہو یا مدرسے میں یا کھیل کے میدان میں ہر جگہ اور ہمیشہ وہ کرو جو سچ مچ تمہارا من چاہتا ہے۔ اپنی اصلی دلی خواہشوں کو دباؤ مت دوسروں سے ڈر کر یا دوسروں کو خوش کرنے کی خاطر، دوسروں کی خواہ مخواہ نقالی نہ کرو خود اپنی اپج سے کام کرو۔ ایسا کروگے تو تمہارا ذہن، تمہاری سیرت، تمہارا جسم سب کے سب اچھی سے اچھی شکل اختیار کریں گے جن کے حاصل کرنے کی صلاحیت و قدرت ان میں رکھی ہے۔ ‘‘ محمد حسین حسان کے دور ادارت میں پیام تعلیم کے کئی خصوصی شمارے شائع ہوئے جن میں 1938ء کا سالگرہ نمبر اور نومبر دسمبر 1946ء کا جوبلی نمبر قابل ذکر ہیں۔’’پیام تعلیم‘‘ نے ادب اطفال میں ان کی ادارتی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے نومبر 1974ء کا شمارہ حسین حسان نمبر کی صورت میں شائع کیا۔1974میں حسین حسان کے انتقال کے بعد ولی شاہجہاں پوری نے پیام تعلیم کی ادارت سنبھالی۔ ان کے بعد مکتبہ جامعہ کے منیجر شاہد علی خان اس کے مدیر مقرر ہوئے۔ شاہد علی خان کے ریٹائر منٹ کے بعد مکتبہ جامعہ کے ڈائرکٹر اس کے ایڈیٹر بنائے جاتے رہے جس میں نائب مدیر کی حیثیت سے محفوظ عالم اپنی خدمات مستقل طور پر انجام دے رہے ہیں۔ ’’پیام تعلیم‘‘ ہی وہ رسالہ ہے جس میں ڈاکٹر ذاکر حسین سابق صدر جمہوریہ ہند کی کہانی ’’ابو کی بکری‘‘ سب سے پہلے شائع ہوئی۔ اسی رسالے میں رقیہ ریحانہ کے نام سے ان کی بہت سی کہانیاں اشاعت پذیر ہوئیں۔ ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کے مضامین شائع کرنے کا شرف بھی پیام تعلیم کو حاصل ہے۔ محترمہ صالحہ عابد حسین (مصداق فاطمہ) کی بیشتر تخلیقات اسی رسالہ میں شائع ہوتی رہیں۔ ان کے علاوہ پیام تعلیم میں جوش ملیح آبادی، جگر مرآبادی، شفیع الدین نیر، (جن پر پیام تعلیم کا خاص نمبر بھی شائع ہوا) یوسف ناظم، علقمہ شبلی، سلمیٰ جاوید، مسعودہ حیات، افسر میرٹھی، پروفیسر محمد مجیب، پروفیسر رشید احمد صدیقی، قدسیہ زیدی ،محمد یوسف پاپا وغیرہ کی نگارشات بھی شائع ہوتی رہی ہیں۔ اس کا ایک مقبول سلسلہ سفرنامۂ ابن بطوطہ بھی تھا جس کے مصنف مولانا مقبول احمد سیوہاروی تھے۔ پیام تعلیم میں زیادہ تر گاندھیائی افکار و نظریات کی تبلیغ ہوتی تھی اس لئے بعض قارئین کو یہ رسالہ کمیونسٹ خیال کا لگتا تھا۔ ’’پیام تعلیم‘‘ کے ایک قاری نے لکھا کہ یہ پرچہ کمیونسٹ خیال کا ہے۔ اس میں گاندھی اور لینن کی باتیں ہمیشہ رہا کرتی ہیں۔ یہ پرچہ مسلمانوں کا دماغ بدل کر رکھ دے گا۔ جواب میں مدیر نے لکھا کہ یہ بچوں کا تعلیمی پرچہ ہے اس میں ہر طرح کی معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔ یہ رسالہ اب بھی جاری ہے اور بچوں میں بہت مقبول ہے۔ نونہال، نئی دہلی حکومت ہند کے پبلی کیشن ڈویژن کا رسالہ تھا جس کی اشاعت کا آغاز 15؍اگست 1948 سے ہوا۔ 1949ء میں یہ رسالہ بند کر دیا گیا اور اسے بچوں کا آج کل کے نام سے ماہنامہ آج کل میں ضم کر دیا گیا۔ 1965ء تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ اس رسالہ کی ادارت سے جوش ملیح آبادی جیسی شخصیت وابستہ تھی۔ اُمنگ،نئی دہلی اس کاشمار بھی بچوں کے عمدہ رسائل میں ہوتا ہے اس کا اجراء دسمبر؍1987ء میں ہوا۔ دہلی اردو اکیڈمی سے شائع ہونے والے اس رسالہ سے سید شریف الحسن نقوی، اشتیاق عابدی، مخمور سعیدی، زبیر رضوی، سید صادق علی، منصور عثمانی، منور امروہوی، مرغوب حیدر عابدی، انیس اعظمی اور دیگر معتبر شخصیات کی وابستگی رہی ہے اور اس رسالہ کو رشید حسن خان، مظفر حنفی، سلام بن رزاق، اظہار اثر، راج نرائن راز، مظہر امام، سراج انور، رفعت سروش، مسعودہ حیات کا قلمی تعاون حاصل رہا ہے۔ اس میں معلوماتی مضامین کے علاوہ پہیلیاں، قلمی دوستی، کومکس، انعامی کوپن جیسے فیچرس تھے جس کی وجہ سے یہ رسالہ بچوں میں بہت مقبول ہوا۔ بچوں کی رنگین تصویریں بھی اس میں شائع ہوتی رہیں۔ بعد کے شماروں میں معلومات کی کسوٹی کے عنوان سے معلومات عامہ کا ایک کالم شروع کیا گیا اور امنگی بچوں کے پسندیدہ اشعار بھی اس میں شامل کئے گئے۔ اس کا کامکس کا کالم بہت مقبول تھا۔ اس کے علاوہ کوئز کے عنوان سے ڈاکٹر شمیم احمد صدیقی کا سلسلہ وار ادبی دماغی ورزش بھی بہت اہم ہے۔ اہم شخصیات پر اس میں مضامین بھی شائع ہوتے رہے ہیں۔ ’’امنگ‘‘ کے کئی خصوصی شمارے بہت مقبول ہوئے جن میں چاچا نہرو نمبر(نومبر؍1989) مستقبل کے قلم کارنمبر(فروری؍1989) قابل ذکر ہیں۔ ’’امنگ‘‘ میں بہت عمدہ کہانیاں شائع ہوتی تھیں۔ چھ جلدوں میں امنگ کی منتخب کہانیاں شائع ہو چکی ہے جس کے مرتبین ثنا فرقان ثنا خانم اور زین الدین ہیں۔ بچوں کی دنیا، نئی دہلی قومی اردو کونسل، نئی دہلی سے شائع ہونے والا یہ بچوں کا مقبول ترین رسالہ ہے۔ اس کی اشاعت کا آغاز جون 2013 سے ہوا۔ پہلے شمارے پر مدیر اعلیٰ کی حیثیت سے ڈاکٹر خواجہ محمد اکرام الدین، نائب مدیر اور اعزازی مدیر کے طور پر باالترتیب ڈاکٹر عبدالحی اور نصرت ظہیر کے نام درج تھے۔ڈائرکٹر شپ کی تبدیلی کے ساتھ ہی مدیر اعلیٰ کا نام بدل جاتا ہے اسی لئے رسالے کے تمام مشمولات کے انتخاب اور ترتیب کی ذمہ داری نائب مدیر کے ذمہ ہوتی ہے اور رسالہ کا معیار اسی کے حسن ذوق کا غماز ہوتا ہے۔ اِن دنوں اجمل سعید اس کے مدیر منتظم ہیں۔ اس رسالہ کے پہلے اداریہ میں لکھا گیا تھا کہ: ’’ماہنامہ بچوں کی دنیا آپ کے بچپن کی دنیا کو اور بھی حسین بنانے کی ایک چھوٹی سی کوشش ہے۔ جو امید ہے آپ کو ضرور پسند آئے گی۔ ہم آپ کو آپ ہی کا بچپن پیش کر رہے ہیں۔ اس میں مزے دار قصے کہانیاں ہیں، کارٹون ہیں، کامکس ہیں، دلچسپ معلوماتی مضامین ہیں، حیرت انگیز چیزوں کا بیان ہے، دنیا بھر میں بے حد شوق سے پڑھے گئے ایک ناول کی قسط وار شروعات ہے، پیاری پیاری نظمیں ہیںاردو فیس بک کے عنوان سے آپ کا اپنا کالم ہے۔ نانی کے صندوق سے نکالی گئی وہ پرانی نظمیں، کہانیاں اور چٹکلے ہیں جنہیں ہر دور کے بچوں نے بہت پسند کیا ہے۔‘‘ اس رسالہ کے مستقل سلسلوں میں اردو ایس ایم ایس، دماغی ورزش، مہینے کی باتیں، آپ کے سوال اہم تھے۔ کارنامے کے تحت بچے اور بچیوں کے غیر معمولی کارناموں سے روشناس کرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حالیہ دنوں میں اس میں کچھ تبدیلیاں بھی آئی ہیں۔ جن میں کئی نئے سلسلے شروع کئے گئے ہیں۔ اس کے پہلے شمارے پر پہلا شمارہ پہلا قدم کی عبارت درج تھی ۔خوبصورت اور دل چسپ معلوماتی مواد دیدہ زیب سرورق کی وجہ سے یہ رسالہ بہت جلد مقبولیت حاصل کرتا گیا۔ اس کی تعداد اشاعت بھی دوسرے رسالوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ایک زمانہ میں اس کی اشاعت ایک لاکھ سے بھی تجاوز کر گئی تھی۔ بچوں کی نرالی دنیا، نئی دہلی تنویر احمد کی ادارت میں شائع ہوتا تھا۔ اس رسالہ کو بھی شکیل الرحمن، مظفر حنفی، احمد وصی، عبدالرحیم نشتر، خوشحال زیدی، اطہر مسعود خان، قمر سنبھلی، مہدی پرتاپ گڑھی جیسی شخصیات کا قلمی تعاون حاصل تھا۔ بچوں کی نرالی دنیا میں کچھ خاص فیچر تھے جو بچوں میں بہت مقبول تھے۔ جیسے انوکھی خبریں، اسپورٹس نیوز، دینی مقابلہ، پہیلی مقابلہ، ذہنی ورزش، آئیے ڈکشنری دیکھیں، بچوں کے مشہور ادیب وکیل نجیب کے مشہور ناول کمپوٹان کی قسطیں بھی اسی میں شائع ہوئی تھیں۔ پھلواری ، نئی دہلی بچوں کا ایک اہم رسالہ تھا ۔کامل اختر اور سعید اختر کی ادارت میں 1945ء سے اس کی اشاعت کا آغاز ہوا۔ یکتا امروہوی، عشرت صدیقی، سلام مچھلی شہری، مظفر حنفی وغیرہ اس کے قلم کاروں میں تھے۔ اس رسالے کا ایک سالنامہ شائع ہوتا تھا جو بہت مقبول تھا۔ اے آر سید اور تابش شکیل نے بعد میں اس کی ادارت کی ذمہ داری سنبھالی۔ بعد میں فریدہ ناز اس کی مدیرہ مقرر ہوئیں۔ ان کی ادارت میں 1957ء کا سالنامہ بہت مقبول ہوا۔ 1979ء میں بین الاقوامی سال اطفال کے موقع پر ایک یادگار نمبر بھی شائع ہوا۔ اس وقت پھلواری کے مدیر سید اقبال قادری اور معاون اقبال فرید تھے۔ بعد میں یہ رسالہ ماہنامہ بیسویں صدی میں ’’تیر و نشتر‘‘ لکھنے والے ناز انصاری کی ملکیت میں آگیا۔ اس تعلق سے مشہور صحافی مودود علی صدیقی لکھتے ہیں: ’’جب 1956 میں انہو ںنے سعید اختر اور کامل اختر سے بچوں کا رسالہ ’’پھلواری‘‘ کی ملکیت خریدی تو ایک دن انہوں نے یہ خواہش ظاہر کی کہ میں رات کو کچھ وقت ان کی ’’پھلواری‘‘ کے لئے دے دیا کروں۔‘‘ (بحوالہ صریر گم گشتہ، ناز انصاری، مرتب ظفر انور) سائنس کی دنیا،نئی دہلی بچوں میں سائنسی ذوق پیدا کرنے کے لئے 1945ء میں اس رسالہ کی اشاعت کا آغاز ہوا۔ پروفیسر اے رحمن اس کے بانی مدیر تھے۔ اس میں زیادہ تر سائنسی مضامین، سوالات و جوابات ہوتے ہیں۔ مشہور سائنٹسٹ محمد خلیل برسوں تک اس کی ادارت سے وابستہ رہے ہیں۔ ماہنامہ پھول، نئی دہلی بچوں اور بچیوں کا یہ دل پسند ماہنامہ حضرت مولانا مفتی محمد ضیاء الحق دہلوی کی سرپرستی میں شائع ہوتا تھا۔ یہ رسالہ بر صغیر کے علاوہ افریقہ اور عرب میں بھی مقبول تھا۔ مٹیا محل، دہلی۔6 سے نکلنے والا یہ رسالہ 60 صفحات پر مشتمل تھا اور قیمت فی پرچہ 5آنے تھی۔ زر سالانہ تین روپے آٹھ آنے تھا۔ اس کے علاوہ خاص نمبر اور سال نامہ مفت دیئے جاتے تھے۔ ہر مہینہ پابندی سے شائع ہوتا تھا۔ اب یہ رسالہ بند ہو چکا ہے۔ 1 ا ترپردیش ریاست کا بچوں کے ادب کے فروغ میں نمایاں حصہ رہا ہے۔ مولوی اسماعیل میرٹھی، حامد اللہ افسر میرٹھی، شفیع الدین نیر جیسے ادب اطفال کے معمار کا تعلق اسی سرزمین سے رہا ہے۔ رام لعل، متین طارق باغپتی، شوکت پردیسی، نورالحسن ہاشمی، مسعود حسین خاں، ضمیر درویش، محمد قاسم صدیقی، مسرور جہاں، قمر قدیر ارم، قدیر جاوید پریمی، بدیع الزماں اعظمی، وامق جون پوری، سلام مچھلی شہری، شمیم انہونوی، عزیز مرادآبادی،الیاس سیتا پوری، تسکین زیدی، شکیل انوار صمدانی، شکیل جاوید، مرتضیٰ ساحل تسلیمی،محسن خان، اطہر پرویز، سعید اختر اعظمی، شفیق اعظمی، انصار احمد معروفی، مہدی پرتاپ گڑھی،انیس الحسن صدیقی، انجمن آرا انجم،زینب نقوی، ارشد اقبال، عطیہ پروین، عطیہ بی، رضاء الرحمن عاکف وغیرہ بچوں کا ادب تخلیق کرنے والوں میں اہم ہیں۔ یہاں سے جو رسائل شائع ہوئے ان میں ’غنچہ ‘ (بجنور) ’ٹافی‘(لکھنؤ) ’کلیاں‘ (لکھنؤ) ’نور‘ (رامپور) ’اچھا ساتھی‘ (بجنور) ’چندا نگری‘ (مراد آباد) ’ہم پنچھی ایک ڈال کے‘ (مراد آباد)’چمن ‘ (مراد آباد) ’ہم جولی‘ (امروہہ) ’بچوں کا تحفہ( اعظم گڑھ) ’چمن‘ (کانپور) ’سعید‘ (کانپور) ’جنت کا پھول‘ (کانپور) بچپن (بریلی) ، انور (میرٹھ) ، درخشاں (مرادآباد)، راہی (علی گڑھ) عزیز (گورکھپور)، ماہنامہ چاند (سہارنپور) باغیچہ (لکھنؤ) کے نام اہم ہیں۔ غنچہ ،بجنور یہ ہفت وار رسالہ تھا جو مدینہ منزل محلہ مردھیگاں،بجنورسے شائع ہوتا تھا۔ اس کے بانی مدیر مدینہ اخبار کے مالک و ناشر مولوی محمد مجید حسن تھے۔ 1922ء میں اس کا اجراء ہوا۔ اس رسالہ کا ایک خاص مقصد اور مشن تھا۔ اس کے سرنامہ پر ایک معنیٰ خیز عبارت درج تھی کہ بچوں کی تعلیم قومیت کی تعمیر ہے اور قومیت کی تعمیر کے جذبہ سے ہی غنچہ کی اشاعت عمل میں آئی تھی۔ اس میں مقتدر ادیبوں کے علاوہ اسکولی طلباء کی تحریریں بھی بطور خاص شامل کی جاتی تھیں۔ غنچہ کے پہلے مدیر محمد وارث کامل بی اے تھے۔ اس کے بعد مدینہ اخبار کے مالک و مدیر مولوی مجید حسن کے داماد اور خوش فکر شاعر حمید حسن فکر بجنوری اس کے سب ایڈیٹر بنائے گئے اورنصراللہ خاں عزیز بی۔اے اس کے مدیر مقرر ہوئے۔ شبیر بیگ بریلوی، ماہر القادری بھی اس کی ادارت سے وابستہ رہے۔ 16 صفحات پر محیط قوم اور ملک کے بچوں اور بچیوں کے لئے تعلیمی، تاریخی،اخلاقی،حرفتی ہفتہ وار رسالہ غنچہ کا سر ورق تین رنگوں میں شائع ہوتا تھا اور اس کی تعداد اشاعت اس وقت تقریباً ایک ہزار تھی۔ اس رسالہ کی فہرست کے صفحہ پر ایک شعر درج ہوتا تھا۔ تفریح کا ساماں ہے تعلیم کا ساماں ہے بچوںکے لئے غنچہ ایک علمی گلستاں ہے اس کے مخصوص کالم میں معلوماتی مضامین کے علاوہ کشیدہ کاری، بوجھو تو جانیں، مسکراہٹ، دنیا میں کیا ہو رہا ہے شامل ہیں۔ غنچہ کے کئی سالنامے بھی شائع ہوئے جس میں بچوں کی طبع زاد تخلیقات پر پانچ روپے کے انعامات کا اعلان بھی کیا گیا۔ اس رسالہ کے اہم قلم کاروں میں سری رام سیٹھی، امجدحیدرآبادی، ابوعبیدہ لکھ مینوی، نزاکت جہاں فاروقی، شفیع الدین نیر، محمد ارمغان ساحل سہسرامی، غلام قادر، (پشاور) شامل تھے۔ اسی رسالے میں بدروفا شیدائی اور جلیس سہسوانی کے قسط وار ناول شائع ہوئے۔ غنچہ کی فائلوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کا دائرہ اثراس وقت پشاور اور ملتان تک تھا اور ہندوستان کے بیشتر علاقوں تک اس غنچہ کی رسائی تھی۔ پٹنہ، مظفر پور اور بھاگل پور کے قلم کاروں کی بھی تحریریں اس میں شائع ہوتی تھیں۔آج کے معروف ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ یافتہ فکشن نگار ڈاکٹر عبدالصمد کی پہلی کہانی ’’جھوٹ کی سزا‘ ‘ اسی غنچہ بجنور کے اپریل1961ء میں شائع ہوئی تھی۔ ان کی ادبی تخلیقی زندگی کا آغاز بچوں کے اسی رسالہ سے ہوا۔ شاہد جمیل کا جاسوسی ناول ’آدم خور انسان‘ بھی غنچہ ہی میں قسط وار شائع ہوا تھا۔ غنچہ کا سالنامہ بڑا مفید اور معنی خیز ہوتا تھا۔ 8؍ جنوری 1951ء کے سالنامہ پر حامد حسن قادری نے بڑا خوبصورت قطعہ لکھا تھا۔ اس غنچہ کی دھوم ملک میں ہر سو ہو اس گل کا نیا رنگ نرالی بو ہو اس غنچہ کا ہر ورق سخن سنجوں کو آئینۂ حسن اور شاہد اردو ہو اس رسالہ کا مقصد جہالت کا خاتمہ اور علم کی ترقی تھا اور اس مقصد میں یہ رسالہ کامیاب رہا۔یہ رسالہ 1978ء میں بند ہوگیا مگر آج بھی غنچہ کو بچوں کے رسائل میں ایک مثال اور نظیر کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ ٹافی، لکھنؤ یہ بھی اپنے عہد میں بچوں کا مقبول ترین رسالہ تھا۔ اس کی اشاعت کا آغاز 1960ء سے ہوا۔ یہ رسالہ 10۔ہاتھی خانہ لکھنؤ سے نکلتا تھا۔ فیض علی فیض اور فیض علی نوشہ اس کی ادارت سے وابستہ تھے۔سعادت علی صدیقی سندیلوی، حامد اللہ افسر، احمد جمال پاشا، عادل رشید، شمیم انہونوی، شجاعت حسین سندیلوی جیسی اہم شخصیات کا تعاون اس رسالہ کو حاصل تھا۔ یہ رسالہ تقریباً دس برس تک جاری رہا اور پھر مالی مشکلات کی وجہ سے بند ہو گیا۔ اس کی مجلس ادارت میں اوصاف احمد اور معظم جعفری تھے۔ محمد مسلم شمیم اور جاوید حسن بھی اس رسالہ سے وابستہ رہے ہیں۔ احمد مشکور سیوانی کی بھی بحیثیت مدیر اس رسالہ سے وابستگی رہی ہے جو گورکھپور میں ریلوے کی ملازمت سے وابستہ تھے اور کئی اہم کتابوں کے مصنف بھی۔ ’نئی شمع اور نئے پروانے‘، ’سونے کی لاش‘، ’ سوئے حرم‘، ’امریکن مسلم‘، ان کی اہم کتابیں ہیں۔ انہوں نے افسانے بھی تحریر کئے ہیں۔’آئینۂ حیات‘ ان کی ایک اہم تصنیف ہے جس میں مختلف شخصیات کے حوالے سے بھی اہم مضامین ہیں۔ ڈاکٹر ارشاد احمد نے اپنی کتاب ’نگاہ نقد‘ (2019ئ) میں ان کے حوالے سے لکھا ہے کہ ان کے والد بزرگوار مولوی محمد ذکی صدیقی عربی، فارسی، اردو کے عالم اور ’تاریخ الہری ہانس ‘کے مصنف تھے۔ انہوں نے یہ لکھا ہے کہ لکھنؤ سے شائع ہونے والا بچوں کا مقبول رسالہ ٹافی کی ادارت تقریباً 6برسوں تک کی۔ آپ کی ادارت میں ٹافی نے غیر معمولی مقبولیت حاصل کی۔ اس کے اداریے کا عنوان ’آپس کی باتیں‘ تھا۔ کلیاں،لکھنؤ شمیم انہونوی کی ادارت میں شائع ہوتا تھا جو خود بھی بچوں کے اچھے ادیب تھے۔ انوکھا پل، جادو کا ہنس، پریوں کی کرامت، شہزادی زر نگار وغیرہ ان کی مشہور کہانیاں ہیں۔ اس کے اہم لکھنے والو ںمیں شاد عارفی، سطوت رسول، محشر بدایونی، شفیع احمد تاج ،عطیہ پروین، عفت موہانی، اے آر خاتون قابل ذکر ہیں۔ سیدہ اعجاز کا ناول ’مونگے کے جزیرے‘کلیاں میں ہی شائع ہوا تھا۔ نور، رامپور اس کا شمار بھی بچوں کے اہم اور مقبول رسالوں میں ہوتا ہے۔ مولانا ابو سلیم محمد عبدالحئی (1910-1987)اس کے بانی مدیر تھے جو صاحب تصانیف کثیرہ تھے۔ سعدیہ سلیم شمسی نے اپنی کتاب ’’رامپور منظرنامۂ تاریخ و تہذیب و ادب ‘‘ میں مولانااردو کی29 اردو تصانیف کے علاوہ انگریزی کی بارہ اور ہندی کی انیس کتابوں کا ذکر کیا ہے۔ ستمبر 1953ء میں پندرہ روزہ کی شکل میں نور کی اشاعت کا آغاز ہوا۔ دسمبر 1968ء میں یہ ماہنامہ میں تبدیل ہوگیا۔ اس رسالہ کو اہم ادیبوں کا تعاون حاصل تھا۔ جن میں شکیل انور صدیقی، سلامت علی مہدی، اور مہر النساء کے نام بھی ہیں۔ اس رسالہ کا ایک خاص فیچر ریڈیو نورستان تھا۔ اس کے علاوہ بچوں کی آپ بیتی، تلاش کیجئے انعام لیجئے معلوماتی مشغلہ بھی اس کے اہم کالم تھے۔ یہ مکتبہ الحسنات کا رسالہ تھا جہاں سے بچوں کے لئے ہلال بھی جاری ہوا۔ جس میں بچوں کی لغت جیسا مفید کالم بھی ہے۔ ماہنامہ ’نور‘ سے مائل خیرآبادی اور مرتضیٰ ساحل تسلیمی جیسی اردو کی معتبرشخصیات کی وابستگی رہی ۔نور کے کئی خصوصی شمارے بہت مقبول ہوئے ہیں جن میں شکاریات نمبر قابل ذکر ہے۔ چندا نگری مرادآباد سے شکیل انوار کی ادارت میں شائع ہوتا تھا۔ جون 1970ء سے اس کا آغاز ہوا۔ 34 صفحات پر مشتمل اس رسالہ کی قیمت فی پرچہ 40 پیسے تھی۔ اس میں نثری اور شعری تخلیقات شائع ہوتی تھیں۔ اس رسالہ کی عمر بھی بہت مختصر رہی۔ یہ بچوں میں زیادہ مقبول نہیں ہو پایا۔ ہم جولی سید مجاہد حسین کی ادارت میں اگست 1919 سے شائع ہونا شروع ہوا۔ امروہہ سے شائع ہونے والے بچوں کے اس رسالہ کے سرورق پر ماہرین فن تعلیم کے تجربات کا ذخیرہ لکھا ہوتا تھا۔ بقول انور حسن اسرائیلی : ’’بچوں کی فطری تعلیم میں مدد دینے والا اور دور جدید کے موافق تربیت طبعی بہم پہنچانے والا ماہوار رسالہ تھا۔ بچوں کی صحافت کے ضمن میں ایک اہم رسالہ ہے۔‘‘ اس کے اہم لکھنے والوں میں پروفیسر عاصی اور ایڈیٹر ذوالقرنین تھے۔ سعید ،کانپور یہ بھی بچوں کا ایک اہم رسالہ ہے جو اردو کے معتبر ناقد و محقق اور داستان تاریخ اردو کے مصنف مولانا حامد حسن قادری بچھرایونی کی ادارت میں شائع ہوتا تھا۔ یہ رسالہ 1918ء سے 1922 تک شائع ہوتا رہا۔ اس میں بچوں کے لئے بہت ہی عمدہ مواد ہوتا تھا۔ خواجہ احمد فاروقی جیسی شخصیت نے لکھا ہے کہ’’ اس میں ادب اطفال سے متعلق بہترین مواد شائع ہوتا تھا جو کسی بھی طرح غنچہ کے معیار سے کم نہ تھا۔ ‘‘ عزیز 1930ء سے نکلنا شروع ہوا۔ اس کے مدیر بدیع الزماں تھے۔ 64 صفحات پر محیط اس رسالہ کا سالانہ چندہ ایک روپیہ آٹھ آنا تھا۔ چاند ،سہارنپور یہ رسالہ اغفار احمد ناز انصاری کی ادارت میں شائع ہوتا تھا۔ جو اردو کے ممتاز صحافی تھے۔ انصاری، الجمعیۃ ، ہفت وار پیام مشرق، روز نامہ مشرقی آواز اور انتباہ جدید کی ادارت سے وابستہ رہے ہیں۔ وہ بچوں کے ادیب بھی تھے۔ انہوں نے بچوں کے لئے جو کتابیں لکھی ہیں۔ ان میں پری زاد پرندہ،جادو کی بندوق، میاں جی بکری، چٹانوں کی چیخ بہت مقبول ہے۔ ماہنامہ چاند کے حوالے سے عبدالقادر بندھولوی نے لکھا ہے کہ 1935ء سے 1940ء کے درمیان وہ باضابطہ بچوں کا ماہنامہ چاند سہارنپور سے نکالتے تھے۔ جس میں ہندوستان کے نامور ادیبوں کی تخلیقات شائع ہوتی تھیں۔ (بحوالہ صریر گم گشتہ ناز انصاری، مرتبہ ظفر انور) بچپن،بریلی یہ رسالہ 193؍گلی نواباںبریلی سے شائع ہوتا تھا۔ اس کے مدیر قدیر جاوید پریمی بچوں کے معروف ادیب تھے جن کی بہت سی کہانیاں ماہنامہ کھلونا میں شائع ہوتی تھیں۔ ان میں اپنا خون، خوشی دینے والے، ہمارے بھی ہیں مہربان کیسے کیسے، سوچو تو ذرا قابل ذکر ہیں۔ اچھا ساتھی،بجنور سراج الدین ندوی کی ادارت میں سرکرہ ضلع بجنور سے شائع ہوتا ہے۔ اس کی اشاعت کا آغاز نومبر 1993ء سے ہوا۔ اس کے معاون مدیروں میں فخرالدین فخر، محمد یٰسین ذکی ہیں۔ یہ بھی بچوں کا ایک اہم رسالہ ہے جو تقریباً بیس بائیس برسوں سے جاری ہے۔ اس میں دینیات اور اخلاقیات پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے اور بچوں کی دلچسپیوں کا بھی پورا خیال رکھا جاتا ہے۔ ماہنامہ مقابلہ، مشغلہ، دلچسپ خبریں ،بچوں کی تحریریں، کارٹون، انعامی کوپن اس کے خصوصی فیچر ہیں۔ اس کا ایک خصوصی شمارہ قرآنی اسباق نمبر بے حد مقبول ہوا تھا۔ بچوں کا تحفہ، اعظم گڑھ شاد اعظمی ندوی کی ادارت میں شائع ہوتا ہے۔ اس میں مضامین کے علاوہ معلومات کی جانچ، بیت بازی، لطیفے وغیرہ شائع کئے جاتے ہیں جو بچوں میں بے حد مقبول ہے۔ یہ رسالہ 36 صفحات پر مشتمل ہے۔ باغیچہ ،لکھنؤ اترپردیش اردو اکیڈمی لکھنؤ سے شائع ہونے والا بچوں کا ماہنامہ ہے جس کی سرپرست پروفیسر آصفہ زمانی اور ایڈیٹر ایس رضوان ہیں۔ اعزازی مدیر کی حیثیت سے ڈاکٹر شمیم احمد صدیقی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اس کے مشمولات باغیچہ کی کیاریاں اور پھلواریاں کے نام سے پیش کئے جاتے ہیں۔ اس میں کہانیاں، سائنس، طب، ماحولیات، منظومات، لذیذ پکوان، رنگ برنگ، بعض الفاظ کے معنی، دماغی ورزش اور معلومات عامہ، انعامی شعری پہیلیاں، پھلجھڑیاں جیسے عنوانات ہیں۔ آندھرا پردیش کی ریاست بچوں کی صحافت کے ضمن میں بہت زرخیز رہی ہے۔ بچوں کے لئے یہاں لکھنے والوں میں صغریٰ ہمایوں مرزا، واجدہ تبسم، عفت موہانی، جیلانی بانو،طیبہ بیگم، رفیعہ منظورالامین، اظہر افسر ، اخترسلطانہ، اشرف رفیع، بانو طاہرہ سعید، برکت رائے، ثریا جبین، خدیجہ بیگم، رفیعہ سلطانہ، زبیدہ رعنا، زینت ساجدہ، شبینہ فرشوری، صالحہ الطاف، عابدہ محبوب، عالیہ خان، فاطمہ پروین وغیرہ بہت اہم ہیں۔یہاں سے جو رسائل شائع ہوئے ان میں ادیب الاطفال، اتالیق، نونہال، سب رس، بزم ادب، رسالہ مسلم، تارے، نوخیز، انعام، ننھا، پرواز، میرا رسالہ، روش، ہمارے نونہال، روشن ستارے وغیرہ کے نام ملتے ہیں۔ ادیب الاطفال ،حیدرآباد ادیب الاطفال حیدر آباد میں بچوں کا پہلا رسالہ ہے جس کا پہلا شمارہ ماہ اگست 1911ء میں شائع ہوا۔ مرزا احمد اللہ بیگ آغائی ابوالعلائی نے اس رسالہ کو جاری کیا تھا۔ بیس صفحات پر مشتمل اس رسالہ کے مقاصد میں بچوں کے اخلاق میں سدھار ،ایثار و استقلال کی تعلیم، صنعت و حرفت کے فوائد بتانا اور مضمون نگاری کا ذوق پیدا کرنا تھا۔ اس رسالہ کی حیثیت تربیت اطفال میں والدین کے معین و مشیر کی تھی۔ اس میں بہت اہم مضامین شائع ہوتے تھے۔ اس کی خاص بات یہ تھی کہ مضمون نگار طلبا کو بطور انعام چاندی کی جیب گھڑی دی جاتی تھی۔ اتالیق اتالیق بھی بچوں کا ایک اہم رسالہ تھا جو مولوی عبدالرب کوکب فاضل دارالعلوم کی ادارت میں 1917ء سے نکلنا شروع ہوا۔ اس کے جوائنٹ ایڈیٹر احمد عبدالعزیز صدیقی تھے۔ اس رسالہ میں سائنس، ہیئت ، طبیعات، تاریخ، بڑے لوگوں کے بچپن کے حالات، اکابر کی سوانح عمریاں اور کہانیاں وغیرہ شائع کی جاتی تھیں۔ حفظان صحت، ورزش اور کھیل کود سے متعلق مضامین بھی شائع کئے جاتے تھے۔ نونہال ’نونہال‘ محمد مرغوب الدین بی اے علیگ کی ادارت میں شائع ہوتا تھا اس میں بچوں کے لئے مفید کارآمد اور دلچسپ مضامین ہوا کرتے تھے ۔سرورق پر یہ اشعار درج تھے: ہے قوم اگر باغ تو تم اس کے شجر ہو ہے قوم اگر نخل تو تم اس کے ثمر ہو ہے قوم اگر چرخ تو تم اس کے شمس و قمر ہو ہے قوم اگر کان تو تم لعل و گہر ہو سب رس ’سب رس‘ (بچوں کا) صاحب زادہ میر محمد علی میکش کی ادارت میں شائع ہوتا تھا۔ یہ سب رس کا ضمیمہ تھا۔ اس میں مضامین کے علاوہ معمہ، پہیلیاں اورلطیفے شائع ہوتے تھے۔ تارے ’تارے‘ مسلم ضیائی کی ادارت میں شائع ہوتا تھا۔ 1948ء میں جاری اس رسالہ میں مزاحیہ مضامین بھی ہوتے تھے۔ اس لئے بہت مقبول تھا۔ بچوں کی دنیا بچوں کی دنیا 1949ء میں اظہر افسر کی ادارت میں جاری ہوا۔ یہ ایک باتصویر رسالہ تھا۔ نوخیز ’نوخیز‘ منیر صفوی کی ادارت میں شائع ہوتا تھا۔ اس رسالہ کا آغاز 1968ء میں ہوا تھا۔ انعام انعام‘وقار خلیل جیسے شاعر اور ادیب کی ادارت میں 1957ء میں جاری ہوا مگر ایک سال کے بعد ہی یہ معیاری رسالہ دم توڑ گیا۔ ننھا ’ننھا‘ 1958ء میں جاری ہوا۔ یہ اسد انصاری، مسعود انصاری کی ادارت میں شائع ہوتا تھا۔ اس کا ایک مخصوص کالم قلمی دوستی تھا جس کی وجہ سے بچے اس رسالہ سے جڑتے گئے۔ یہ کلیاں اور پھلواری کے پایہ کا رسالہ تھا۔ ہمارے نونہال ’ہمارے نونہال ‘ابوالفہم وحید علی خاں کی ادارت میں شائع ہوا۔ 1989ء میں اس کا اجراء ہوا۔ آسان عام فہم مضامین، تصویروں اور کارٹونوں کی وجہ سے اس رسالہ کو بچوں میں مقبولیت ملی۔ کمپیوٹر اور سائنس کے عنوانات پر بھی اس میںتحریریں ہوتی تھیں۔ کوے کی زبان، ہمیں شکایت ہے، اس کے مشہور کالم تھے۔ اس کے علاوہ اسلامی مقابلے اور کوئز کا بھی خصوصی اہتمام تھا۔ نونہال ادیب کے تحت بچوں، اسکول کے طلباء کے لئے کچھ صفحے مختص کئے گئے تھے۔ بزم ادب ’بزم ادب‘ بچوں کا باتصویر رسالہ تھا جو جیرام پرشاد کی سرپرستی اور وشوناتھ کی ادارت میں شائع ہوتا تھا۔ اس میں کہانیوں کے علاوہ صنعت و حرفت پر مضامین شائع ہوا کرتے تھے۔ بھائی جان ’بھائی جان‘ حیدرآباد سے اظہر افسر کی ادارت میں نکلتا تھا۔ جو بچوں کے معروف ڈرامہ نگار تھے۔ موتی، ننھی سی لڑکی، ایک روپیہ فی مکان ان کے مشہور ڈرامے ہیں۔ اخبار میزان میں بچوں کے لئے کالم بھی لکھتے رہے اور اقدام حیدرآباد میں بچوں کا صفحہ بھی ترتیب دیتے تھے۔ روشن ستارے ’روشن ستارے‘ تلنگانہ، اسٹیٹ اردو کیڈمی کی طرف سے نکلنے والا بچوں کا ماہنامہ ہے۔ اس کا پہلا شمارہ جون 2019ء میں شائع ہوا۔ محمد رحیم الدین انصاری کی نگرانی اور محمد عبدالوحید کی ادارت میں اس رسالے کی اشاعت شروع ہوئی۔ سردار سلیم اس کی ادارتی معاونت سے وابستہ ہیں۔ یہ بھی بچوں کا ایک رسالہ ہے۔ اس نے بہت مختصر عرصہ میں اپنی ایک پہچان قائم کی ہے۔ ڈاکٹر طیب انصاری اور ڈاکٹر انورالدین نے بچوں کے بہت سے رسائل کا ذکر کیا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دوسری ریاستوں کے مقابلہ میں حیدرآباد نے بچوں کے صحافتی ادب کو زیادہ فروغ دیا ہے۔ بہار اور جھارکھنڈ کی ریاستوں نے بھی ادبِ اطفال کی ترویج میںاہم کردار ادا کیا ہے۔ یہاں بچوں کا ادب لکھنے والوں میں عبدالغفور شہباز، سید غلام رسول قدسی، صفیر بلگرامی، ڈاکٹر محمد حسنین (ح۔م اسلم)،احمد جمال پاشا، عبدالمنان طرزی، ایم ۔اے حق، ڈاکٹر اسریٰ ارشد، شاہد جمیل، شمیم عالم مصحفی، رضوان رضوی، مرغوب اثر فاطمی، شکیل دسنوی، امان ذخیروی، ضیاء الرحمن جعفری، مجیر احمد آزاد، اسرارالحق سبیلی،قیصر اقبال، شاہد جمال، سلطان آزاد، قیصر زاہدی، عطا عابدی، عبید قمر، مشتاق احمد نوری، ظہیر نیازی، عظیم اقبال، عشرت ظہیر، نسیم حمد جان، نشاط افزا، طلعت فاطمہ، فرخندہ جبیں، جمیل مظہری، پرویز شاہدی، شکیل الرحمن (باباسائیں) نادم یلخی، مظہر امام، ضیا عظیم آبادی، قمر زاہدی، م۔ق خاں، رضا نقوی واہی، شان بھارتی، عبدالصمد ، عبداللہ کمال، مشرف عالم ذوقی، زکی انور،ناوک حمزہ پوری، غیاث احمد گدی، ذکیہ مشہدی، مناظر عاشق ہرگانوی، ضیاء الرحمن غوثی، شبنم کمالی، قیصر صدیقی، تمنا مظفر پوری، ذکی احمد، شیریں نیازی، ظفر کمالی،ثوبان فاروقی، التفات امجدی، قاسم خورشید، غضنفر،ضیاء الرحمن جعفری، شکیل سہسرامی، مجیر احمد آزاد، احسان عالم، انظار احمد صادق،جمیل اختر شفیق، ثناء اللہ ثنائ، منصور خوشتر، اویناش امن، فرحت پروین، حنا شمائم وغیرہ کے نام اہم ہیں۔ڈاکٹر ابرار احمد اجراوی نے اپنے مضمون ’بہار میں ادب اطفال :معاصر منظرنامہ‘ (مشمولہ: محاکمہ، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی، 2019) میں ادب اطفال کے ادباء کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔ یہاں سے بچوں کے جو رسائل نکلتے رہے ہیں ان میں سے چند کا ذکر ڈاکٹر سید احمد قادری نے کیا ہے۔ نو بہار (پٹنہ)، انوار صبح (سہسرام)، آج کے نونہال( دربھنگہ) بچوں کی دنیا (گیا) زمیں کے تارے(گیا) اطفال ادب (گیا) مسرت (پٹنہ) خوشبو (سہسرام) بچوں کا ڈائجسٹ (بہار شریف)،شہد (گیا) شامل ہیں۔ وہیں جھارکھنڈ سے وطن (رانچی) اور طفل (جمشید پور) کے نام بھی لئے جا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ بہار سے تربیت (بہار شریف)، قہقہہ (پٹنہ)، شاہین (پٹنہ)،غنچہ (گیا) جیسے رسالے شائع ہوتے تھے۔ پروفیسر علیم اللہ حالی نے بھی بچوں کا دستی رسالہ’’ پیارا‘‘ کے نام سے نکالا تھا۔ ٭ ’تربیت‘ نالندہ، اس رسالے کے بارے میں ڈاکٹر عشرت آرا سلطانہ نے اپنی کتاب ’اردو ادب کی تاریخ میں نالندہ ضلع کی خدمات‘ میں لکھا ہے کہ’ یہ پرچہ 1931ء میں خانقاہ سے شائع ہوتا تھا۔ یہ خاص بچوں اور بچیوں کے لئے تھا۔ یہ صرف دو شمارے کے بعد بند ہوگیا۔ (ص۔402) ٭’نوبہار‘ پٹنہ روزنامہ ساتھی سے وابستہ مشہور صحافی خالد رشید صبا کی ادارت میں شائع ہوتا تھا۔ ٭انوار صبح‘ سہسرام، شفق جیسے معروف فکشن نگار کی ادارت میں شائع ہوتا تھا۔ ٭’آج کے نونہال‘ دربھنگہ خصال احمد کریمی کی ادارت میں شائع ہوتا تھا۔ ٭’بچوں کی دنیا‘ گیا کی ایڈیٹر نوشابہ کلیم تھیں اور تمنا مظفر پوری اس کے سرپرست تھے۔ اس کی مجلس مشاورت میں معین شاہد، فرحت قادری، عطا عابدی، بانو سرتاج جیسی شخصیتوں کے نام ہیں۔ اس کی اشاعت کا آغاز نومبر 1993ء سے ہوا۔ ٭’زمیں کے تارے‘ شہد کی مکھیاں اور ریشم کے کیڑے جیسی معلوماتی کتابوں کے مصنف ایم اے کریمی کی ادارت میں شائع ہوتا تھا۔ ٭ماہنامہ ’اطفال ادب‘ گیا کی ادارت کے فرائض ایم۔ اے کریمی انجام دیتے تھے۔اس کا آغاز دسمبر 1998ء میں ہوا۔ اس رسالہ کے معاونین میں ڈاکٹر مرتضیٰ ، شاعر گیاوی تھے۔ ٭’خوشبو‘ سہسرام کے مدیر زین معصوم تھے۔ مسرت، پٹنہ ’مسرت‘ پٹنہ کے مدیر مشہور صحافی اور ماہنامہ دہلی کے سابق مدیر ضیاء الرحمن غوثی تھے۔ اس رسالہ نے اپنی ایک تاریخ مرتب کی اور اسے سہیل عظیم آبادی، ذکی انور، علقمہ شبلی، تمنا مظفر پوری، ذکی احمد، مناظر عاشق ہرگانوی جیسے اردو کے بڑے بڑے قلم کار وں کا تعاون حاصل تھا۔ اس کے کئی خصوصی شمارے بھی شائع ہوئے۔ جن میں چاچا نہرو نمبربہت مقبول ہوا۔ بہار میں ادب اطفال کے ضمن میں یہ رسالہ ایک سنگ نشاں کی حیثیت رکھتا ہے۔ ’مسرت‘ کا پہلا شمارہ دسمبر 1966ء میں شائع ہوا۔ جس میں آسی رام نگری، رضا نقوی واہی، ظفر اوگانوی، ذکی انور کی تخلیقات کے ساتھ ڈاکٹر ذاکر حسین اور کلیم الدین احمد کے پیغامات بھی شامل تھے۔ مسرت میں سائنسی معلومات، کارٹون، لطیفے، ابھرتے فنکار، سوال و جواب، جنرل نالج، اقوال زریں، تصویروں میں رنگ بھرو، کھیل کود، دلچسپ خبریں وغیرہ مستقل کالم تھے۔بچوں کے ادب کے ارتقا میں مسرت کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی کے مطابق اردو میں بہار کا پہلا بچوں کا رسالہ یہی مسرت ہے۔ ضیاء الرحمن غوثی نے اپنی کتاب ’بہار میں بچوں کا ادب‘ میں ماہنامہ مسرت سے متعلقہ تفصیلات کے علاوہ کچھ تحریروں کا انتخاب بھی پیش کیا ہے جس سے ماہنامہ مسرت کی معنویت اور اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ شفیع الدین نیر(3؍فروری1903۔30جنوری1978) بچوں کے معروف شاعر نے مسرت کا خیر مقدم یوں کیا تھا: مسرت ہوتی ہے مسرت سے بڑھ کر مسرت نہیں اس مسرت سے بڑھ کر اگر اہل اردو نے کی آبیاری تو پودا رہے گا یہ پروان چڑھ کر مسرت سے قبل انہوں نے جروعہ حاجی پور سے بچوں کا قلمی رسالہ ’’کہکشاں‘‘ بھی نکالا تھا۔ وطن، رانچی ’وطن‘ رانچی مرشد ہوش اور شمس جاوید کی ادارت میں شائع ہوتا تھا۔ طفل، جمشید پور ’طفل جمشید پور‘ ہربن سنگھ دوست کی ادارت میں شائع ہوا کرتا تھا۔ qqq مہاراشٹر کی سرزمین ’’بچوں کا ادب‘‘ کی تخلیق کے باب میں بہت ہی زرخیز رہی ہے۔ یہاں مختلف اصناف ادب میں بچوں کے لئے لکھنے والوں کی بہت بڑی تعداد ہے۔ نظم نگاروں میں محبوب راہی، عبدالرحیم نشتر، ارشد مینا نگری، متین اچل پوری، حیدر بیابانی، ظہیر ابن قدسی، انصاری یعقوب حسرت، رئیس احمد قتیل، شکیل احمد تہذیبی، اسحاق خضر، رفیع احمد کے نام ملتے ہیں تو وہیں بچوں کے لئے ناول لکھنے والوں میں وکیل نجیب، بانو سرتاج، ایم مبین، سلطان سبحانی، اقبال برکی، یعقوب بن مرتضیٰ، ابن آدم کے نام بہت اہم ہیں۔ بچوں کی کہانیاں تحریر کرنے والوں میں وکیل نجیب، قاضی مشتاق احمد، بانو سرتاج، ایم مبین، نورالحسنین، احمد عثمانی، اقبال برکی، رفیع الدین مجاہد، سلطان سبحانی، کلیم ضیائ، رفیع احمد، ایم یوسف انصاری، دیپک کنول، رحمن اکولوی، یعقوب بن مرتضیٰ، آصف بختیار سعید، بابو آرکے، ایچ ایم یٰسین ملی، آفتاب حسنین، اسحاق خضر، ساحر کلیم اہم ہیں۔ وہیں بچوں کے ڈرامہ نگاروں میں وکیل نجیب، سرتاج بانو، قاضی مشتاق احمد، اقبال نیازی، نورالحسنین، ایم مبین، مجیب خان، مومن شمشاد، خالق شاہین، مشتاق زبیر، مہر رحمن، شیخ سلیم محمد کے نام لئے جا سکتے ہیں۔ ان کے علاوہ گلزار، شاہ حسین نہری، نذیر فتح پوری، عطاء الرحمن طارق، صادقہ نواب سحر، متین اچلپوری، احمد امام بالا پوری، فرحان حنیف وارثی ادب اطفال کے اہم نام ہیں۔ مہاراشٹر میں ادب اطفال لکھنے والوں کاشیخ محمد صابر محمد محمود نے اپنے تحقیقی مقالہ مہاراشٹر میں اردو ادب اطفال کا تنقیدی مطالعہ 1970ء کے بعد، میں تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ اسی سرزمین سے بچوں کے بہت اہم رسالے شائع ہوئے ہیں جن میں گل بوٹے(ممبئی) بزم اطفال (مالیگاؤں) ، گلشن اطفال (مالیگاؤں)، فردوس (امراوتی)، منا (ممبئی) اردو کومک (مالیگاؤں) بچوں کا ساتھی (مالیگاؤں)، ہیرا (مالیگاؤں) جل پری (مالیگاؤں) کونپل (ممبئی) ،چاند (ناگپور)، کرنیں (ناگپور) ، گلفشاں (بیاول) کہکشاں (بیاول) بچوں کا کھلونا (بیاول) اسکول ٹائم (ممبئی)نونہال ٹائمز (ممبئی) جنت کے پھول (ممبئی) بال وپر (کھام گاؤں) قابل ذکر ہیں۔ چاند،ناگپور ’چاند‘ فیض انصاری ا ور شفیقہ فرحت کی ادارت میں شائع ہوتا تھا۔ ڈاکٹر شرف الدین ساحل کے مطابق قیمت فی پرچہ پانچ آنہ اور سالانہ ساڑھے تین روپیہ تھا۔ جنوری 1953ء سے اس کی اشاعت کا آغاز ہوا۔ اس میں بچوں کے ذہنی معیار کے مطابق مضامین کی اشاعت ہوتی تھی اور نو مشق طلباء کی تخلیقات کو بھی اس رسالے میں خصوصی طور پر جگہ دی جاتی تھی۔ جون 1954ء میں اس کی اشاعت بند ہوگئی۔ ’چاند‘ کے قلم کاروں میں ملا رموزی، محی الدین قادری زور، نریش کمار شاد، پرکاش پنڈت، مظفر حنفی، خلیق برہانپوری، ادیب مالیگانوی جیسی اہم شخصیات تھیں۔ کرنیں،ناگپور ’کرنیں‘ کی اشاعت کا آغاز اگست؍1954ء میں ہوا۔ شفیقہ فرحت اس کی مدیر تھیں۔ یہ تقریباً ڈیڑھ سال تک نکلتا رہا۔ قیمت فی پرچہ چھ آنے اور سالانہ چار روپے۔ اس میں بھی افسانے مضامین، منظومات کی اشاعت ہوتی تھی۔ رسالے کے اخیر میں طبی حصہ ہوتا تھا جس کے مرتب ڈاکٹر محمد اسلم تھے۔ اس میں معمہ کا بھی ایک سلسلہ تھا۔ سعادت حسن منٹو، اختر انصاری، کرشن چندر، صالحہ عابد حسین، نریش کمار شاد، شفا گوالیاری، عادل رشید کا قلمی تعاون اس رسالے کو حاصل تھا۔ گل بوٹے،ممبئی ’گل بوٹے‘ بچوں کا نہایت مقبول اور معروف رسالہ ہے۔ اس کی اشاعت کا سلسلہ 1996ء سے شروع ہوا۔ فاروق سید کی ادارت میں شائع ہونے والے ماہنامہ گل بوٹے نے بہت مختصر عرصہ میں بچوں کے رسائل کے درمیان اپنی شناخت قائم کی ہے۔ یہ رسالہ بھی ایک مشن اور وژن کے تحت نکلتا ہے اس لئے یہ دوسرے رسائل سے ذرا مختلف بھی ہے اور منفرد بھی۔ اس رسالہ میں فاروق سید کا ادارتی ہنر بھی جھلکتا ہے اور ان کی لگن اور جد و جہد بھی۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ بچوں کے ذہن اور ذوق کا خیال رکھتے ہوئے مفید اور معلوماتی مواد سے رسالہ کو سجایا اور سنوارا جائے۔ بچوں سے ان کا براہ راست تخاطب بھی ہوتا ہے جس کا بچوں کے ذہن پر بہت خوشگوار اثر پڑتا ہے۔ اس میں معلوماتی مضامین ، کہانیوں، نظموں، کارٹون کے علاوہ جنرل نالج، کوئز اور کیرئیر گائڈینس جیسے فیچر بھی ہوتے ہیں۔ فاروق سید اپنے اداریے ’چھوٹی سی بات‘ میں بچوں کے لئے کام کی باتیں لکھ جاتے ہیں۔ زیادہ وسائل نہ ہونے کے باوجود گل بوٹے بچوں کے درمیان بہت مقبول ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ غیر سرکاری رسالوں میں اس کی تعداد اشاعت سب سے زیادہ ہے۔ اس کی مقبولیت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ فاروق سید بچوں کے ذہن، ذوق اور نفسیات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔حامد اقبال صدیقی، مبارک کاپڑی، عاصم سید اس کے کالم نگاروں میں شامل ہیں۔اب اس کا ہندی ایڈیشن بھی شروع ہوگیا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اس رسالہ کو بچوں اور بزرگوں کی بے پناہ محبت اور عنایت حاصل ہے۔ گلشن اطفال،مالیگاؤں ’’گلشن اطفال‘‘ رحمانی سلیم احمد کی ادارت میں مالیگاؤں سے شائع ہوتا ہے۔ یہ بھی بچوں کے درمیان معروف ہے اس میں بچوں کے مشہور ادیبوں ساحر کلیم، ایم مبین، رفیع الدین مجاہد کی کہانیاں اور تخلیقات شائع ہوتی ہیں۔ اس میں فرہنگ، دماغی کھیل، جانوروں پرندوں کی دنیا، خبرناموں کے علاوہ دیگر معلوماتی فیچر بھی ہوتے ہیں۔ انعامی مقابلے اور انعامی تصاویر بھی ہوتی ہیں۔ بچوں کے ادیبوں پر بھی گوشے شائع ہوتے ہیں۔گلشن اطفال کے خصوصی شمارے بھی شائع ہوئے ہیں جن میں قہقہہ نمبر کو بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی۔ فردوس، امراوتی ’فردوس‘ امراوتی سے محمد رضوان الرحمن کی ادارت میں شائع ہوتا تھا۔ 1998ء میں اس کا اجرا عمل آیا۔ کہانیاں نظموں اور مضامین کے علاوہ ذرا مسکرائیے اور اقوال زریں جیسے مواد پر محیط ہے۔ آغا غیاث الرحمن نے اپنی کتاب ’’برار میں اردو زبان و ادب کا ارتقائ‘ میں اس کا ذکر کیا ہے۔ خیر اندیش،مالیگاؤں خیراندیش بچوں کا واحد ہفت روزہ اخبار ہے جو خیال انصاری کی ادارت میں 1987ء سے مسلسل شائع ہو رہا ہے۔ اس اخبار نے بچوں میں بہت مقبولیت حاصل کی ہے۔ منا،ممبئی ’’منا‘‘ معروف ادیب اور شاعر شوکت علی پردیسی کی ادارت میں ممبئی سے شائع ہوتا تھا۔ اس میں بھی بہت اہم تخلیقات شائع کی جاتی تھیں۔ مالیگاؤں سے اردو کو مک حفیظ الرحمن انصاری بی ایس سی کی ادارت میں شائع ہوتا تھا۔ اس کی اشاعت کا آغاز1966ء میں ہوا۔ ’نونہال ٹائمز‘ ممبئی سے حسین جاوید کی ادارت میں شائع ہوتا تھا۔ ماہامہ ٹافی لکھنؤ کے مدیر جاوید حسن نے ضیاء الرحمن غوثی کے نام ایک خط میں لکھا ہے کہ: ’’ممبئی سے نکلنے والا ’’نونہال ٹائمز‘‘ بھی بچوں کے لئے ارزاں قیمت میں اچھا پرچہ ہے۔‘‘ جنت کے پھول،ممبئی ممبئی سے عنایت اللہ خان کی ادارت میں شائع ہوتا ہے۔ محسن ساحل اس رسالے کے معاون مدیر ہیں۔ یہ بچوں کا ایک عمدہ رسالہ ہے جس میں بچوں کی دلچسپی کا بہت سارا مواد ہوتا ہے۔ اس رسالے پر مائل خیرآبادی کا ایک خوبصورت سا شعر بھی درج ہے: بچے ہیں جنت کے پھول یہ ہے پیارا قولِ رسول بال و پر،ممبئی ’بال و پر‘ پندرہ روزہ بچوں کا رسالہ تھا۔ آغا غیاث الرحمن کے مطابق 1982ء میں جواہر لال نہرو کے یوم پیدائش 14؍نومبر کو اس کا اجراء ہوا۔1982ء سے اس کی اشاعت کا آغاز ہوا۔ اس رسالہ کے مدیر اعلیٰ محمد عمر اور مدیر قیوم خان تھے۔ مدھیہ پردیش میں آ زادی سے پہلے اور آزادی کے بعد ادب اطفال پر کم توجہ دی گئی ہے پھر بھی ادب اطفال سے جڑے ہوئے کچھ اہم نام ہیں۔ مولانا محمد عباس رفعت، غلام احمد فروعی، محوی صدیقی، عبدالقوی دسنوی، یوسف قیصر، کوثر چاند پوری، پروین رشدی، عبدالمتین نیاز۔ ان میں سے محوی صدیقی کا ’’بالک کاباغ‘‘ اور سچی کہانیاں بہت مشہور ہیں۔ جب کہ کوثر صدیقی کی ’’چوہیابیگم ‘‘ ’’کبڑا جادوگر‘‘ ’’بادلوں کی ملکہ‘‘ کی مشہور کہانیاں ہیں۔ اسی طرح شاعری کے باب میں عبدالمتین نیاز کا نام بڑا اہم ہے۔ یہاں سے بچوں کے رسائل کے حوالے سے جو نام سامنے آئے ہیں ان میں طفلستان(بھوپال)، بچوں کی دنیا (بھوپال) ، جگنو (بھوپال) معصوم دنیا( بھوپال)اہم ہیں۔ طفلستان، بھوپال ’طفلستان‘ بھوپال سے بچوں کا پہلا رسالہ ہے جو عباس انصاری کی ادارت میں شائع ہوا۔ 1947ء میں اس کی اشاعت کا آغاز ہوا تھا۔ بچوں کی دنیا، بھوپال ’بچوں کی دنیا‘ جاوید محمود کی ادارت میں 1956ء میں جاری ہوا۔ معصوم دنیا،بھوپال ’معصوم دنیا‘ گوہر جلالی نے شائع کیا تھا۔ جگنو، بھوپال ’’جگنو‘‘ نعیم کوثر جیسے معتبر افسانہ نگار کی ادارت میں یکم جون 1961ء سے نکلنا شروع ہوا۔ اس کے معاون مدیر ظفر احمد نظامی تھے اور اس کے آرٹسٹ ایم ایچ قریشی۔ اس کے اداریے کا عنوان تھا پہلی منزل۔ پہلے شمارے میں لکھا گیا تھا کہ ’’ یہ پہلا شمارہ ہے۔ مہنگائیوں کے اس بھیانک زمانے میں تمہارے چہروں پر تمتماہٹ اور مسکراہٹ پیدا کرنے کے لئے بھرپور سامان سمو دیا گیاہے ۔ اپنی رائے لکھو کہ جگنو کیسا لگا۔‘‘36 صفحات پر مشتمل یہ بچوں کا ایک معیاری ماہنامہ تھا۔ کرناٹک میں بھی ادبِ اطفال لکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد ہے۔ وہاں مختلف اصناف ادب کے ذریعہ جو بچوں کا ادب فروغ دے رہے ہیں ان میں امید ادیبی، خالد عرفان، ضیاء جعفر، ظہیر الدین ظہیر، حافظ کرناٹکی، رزاق افسر شاہ آبادی، سلیم تمنائی، حلیمہ فردوس، فوزیہ چودھری، شائستہ یوسف، وقار خلیل، نعیم اقبال، میمونہ تسنیم، فاطمہ ردا ٹمکوری، رفیق عارف، شاد باگل کوٹی، ساغر کرناٹکی، الف احمد برق، شبیر احمد منظر قدوسی، مہ نور زمانی، اقبال سلیم وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ آفاق عالم نے اپنے تحقیقی مقالہ میں بچوں کے ادب اور کرناٹک کے ادیبوں کی ادب اطفال میں خدمات کا بہت تفصیل سے جائزہ لیا ہے۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کرناٹک کی ریاست بھی بچوں کے ادب کے سلسلے میں بہت سرگرم اور سنجیدہ رہی ہے۔ اسی ریاست سے دو ماہی غبارہ (بنگلور) ندائے اطفال (شکار پور)، (بنگلور) صدائے اطفال (بنگلور) ماہنامہ پھول (بھٹکل) ، اپنا گلستان (بلگام) جیسے رسالے شائع ہوئے ہیں۔ غبارہ،بنگلور ’’غبارہ ‘‘بچوں کا دو ماہی رسالہ جو بنگلور سے شائع ہوتا تھا۔ اس کی چیف ایڈیٹر ڈاکٹر فوزیہ چودھری کرناٹک اردو اکیڈمی کی سابق چیئر پرسن تھیں اور معاون مدیران میں ان کی دو بیٹیاں قدسیہ واجد اور فوقیہ واجد ہیں جو انگریزی کی بہترین شاعرہ ہیں۔ یہ کرناٹک میں بچوں کا پہلا اردو رسالہ ہے۔ اس کے بہت سے شمارے شائع ہو چکے ہیں۔ اور اس میں بچوں کی نفسیات کا خیال رکھتے ہوئے مضامین شامل کئے جاتے تھے۔ اس رسالے میں فوزیہ چودھری تماپوری ’باجی‘ کے قلمی نام سے اداریے لکھا کرتی تھیں۔ بچوں سے گفتگو کرتی تھیں۔ اس رسالے کے مشمولات میں کہانیاں، لطیفے، نامور ہستیوں کے انٹرویو، مشہور لوگوں کا تعارف، یادداشتیں، سالگرہ کی مبارک بادیاں، پسندیدہ اشعار کے علاوہ دلچسپی کے دیگر عنوانات ہوا کرتے تھے۔ اس رسالے کے حوالہ سے ممتاز ناقد پروفیسر سلیمان اطہر جاوید مرحوم نے لکھا تھا کہ: ’’ فی زمانہ رسائل و جرائد کا شائع کرنا اور پابندی سے شائع کرنا ایک کار دشوار ہے۔ ایسے میں بچوں کے لئے جریدے کی اشاعت کسی مہم سے کم نہیں۔ ڈاکٹر فوزیہ چودھری نے یہ قدم اٹھایا اور نہایت جرأت و ہمت سے کام لیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ غبارہ کی تاحال اشاعت میں تخلیقات بھی ایسی ہیں جن سے بچوں کی کردار سازی میں مدد ملے گی۔ ‘‘ (بحوالہ: فوزیہ چودھری فنکار اور فن؍محمد شاہد علی) بیچ میں یہ رسالہ تعطل کا شکار ہوا پھر 2010ء سے اس کی اشاعت شروع ہوئی۔ یہ رسالہ سات سال تک شائع ہوتا رہا۔ صدائے اطفال،بنگلور ’’صدائے اطفال‘‘ کرناٹک اردو اکیڈمی کا ترجمان ہے۔ اس کی اشاعت کا آغاز بچوں کے معروف ادیب حافظ کرناٹکی نے کیا تھا۔ 48 صفحات پر مشتمل اس رسالہ میں مشہور قلم کاروں کے ساتھ ساتھ اسکولی بچوں کی نگارشات بھی شائع کی جاتی ہیں۔ اس میں کشیدہ کاری کا بھی ایک کالم ہے جس سے بچیوں کو بڑی مدد ملتی ہے۔ اپنا گلستاں،بلگام ’اپنا گلستاں‘ بلگام سے محمد غوث منیار کی ادارت میں اگست 2003ء سے شائع ہونا شروع ہوا۔ محمد غوث کے تعلق سے عین صمد خانہ پوری اپنی کتاب ’بلگام تاریخ کے آئینے میں‘‘ لکھتے ہیںکہ: ’’ موصوف کو ہمیشہ ہی سے بچوں کے ادب سے دلچسپی اور شغف رہا ہے۔ ‘‘ ان کے مطابق یہ رسالہ پرائمی اور ثانوی طلبہ و طالبات میں مقبول ہے۔ ندائے اطفال،شکارپور ’ندائے اطفال‘ حافظ کرناٹکی نے انجمن اطفال کے زیر اہتمام 2009ء میں نکالنا شروع کیا۔ اس کے اداریے میں حافظ کرناٹکی نے بچوں کو ترغیب دیتے ہوئے لکھا تھا کہ: ’’اٹھائیے قلم اور اپنے جذبات کی خوشبو سے اس رسالے کے صفحات کو معطر کر دیجئے۔ یہ صرف ایک رسالہ ہی نہیں آپ کے خوابوں کو سچ کر دکھانے کا ایک ذریعہ ہے۔ (بحوالہ: ہندوستان میں بچوں کا ادب آزادی کے بعد؍ آفاق عالم) پھول، بھٹکل بھٹکل سے شائع ہوتا ہے۔ یہ ایک مشن کے ساتھ شائع ہوا ہے اس میں ادب کے ساتھ اسلامی افکار و اقدار پر زیادہ ارتکاز ہے۔ ادب اطفال کی بقا اور ترویج کے لئے اس رسالہ کا اجراء ہوا ہے جس کا مقصد تفریح نہیں بلکہ تعلیم و تعمیر ہے۔ ظاہری اور باطنی خوبیوں سے آراستہ اس رسالہ کے ایڈیٹر عبداللہ ندوی ہیں۔ اس کے سرورق پر یہ مصرعہ درج ہے جو اس کے مشن اور مقصد کی ترجمانی کرتا ہے۔ پھول ہاتھوں میں لئے نکلے ہیں ملت کے جواں ہے نہاں اس پھول میں علم و ہنر کا گلستاں qqq اڑیسہ ریاست میںبھی اردو زبان و ادب کی ایک زریں تاریخ رہی ہے۔ وہاں شاعروں اور ادیبوں کی ایک بڑی تعداد ہے جنھوں نے ریاست کو قومی سطح پر ایک پہچان عطا کی ہے۔ یہاں بھی بڑوں کے ادیبوں کے ساتھ بچوں کے ادیب بھی ہیں جن میں سید شکیل دسنوی، خالد رحیم اور عبدالمتین جامی کے نام لئے جا سکتے ہیں جنھوں نے ادبِ اطفال کو فروغ دیاہے۔ اڑیسہ سے ہی دو ماہی شاخسار جیسا عہد ساز ادبی رسالہ شائع ہوتا تھا وہاں سے آزادی کے 58 برسوں بعد اردو کے معتبر ادیب و شاعر اور مجلہ ترویج کے مدیر خاور نقیب، (سید معشوق الٰہی) کی ادارت میں جگنو کے نام سے بچوں کا پہلا رسالہ شائع ہوا۔ یہ بچوں کا پہلا سہ ماہی رسالہ تھا جس کے صرف دو ہی شمارے نکل سکے۔ اولین شمارہ ستمبر۔نومبر2016 کا تھا۔ مغربی بنگال میں بھی بچوں کا ادب لکھنے والو ںمیں کئی اہم نام ملتے ہیں۔ پروفیسر عاصم شاہنواز شبلی نے اپنی کتاب ’’مغربی بنگال اور بچوں کا ادب‘‘ میں بچوں کے شعری ادب کے ضمن میں جرم محمد آبادی، جمیل مظہری، پرویز شاہدی، اشک امرتسری، حرمت الاکرام، مظہر امام، علقمہ شبلی، ساگر چاپدانوی، محی الدین شاہین، معصوم شرقی، احمد کمال حشمی وغیرہ کے ناموں کا اندراج کیا ہے۔ جب کہ نثری ادب میں سالک لکھنوی، نشاط الایمان، جاوید نہال، عابد ضمیر، مشتاق اعظمی، نذیر احمد یوسفی، کمال احمد، شوکت عظیم، جمیل ارشد کے نام لکھے ہیں۔علقمہ شبلی نے ’حرف حرف تلاش‘(2008)میں شامل اپنے مضمون ’مغربی بنگال میں بچوں کا اردو ادب‘ میں آزادی کے بعد ادب اطفال لکھنے والوں میں جاوید نہال، حرمت الاکرام، مظہر امام، نشاط الایمان، علقمہ شبلی، مظفر حنفی، ساگر چاپدانوی، عابد ضمیر، مشتاق اعظمی، حشمت کمال پاشا، جان عالم سیف، ذوالنورین، کمال احمد، محمد شان، شوکت عظیم، جمیل ارشد، محسن باعشن حسرت، احمد کمال حشمی، عبدالودود انصاری، شمیم انجم وارثی، کلیم حاذق، نور پیکر، فراغ روہوی، خالدہ حسینی، ضمیر یوسف کے نام لکھے ہیں جب کہ ان کے علاوہ جان عالم سیف، شہناز نبی،انور ادیب، ایم نصراللہ نصر اور شفیق الدین شایاں بھی بچوں کا ادب تخلیق کر رہے ہیں۔ اردو کے اولین اخبار ’جام جہاں نما‘ کی جنم بھومی کلکتہ سے ہفتہ وار’ بچوں کی دنیا‘،ماہنامہ ’آج کا سکندر‘ ،دو ماہی ’غنچہ‘ ،ماہنامہ ’نوخیز‘، دو ماہی ’شرارت‘،ماہنامہ ’طالب علم‘، دوماہی ’گلدستہ‘ ، دو ماہی ’ساتھی‘ ، ماہنامہ ’شیریں‘،ماہنامہ ’منفرد‘ اور ’نیا کھلونا‘ شائع ہوتے رہے ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ضیاء اللہ کھوکھر کی مرتب کردہ کتاب ’’بچوں کی صحافت کے سوسال‘‘ میں مغربی بنگال سے شائع ہونے والے بچوں کے کسی بھی رسالے کا ذکر نہیں ہے۔ غنچہ ،مغربی بنگال غنچہ کے مدیر خورشیداحمد شیدائی تھے۔1969ء میں اس کی اشاعت کا آغاز ہوا۔ اس کے نگراں معروف و مقبول شاعر و نثر نگار اعزاز افضل تھے۔ بچوں کا ڈائجسٹ رضوان رضوی کی ادارت میں بچوں کا ڈائجسٹ نکلنا شروع ہوا۔ یہ پہلے نالندہ بہار شریف1969ء سے نکلنا شروع ہوا اور دو سال کے اندر ہی بند ہوگیا۔ اس کے معاون مدیر مناظر عاشق ہرگانوی تھے۔ بعد میں اس کی اشاعت کلکتہ سے شروع ہوئی۔ ’نوخیز‘ کامل حمیدی کی ادارت میں 1978ء میں نوخیز کا آغاز ہوا۔ اس کی مدت اشاعت صرف ایک سال رہی۔ شرارت 1985ء میں مٹیابرج سے سید اصغر حسین رضوی کی ادارت میں شرارت نکلنا شروع ہوا۔ آج کا سکندر سید محفوظ عالم کی ادارت میں ’’آج کا سکندر‘‘ مارچ 1994ء سے شروع ہوا۔ ان کا تعلق مہوا ویشالی سے تھا۔ تجارت سے وابستگی تھی۔ اخبارات و رسائل میں ان کے مضامین چھپتے رہے ہیں۔ بچوں کی دنیا بچوں کی دنیا کلکتہ سے 1941ء سے نکلنا شروع ہوا۔ اس کے مدیر عنایت اللہ تھے۔ گلدستہ گلدستہ کی اشاعت کا آغاز 1970ء میں خضر دانش شمسی کی ادارت میں ہوا۔ اس کے شایددس شمارے شائع ہوئے۔ بعد کے کچھ شمارے شانتی رنجن بھٹا چاریہ کے بقول شاہد انور یعقوبی اور محمد عیسیٰ سنجرکی ادارت میںشائع ہوئے۔ ساتھی ساتھی کلکتہ سے 1971ء میں نکلنا شروع ہوا جس کے مدیر شمیم احمد تھے۔اس کے بھی چار پانچ شمارے ہی شائع ہو سکے۔ شیریں شیریں بھی کلکتہ سے مارچ 1972 میں خضر دانش کی ادارت میں نکلنا شروع ہوا۔ منفرد منفرد کلکتہ سے 1991ء میں شروع ہوا۔ اس کے مدیر سید ایاز احمد تھے ۔ طالب علم طالب علم کی اشاعت 1998 میں ہوئی اور عنبر شمیم اس کے مدیر تھے۔ ماہنامہ نیا کھلونا ماہنامہ نیا کھلونا کے چیف ایڈیٹر نوشاد مومن جیسے متحرک اور فعال ادیب و شاعر ہیں جو مژگاں جیسے وقیع مجلہ کے بھی مدیر ہیںاور ایڈیٹر خورشید جہاں صاحبہ ہیں۔یہ مشرقی ہند سے شائع ہونے والا بچوں کا واحد ماہنامہ ہے جو اپنے موضوعاتی تنوع اور مفید مواد کی وجہ سے بچوں میں بے حد مقبول ہے۔ اس کے خصوصی کالموں میں گوشہ دختراں ،باورچی خانہ، بیوٹی ٹپس وغیرہ اہم ہیں۔ نیا کھلونا میں وہ کچھ نئے تجربے کر رہے ہیں خاص طور پر ارو زبان کی قواعد اور گرامر کے تعلق سے ایک عمدہ تجربہ کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں امیر حمزہ ان کی مستقل معاونت فرما رہے ہیں۔ اس لئے امید ہے کہ یہ رسالہ بہت جلد اپنی الگ شناخت قائم کرنے میں کامیاب ہوگا۔ تمل ناڈ جیسی ریاست سے صرف ماہنامہ گلستاں اور باغ و بہار کے نام ملتے ہیں۔ گلستاں ’’گلستاں‘‘ محمد ذکریا ذکی کی ادارت میں شائع ہوا تھا۔ جس کے تقریباً گیارہ شمارے منظر عام پر آئے اس کے بعد یہ رسالہ بند ہوگیا۔ باغ و بہار باغ و بہار عمر فاروق کی ادارت میں نکلنا شروع ہوا۔ اس کی مدت حیات بھی بہت مختصر رہی۔ یعنی صرف ایک سال تک یہ رسالہ نکلتا رہا۔ یہ دونوں رسالے میل وشارم آر کاٹ سے نکلتے تھے۔ پنجاب جو کبھی اردو ادب کا گہوارہ تھا وہاں سے بچوں کا کوئی رسالہ تو شائع نہیں ہوتا مگر غیرمنقسم پنجاب نے ادبِ اطفال میں گراں قدر اضافہ کیا ہے۔ علامہ اقبال، کرشن چندر، تلوک چند محروم ، جگن ناتھ آزاد اور موجودہ دور میں رتن سنگھ، رینو بہل، کیول دھیر، اسلم حبیب، کلونت سنگھ، منصور عالم، سید کوثر علی شاہد جعفری، عمر فاروق، محمد نصیر رمضان، شکیل راوت، ڈاکٹر محمد ایوب خان اور سالک جمیل براڑ ادبِ اطفال کے اہم نام ہیں۔ گجرات سے بھی بچوں کے کسی رسالے کے شائع ہونے کی اطلاع نہیں ہے مگر وہاں بھی ادبِ اطفال میں کچھ اہم نام ہیں جنھیں فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اختر حسین اختر،احمد خاں اثر دو اہم نام ہیں جنھوں نے بچوں کے لئے عمدہ ادب تخلیق کیا ہے۔ ڈاکٹر صفیہ بانو شیخ نے گجرات میں ادبِ اطفال کے شاعر و ادیب (مشمولہ: ماہنامہ اردو دنیا نئی دہلی، نومبر،2020) میں ان دونوں کی تخلیقات پر گفتگو کی ہے۔ qqq کشمیر سے بچوں کا رسالہ تو شائع نہیں ہوتا لیکن وہاں ادبِ اطفال کا ایک بیش بہا ذخیرہ موجودہے۔ ارشاد آفاقی نے اپنے مضمون کشمیر میں ادبِ اطفال (مشمولہ: سہ ماہی فکر و تحقیق نئی دہلی،اپریل تا جون2020) میں اکبر جے پوری، سید شبیب رضوی، حسن اظہر، حمیدہ شاہ اختر، پرویز مانوس، روؤف راحت کے نام لکھے ہیں اور ان کی تخلیقات پر گفتگو بھی کی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کشمیر کے شاعروں نے بھی بچوں کے لئے عمدہ ادب تخلیق کیا ہے۔ جموں سے صرف ایک رسالہ کا نام ملتا ہے جو کندن لال ایم۔اے کی ادارت میں رتن کے نام سے شائع ہوتا تھا۔ اس کا سن اشاعت1932 ہے۔ راجستھان ایک ایسی ریاست ہے جہاں کے بہت سے علاقوں میں شعر و ادب کی ایک زریں تاریخ رہی ہے۔ ٹونک، اجمیر، جودھپور، بیکانیر، ناگور، ادے پور، جے پور، شخاوٹی ایسے مقامات ہیں جہاں ا ردو کی شمع روشن رہی ہے۔ وہاں مختلف اصناف ادب میں بہت اہم نام بھی ملتے ہیں مگر ادبِ اطفال کے ذیل میں زیادہ نام نہیں ہیں۔ مختار ٹونکی، عزیزاللہ شیرانی دو ایسے نام ہیں جو ادبِ اطفال کے حوالے سے بھی اپنی الگ شناخت رکھتے ہیں۔ کچھ اور نام ہو سکتے ہیں جن تک رسائی نہیں ہو پائی ہے۔ وہاں سے نخلستان جے پور، جرنل اردو ٹونک، استفسار اور دیگر رسائل نکلتے ہیں۔مگر وہاں سے بچوں کے کسی رسالے کی اشاعت کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ ہریانہ ، ہماچل پردیش،چھتیس گڑھ کچھ اور ریاستوں میں بھی بچوں کے ادیب تو ہیں مثلاً چھتیس گڑھ میں رونق جمال بچوں کے بہت معروف ادیب ہیں اور اُنھوں نے بہت اچھی کتابیں تحریر کی ہیں۔ ہماچل پردیش میں کرشن کمار طور بہت اہم شاعر ہیں۔ ساہتیہ اکادمی کا ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔ انھوں نے بھی بچوں کے لئے بہت اہم نظمیں لکھی ہیں۔ مگر ان ریاستوں میں بچوں کی صحافت پر توجہ نہیں دی گئی اس لئے وہاں سے شاید بچوں کے رسالے شائع نہیں ہوئے۔
ارود میں پولس آفیسر خلیل مامون کو ان کے شعری مجموعے ’آفاق کی طرف ‘ پر ساہتیہ اکادمی ایوارڈ دیا گیا تو پنجابی کے مشہور شاعر ماہر لسانیات من موہن سنگھ کو ان کے پنجابی ناول ’’نروان‘‘ پر 2013ء میں ساہتیہ اکادمی ایوارڈ دیا گیا۔ انہوں نے نروان کے علاوہ بہت سے شعری مجموعے اور تنقیدی کتابیں بھی لکھی ہیں۔ یہ انڈین پولیس سروس میں بہار کیڈر سے تھے جو چنڈی گ...
تلخیص میراجی ایک عظیم تخلیق کار کے ساتھ ساتھ ایک اچھے مترجم بھی تھے۔ انھوں نے عالمی ادبیات کے علاوہ سنسکرت شاعری کے بھی عمدہ ترجمے کیے ہیں۔ ترجمہ نگار کی حیثیت سے بھی ان کی شناخت مسلم ہے۔ انھوں نے اپنے تراجم کے ذریعے مشرقی تہذیبی روایات سے اپنے ذہنی انسلاکات کا ثبوت دیا ہے اور زیادہ تر ترجموں میں تہذیبی مقامیت کو پیش نظر رکھا ہے۔ ان کے ترجمے کے بارے میں یہ خیال عام ہے کہ انھوں نے اصل خیال کو مکرر تخلیق کیا ہے۔میراجی کے ترجمے کا ایک خاص مقصد تہذیبی اور ثقافتی مجادلے کو مکالمے میں بدلنا اور غلط فہمیوں اور بدگمانیوں کا سدباب کرنا تھا۔ میراجی کے تراجم کے حوالے سے تنقیدی حلقے میں گفتگو ہوتی رہی ہے لیکن ان کے تمام تراجم کے تعلق سے ایک مبسوط گفتگو کی ضرورت تھی۔ اس مضمون میں کوشش کی گئی ہے کہ میراجی کے تراجم کے مجموعے ’مشرق و مغرب کے نغمے‘ ،’خیمے کے آس پاس‘، ’نگار خانہ‘ کی روشنی میں میراجی کے تراجم کا مجموعی جائزہ لیا جائے ۔ کلیدی الفاظ میراجی، مشرق، مغرب، علامت پسندی، ہندو اساطیر، سنسکرت شاعری، چنڈی داس، امارو، ودّیاپتی، نگارخانہ، دامودرگپت، خیام، بھرتری ہری، تہذیبی مقامیت، ہندوستانی ثقافت، لسانی امتزاجیت، تصرف، آزادی، کٹنی متم، جمالیاتی متن، روحانیت، جنسیت، شرنگار شتک،فرانسا ولاں، طامس مور، بادلیر، میلارمے۔ —————— ترجمہ دیواروں کو توڑ کر نئے در بنانے کا عمل ہے اور یہی کائنات کی فکری وحدت اور مشترکہ انسانی وراثت کی تفہیم و تعبیر کا سب سے مضبوط وسیلہ ہے۔ ترجمہ ہی کے ذریعے تہذیبی مغائرت اور ثقافتی اجنبیت،یگانگت اور قربت میں بدل جاتی ہے اور عالمی احساس کی وحدت کا امکان بھی پیدا ہوتا ہے۔ ترجمہ ذہن و فکر کی تبدیلی کا بھی محرک ہوتا ہے اورتہذیبی اور ثقافتی تصادم کوتفاہم اور ترابط میں بدلنے کا ذریعہ بھی۔ شاید اسی وجہ سے زمانۂ قدیم سے ترجمے کی ایک مربوط اور مستحکم روایت رہی ہے اور دنیا کی بیشتر زبانوںمیں ترجمے ہوتے رہے ہیں۔ 1؎ دوسری اقوام و ملل کے افکار و اقدار سے آگہی کے لیے ترجمے ہی کو ایک زینہ بنایاگیا ہے۔ جیساکہ مغل شہزادہ داراشکوہ2؎ نے ’سر اکبر‘ کی صورت میں 52اپنشدوں کا ترجمہ کیا اور اسلام وہندومت کے مشترکہ عناصر کی جستجوکی۔بیت الحکمت بغداد میںترجمے کا سب سے عمدہ تجربہ کیا گیا اوردنیا کی مختلف زبانوںکی اہم کتابوں کے ترجمے کیے گئے۔حیرت کی بات یہ ہے کہ اس وقت کے بغداد میں سنسکرت سے عربی میں ترجمہ کرنے والوں کی کثیر تعداد تھی جن میں سے تقریباًسترہ مترجمین کا تعلق ہندوستان سے تھا۔3؎بیت الحکمت سے ہی منکہ،کنکہ،گودرہندی،ابن دہن ہندی،کلب رائے وغیرہ کا تعلق تھااورشاید سنسکرت کی کتابوں کے ترجموں کا اثر تھا کہ عربی شاعری میںنہ صرف ہندی کے الفاظ بلکہ افکار بھی شامل ہوگئے۔ ابوالعلا معری4؎ جیسا شاعر بھی ہندوستانی فکر سے اتنا متاثر ہواکہ اپنے اوپر گوشت خوری کو حرام کر لیا۔ جس کی طرف علامہ اقبال نے بھی اشارہ کیا ہے ؎ کہتے ہیں کبھی گوشت نہ کھاتا تھا معری پھل پھول پہ کرتا تھا ہمیشہ گزر اوقات اک دوست نے بھونا ہوا تیتر اسے بھیجا شاید کہ وہ شاطر اسی ترکیب سے ہو مات یہ خوان تر و تازہ معری نے جو دیکھا کہنے لگا وہ صاحب غفران و لزومات اے مرغ بیچارہ ذرا یہ تو بتا تو تیرا وہ گنہ کیا تھا یہ ہے جس کی مکافات؟5؎ اس طرح کی معاشرتی روشن خیالی اور علمی خرد افروزی ترجمے کے بغیرممکن ہی نہیں۔ترجمہ ہی سے کشادگیِ قلب و نظر پیدا ہوتی ہے۔اسی سے احساس کو افلاک اور تخیل کو نئی زمینیں ملتی ہیں۔ محمد ثناء اللہ ڈار6؎ المعروف بہ میراجی (1912-1949)کو اس حقیقت کا ادراک تھا اسی لیے انھوں نے تخلیق کے ساتھ ساتھ ترجمے سے بھی اپنا رشتہ جوڑے رکھا۔اسی سے ان اجنبی اور نامانوس جزیروں تک پہنچ گئے جہاں تک رسائی شاید آسان نہ ہوتی اور شاید ترجموں کی وجہ سے ہی ان کے تخیل اور تخلیق کو ایسے نئے آفاق ملے کہ دانشوروں کے لیے بھی میرا جی کے ذہن کا سراغ پانا مشکل ہو گیا۔ انھیں بھی سادیت پسند جنس زدہ،مجلوق اور اباحی شاعر کہا گیا۔ ان کی حقیقی ذات کو سمجھنے کی صحیح طور پرکوشش نہیں کی گئی۔انگریزی میں گیتا پٹیل نے میراجی کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے۔میراجی پر ان کی وقیع کتاب Lyrical Movements, Historical Hauntings on gender, colonialism and desire in Miraji's Urdu Poetry کے عنوان سے شائع ہوئی ہے۔ جس طرح میرتقی میر نے کہا تھاکہ ؎ سہل ہے میر کا سمجھنا کیا ہر سخن اس کا ایک مقام سے ہے یہی بات میرا جی کے حوالے سے بھی کہی جا سکتی ہے کہ سہل ہے میرا جی کا سمجھنا کیا۔میرا جی کی تخلیق کو سمجھنا مشکل سہی مگر ان کے ترجمے کی تفہیم بالکل دشوار نہیں ہے۔ ان کی تخلیق میں جتنی رمزیت،ابہام اوراشاریت ہے ان کے ترجمے میں اتنی ہی سلاست،سادگی اور شفافیت ہے۔ میرا جی کا ذہن منتشر تھا اور وہ بہت سی الجھنوں کا شکار تھے۔ اس کے باوجود انھوں نے ترجموں کے ذریعے تہذیبی انتشار کو دور کرنے کی کوشش کی اور اپنے الجھے ہوئے ذہن سے دنیا کو ایک مربوط اور منظم نظامِ فکر دیا۔ ان کے ترجموں کا مقصد ثقافتی اور تہذیبی مغائرت کو دور کرنا اور متناقض بیانیے میں مفاہمت کی ایک راہ تلاش کرنا تھا۔ ان کی ذات کئی ٹکڑوں اور خانوں میں منقسم تھی مگر انھوں نے مختلف تہذیبوں اور قوموں کے درمیان تقسیم اور تفریق کو ختم کرنے کی کوشش کی اور مشترکہ انسانی احساس کی شمع روشن کی۔ گلوبل گڈ ول اور بین تہذیبی یگانگت پر زور دیا اور تمام تہذیبی روایتوں اور بیانیوں کے امتزاج سے ایک مشترکہ انسانی کائنات کاتصوربھی پیش کیا۔ انگریزی ناول نگار اور شاعر Joseph Rudyard Kipling (30 دسمبر 1865۔ 18 جنوری 1936)کے اس خیال کواپنے ترجمے کے ذریعے مسترد کیاکہEast is east and west is west. and never the twain shall meet.۔میرا جی نے مشرق و مغرب کے تہذیبی اور تخلیقی بیانیے میں مشارکت کو تلاش کرکے مشرق ومغرب کے تخلیقی احساس کی یکسانیت سے بھی روشناس کرایا۔ میرا جی نے ترجموں کی کتاب ’مشرق و مغرب کے نغمے ‘(اکادمی پنجاب لاہور،1958)میں اسی مقصد کو پیشِ نظر رکھا ہے۔ اس مجموعے میں امریکہ، روس، فرانس، انگلستان، چین، کوریا، روم، جرمنی، جاپان، یونان اورہندوستان کے تخلیق کاروں کے ترجمے کیے ہیںاور اس کے ساتھ ساتھ ان شاعروں کا تنقیدی تعارف بھی کرایا ہے۔اس کتاب میںمشرق و مغرب کے ان حساس اور درّاک ذہنوں کا اجتماع اس بات کا ثبوت ہے کہ بہت سی متضاد اور متناقض چیزیں تخلیقی سطح پرایک ہو سکتی ہیں۔ احساس کی سطح پر ہم آہنگی یا اتحاد مفروضہ نہیں بلکہ حقیقت ہے کیونکہ مشرق و مغرب میں بعد القطبین کے باوجود جذبات اور خیالات کی سطح پر یکسانیت کا امکان ہے۔ایس اے مہدی نے اپنی کتاب Parallelism in english and urdu poemsمیں انگریزی اور اردو کے شعرا کے خیالات کی یکسانیت اور یکرنگی کے حوالے سے بڑی عمدہ گفتگو کی ہے۔7؎میرا جی نے جن شعرا کا انتخاب کیا ہے ان میں گو کہ جغرافیائی اور لسانی یکسانیت نہیں ہے مگر کہیں کہیں ایک نقطۂ اشتراک ضرور نظر آتا ہے۔ کلی یکسانیت تو ایک زبان کے شاعروں میں بھی نہیں مل سکتی مگر عمومی انسانی جذبات میں یکسانیت سے انکار بھی نہیں کیا جاسکتا، خاص طور پر عذاب اور خواب میں بڑی یکسانیت ملتی ہے کہ تمام دنیا کے انسانوں کے خواب اور دکھ درد ایک جیسے ہوتے ہیں اور شاعری بنیادی طور پر انسانی خوابوں اور دکھوں کاہی ترجمان ہوتی ہے۔ ’مشرق و مغرب کے نغمے‘ میں میراجی نے جن شاعروں کا انتخاب کیا ہے۔ ان میں بیشتر عالمی ادبیات میں امتیازی حیثیت کے حامل ہیں۔امریکہ کا ملک الشعرا والٹ وٹمن، روس کا ملک الشعرا پشکن، پندرہویں صدی کا عظیم فرانسیسی شاعر فرانساولاں، مغرب کا ایک مشرقی شاعر طامس مُور، انگلستان کا ملک الشعرا جان مینس فلڈ، انیسویں صدی کا عظیم فرانسیسی شاعر چارلس بادلیر، چنڈی داس، ایڈ گرایلن پو، لی پو، سیفو، سٹیفا نے میلارمے، امارو، کیٹولس، ڈویچ ایس لارنس، ہائینے اور دی برانٹی سسٹرس وغیرہ شامل ہیں۔ ان کے علاوہ میراجی نے کوریا کی قدیم شاعری کے تراجم بھی کیے ہیں جن میں لی چونگ، لی ان لو، پوئے پونگ، کواک کو، لی چان یون، پی وہانگ، پی کیو یو، لی سونگ ان، یول کوک وغیرہ شامل ہیں۔ میراجی نے بارہویں عیسوی کے جہاں گرد اورخانہ بدوش یوروپی طلبا کے لاطینی گیت کے ترجمے بھی کیے ہیں۔ میرا جی نے مشرقی اور مغربی طرزِ احساس کو سمجھنے کی پوری کوشش کی اور وہ صرف ایک ہی تہذیبی وفکری محور و مرکز میں محصور نہیں رہے۔ انھوں نے تنوع میںاس وحدت کی تلاش کی جو ان کا ذہنی مقصود و مطلوب تھا۔انھوں نے جہاں ملارمے، بودلیر اور پو سے اپنا ذہنی رشتہ جوڑا وہیں چنڈی داس، امارو، بھرتری ہری اور میرا بائی سے بھی۔ جہاں فرانسیسی علامت پسندی کوسراہاوہیں ہندو اساطیر و علامات پر بھی ان کی نظر رہی۔ ترجمے کے باب میں میرا جی نان کنفرمسٹ تھے، کسی نظریہ یاروشِ خاص کے اسیر نہیں رہے۔ میراجی نے جن مغربی شاعروں کے ترجمے کیے ہیں ان میں سے بیشتر کے ترجمے اردو میں بھی ہو چکے ہیںکہ اردو میں انگریزی سے ترجموں کی ایک طویل روایت رہی ہے۔ غلام مولا بخش قلق میرٹھی کے جواہر منظوم سے اس کا آغاز ہوتا ہے اور پھر مترجمین کی ایک بڑی تعداد سامنے آتی ہے جن میں بانکے بہاری لال (منتخب انگریزی نظموں کے منظوم تراجم، 1869)، نظم طباطبائی، ضامن کنتوری (ارمغان فرنگ)، دھرم سروپ (صدائے بازگشت)، عباس کاظمی (بہارِ انگلستان)، امیرچند بہار (نسیم مغرب)، سید شاکر علی جعفری (جام بہ جام)، شبنم گورکھپوری (بادۂ مغرب) کے نام بھی ہیں۔ڈاکٹر حسن الدین احمد نے ’ساز مغرب‘ کے سات حصوں میں681منظوم ترجمے شامل کیے ہیں جو مختلف رسائل وجرائد اور کتابوں میں شائع ہوئے۔ عالمی ادبیات وغیرہ کے ترجمے بہ کثرت ہوئے ہیں۔ بیشتر شہکار اردو میں ترجمہ ہو چکے ہیںخاص طور پر والٹ وِٹ مین، پشکن، بودلیئر— میں یہاں صرف میرا جی کے ان ترجموں پر زیادہ زور دینا چاہوں گا جو انھوں نے سنسکرت سے کیے ہیںخاص طور پر امارو۔ چنڈی داس اور ودیا پتی کے ترجمے اردو میں کم ہوئے ہیں اور ان سے اردو کا ایک بڑا طبقہ ناواقف ہے۔یہاں جملہ معترضہ کے طور پر یہ وضاحت ضروری ہے کہ اردو میں سنسکرت سے ترجمے کی ایک مستحکم روایت رہی ہے۔ رامائن اور بھگوت گیتا کے سب سے زیادہ ترجمے اردو میںہی ہوئے ہیں۔8؎ ویدوں اور اپنشدوں کے ترجموں کے علاوہ کوٹلیہ کی ارتھ شاستر،ہتوپدیش، کالی داس کی شکنتلا، کمارسنبھو، رگھوونش، مالویکا، بھبھوتی کی مالتی مدھو اور گیت گوبند وغیرہ کے بھی ترجمے ہو چکے ہیں۔ میرا جی نے ہند آریائی مزاج ہونے کی وجہ سے سنسکرت کے ان شاعروں کا انتخاب کیا اور ان اہم شعرا کا تعارف اردو حلقے سے کرایا اور ہماری قدیم تہذیبی اور ثقافتی حسیت سے بھی روشناس کرایا۔ دراصل سنسکرت کے ان ترجموں کے پیچھے میرا جی کا ایک خاص ذہن کار فرماتھا۔ وہ مشرقی تہذیبی روایات سے اپنے ذہنی انسلاکات کا ثبوت دینا چاہتے تھے اور ان میںوہ اپنے مابعدالطبعیاتی عشق اور جنسیت کا بھی جواز تلاش کر رہے تھے۔ قدیم سنسکرت ادب میں عشقیہ شاعری کی ایک مضبوط روایت رہی ہے۔ امارو بھی عشقیہ شاعری کا ایک بڑا نام رہا ہے۔Erotic love کے حوالے سے اس کی ایک الگ شناخت ہے۔یہی وجہ ہے کہ انگریزی میںAndrew Schellingنے ’امارو شتک‘ کاترجمہ Erotic love poems from india کے نام سے کیا ہے۔امارو کی پوری شاعری شرنگار رس سے بھری ہوئی ہے اس میں برہ اور ملن کی بڑی خوب صورت عکاسی کی گئی ہے۔ آنند وردھن نے بھی اس کی بڑی تعریف کی ہے۔میراجی لکھتے ہیں: ’’امارو شتک۔ امارو کی سو نظموں کو ہندوستان بلکہ دنیا کی عشقیہ شاعری میںایک خاص امتیاز حاصل ہے۔ امارو کی شاعری نے سنسکرت ادب میں پہلی بار اس حقیقت کو منوایا کہ صرف محبت ہی کو شاعری کا بنیادی موضوع بنا کر گونا گوں نغمے چھیڑے جاسکتے ہیں۔‘‘9؎ امارو کی کچھ نظموں کے ترجمے ملاحظہ ہوں ؎ جب سے تم چلی گئی ہو کسی نے مجھ سے تمہاری بات نہیں کی لیکن ہوا جب گزر رہی تھی تو میں نے تمہارا نام کہا اور ایک شخص مر رہا تھاتو اس کے سامنے بھی میں نے تمہارا نام لیا میری پیاری!اگر تم زندہ ہو تو کسی دن ہوا کا گزر تمہارے پاس سے ہوگا اور اگر تم مر چکی ہو تو اس شخص کی روح تمہیںبتا دے گی کہ مجھے تم اب بھی یاد ہو ’’میں کوئی نادان نہیں، میرے سامنے جھوٹ کہنا بیکار ہے، مجھے تمھارے سینے پر بیرن کے بوسوں کے نشان دکھائی دے رہے ہیں۔‘‘ لیکن میں بہت زور سے اُسے اپنے سینے سے بھینچتا ہوں تاکہ وہ نااندیشانہ نشان مٹ جائیں! اور وہ انھیں بھول جائے جب سے میں نے اس کے ہونٹوں کو پہلی بار چوما ہے، میری پیاس دُگنے زور سے بھڑک اٹھی ہے، لیکن اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں، اُن بوسوں میں ایک سلونا پن تھا! محبت کی خوشبوؤ! محبت کی مسکراہٹو! اے سورج کے جلال! اور اے تاروں بھری رات کی شوکت! موت کے مقابلے میں تم مجھے ہیچ نظر آتے ہو! لنکا کی لڑکیو! سارتھ کے تاڑ کے درختو! مار کی ندیو! کمل میں شاہدانے کے درختوں میں ہوا کے گیتو- میں تمھیں الوداع کہتا ہوں!10؎ اسی طرح انھوں نے میتھلی کے عظیم وشنو شاعر ودیا پتی11؎ کاترجمہ کیا ہے جس میں انھوں نے کرشن اور رادھا کی محبت کا احوال لکھا ہے۔ اس میں بھی ہجر و وصال کا بیان ہے۔ترجمے کے نمونے ملاحظہ ہوں ؎ کیسے سکھ پائے رادھا کا دکھیا،زرد شریر کام دیو کے چنچل ہاتھوں نے چھوڑے تھے تیر دورکسی بستی میں پہنچی، سپنوں کا تھا ساتھ اور پہلو میں کاہن تھے،ہاتھوں میں تھامے ہاتھ کالے پھولوں والے بھنورے، ان سے کہیو جائے رات دنا کا درد تمہارا اب تو سہا نہ جائے راجہ شیو جو لکشمی دیوی کا سرتاج کہائے میرے دکھ کو بس وہ جانے۔ودّیا پتی سنائے‘‘ رُک رُک کر وہ بول رہی تھی، شرم سے اس کی آنکھ جھکی تھی! لاج سے بات ہوئی کب پوری، لب پر آئی بات ادھوری! آج تھی اس کی چال انوکھی، اک پل مانی، اک پل روٹھی! بات سنی جب رنگ بھاؤ کی، زور سے موندیں آنکھیں اپنی! ایک جھلک میں اُس نے دیکھا، پریم کا ساگر آنکھوں میں تھا! جب دیکھا منہ چوم ہی لے گا، رُخ بدلا رادھا نے اپنا! چاند کنول کو گود میں لے کر، ڈوب گیا مستی میں یکسر! ہاتھ کمر پر دیکھا اپنی، ڈر کر چونکی، جھجکی، سمٹی! دھیان اچانک جی میں آیا، مال مدن کا چھن جائے گا! جب پوشاک پریشاں دیکھی، دونوں ہاتھ سے گات چھپائی! سب سنگار دکھائی دیتے، ہیرے موتی، ہار اور گجرے، اس پر بھی پوشاک سنبھالے! سیج سے سندر ڈر کر بھاگے، سن کے کوئی کیا جانے، سمجھے؟12؎ میرا جی نے سہجیہ فرقے کے ترجمان اور رادھے شیام کے نغمہ خوان چنڈی داس13؎ کے گیتوں کا بھی ترجمہ کیا جس کا عقیدہ تھا کہ جنسی محبت ہی سے خدا کی طرف دھیان لگایا جا سکتا ہے۔ چنڈی داس کواپنی محبوبہ رامی دھوبن ( رامونی)سے بڑی محبت تھی۔چنڈی داس مندر کا پروہت تھا اور برہمن بھی۔ایک دھوبن سے محبت کرنے کے جرم میں کفارہ ادا کرنے کے لیے اسے برادری سے نکال دیا گیا۔ لیکن رامی کی محبت اس کے دل میں اور بڑھتی گئی۔اس نے رامی کو ساتھ لے کر وطن چھوڑ دیا۔ وہ رامی کے لیے عشقیہ گیت لکھتا تھا،اس لیے رادھا کرشن کے استعارہ سے اپنے ذاتی تجربہ کو گیتوںمیں ڈھالتا تھا۔ بنگالی چنڈی داس سے میراجی کی دل چسپی کی ایک وجہ شایدبنگال کی لڑکی، ایف سی کالج لاہور کی طالبہ میرا سین سے محبت رہی ہوگی اسی وجہ سے میرا جی نے چنڈی داس کا انتخاب کیا ہے کہ دونوں کے عشق کی داستان تقریباً ایک جیسی ہے۔ چنڈی داس کے گیت کے ترجموں سے اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ؎ اُس کی آنکھوں میں ہے بس شیام کی موہن مورت اس کی آنکھوں میں نہیں اور کوئی بھی صورت کان میں نام اگر ہے تو وہ اک شام کا ہے دل میں بھی دھیان اگر ہے تو اسی نام کا ہے اس نے پہنا ہے لباس اپنے بدن پر کالا نیلے پھولوں سے بنائی ہے اک اچھی مالا! اس کے سینے کی سجاوٹ کے لیے ہے نیلم! اور وہ کہتی ہے مری سانولی، سجنی، پیتم! ’’آ! بس آجا، مرے آغوش میں آجا سجنی! انگ سے اپنے مرا انگ لگا جا سجنی!‘‘ وہ تو اک اونچے گھرانے کی ہے سندر بیٹی ہر گھڑی دل ہے اور اس دل میں ہے اک بے چینی! اُس کا دل موہ لیا تم نے، تم ہی نے مادھو! یاد کرتی ہے وہ ہر وقت، ہمیشہ تم کو دور ہوتا ہی نہیں دھیان تمھارا موہن! دل میں ہے دھیان ہر اک آن تمھارا موہن! دیکھو، دیکھو، وہ جو صورت تھی کنول کی صورت اب وہ سنولا گئی، مرجھاگئی موہن مورت اس کی آنکھوں سے بہی آتی ہے انسون دھارا اور ان آنسوؤں سے بہہ گیا کاجل سارا اُس کے بس ہی میں نہیں کیسے بھلائے تم کو؟ رحم کی بات ہے، رحم آئے تو آئے تم کو نیند سے خالی ہیں اب، خالی ہیں اس کی راتیں دکھ سے بھرپور ہیں، دکھ والی ہیں اُس کی راتیں شیام سندر! ارے ہاں شام! ذرا سچ کہنا بس میں ہے، بس میں تمھارے ہی تو دارو اُس کا اور اب سن لو کہ یوں کہتا ہے چنڈی داسا اس طرح چین نہ پائے گا جو دل ہے پیاسا چند ہی دن میں بس اب ہوگا تمھارا بندھن پاس آجائیں گے اور تم سے ملیں گے موہن!14؎ ایک نثری ترجمہ بھی دیکھیے: ’’اے میری محبوب! میں نے تیرے قدموں میں آکر پناہ لی ہے، کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ وہ میرے جلتے ہوئے دل کو ٹھنڈک پہنچائیں گے۔ میں تیرے اس حسن کا پجاری ہوں جس سے مقدس دوشیزگی ابل رہی ہے اور جو کسی نفسانی خواہش کو برانگیختہ نہیں کرتا۔ جب میں تجھے نہیں دیکھتا تو میرا دل بے چین رہتا ہے اور جب میں تجھے دیکھ لیتا ہوں تو میرے دل کو ٹھنڈک پہنچتی ہے۔ اے دھوبن! اے میری محبوبہ تو تو میرے لیے ایسے ہے جیسے بے بس بچوں کے لیے ان کے ماں باپ! برہمن دن میں تین بار پوجا کرتا ہے، اسی طرح میں تجھے پوجتا ہوں۔ تو میرے لیے اس گائتری کے مانند مقدس ہے جس سے ویدوں کی تخلیق ہوئی۔ میں تجھے سرسوتی دیوی سمجھتا ہوں جو گیتوں کو تحریک دیتی ہے۔ تو تو میرے لیے پاربتی دیوی ہے— تو میرے گلے کا ہار ہے— تو میرے لیے آکاش بھی ہے اور دھرتی بھی۔ تو ہی میری پاتال ہے اور تو ہی میرا پربت— نہیں نہیں تو تو میری کائنات ہے۔ تو میری آنکھوں کی پتلی ہے۔ تیرے بغیر میرے لیے ہر چیز تاریکی کے مانند ہے— میری آنکھیں تو تجھے دیکھنے ہی سے تسکین پاتی ہیں۔ جس روز تیرا چاند سا چہرہ نہیں دیکھتا میں ایک بے جان انسان کی مانند ہوتا ہوں۔ میں تو ایک پل کے لیے بھی تیرے حسن و رعنائی کو نہیں بھول سکتا۔ مجھے بتا دے کہ میں کس طرح تیری نظرِ کرم کا مستحق بنوں۔تو ہی میرا منتر ہے اور تو ہی میری پرارتھناؤں کا نچوڑ۔ تیرے دوشیزہ حسن کے لیے میرے دل میں جو چاہت ہے اس میں جسمانی خواہش کا کوئی بھی عنصر نہیں ہے۔ چنڈی داس کہتا ہے کہ دھوبن کی محبت پارس پتھر سے پرکھا ہوا سچا سونا ہے۔‘‘15؎ مشرقیت سے میرا جی کا لگائو انہی شاعروں پر ختم نہیں ہو جاتا بلکہ انھوں نے اپنے ہند آریائی مزاج اور ہندو اساطیر اور علامات سے شیفتگی کا ثبوت دامودر گپت کی کتاب’کٹنی متم‘‘ سے بھی دیا ہے جسے شمبھلی مٹم بھی کہا جاتاہے۔یہ’ نگار خانہ‘16؎کے عنوان سے مکتبہ جدید لاہور سے 1905میں شائع ہوا۔یہ کلاسکی سنسکرت ادب کا ایک شہکار ہے۔ واتسائن کے کاما سوتر کی طرح ایک Erotic Text ہے۔ اس کا مصنف دامودر گپت ہے جس کے بارے میں کلہن نے ’راج ترنگنی‘ میں لکھا ہے کہ نویں صدی میں کشمیر کے راجا جیاپیداونیا یادتیاکے دربار میں ایک اعلا منصب پر فائز تھا۔ کشمیر کے اس راجا نے 31سال تک حکومت کی۔اس کتاب میں دامودر نے اپنے ذاتی مشاہدات پیش کیے ہیںاور شاہی دربار کی زندگی کی برہنگی کوبے نقاب کیاہے۔ بنیادی طور پر اس کتاب کا تعلق Art of seductionسے ہے۔ اس کا مرکزی کردار مالتی ہے جو سرو گن سمپن ہے مگر دولت مند نوجوانوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں ناکام رہتی ہے۔اس لیے ایک تجربہ کار کٹنی وکرالا کے پاس جاتی ہے اور اس سے مردوں کے رجھا نے کا گر سیکھتی ہے۔ وکرالا اپنے تجربے کی روشنی میں مالتی کودام الفت میں پھنسانے اور مردوں کے شہوانی جذبات کو برانگیختہ کرنے کے سارے حربے بتاتی ہے۔اس کتاب میں انگ ودیا بھی ہے اور شریر وگیان بھی، رتی چکر بھی ہے اور سم رت بھی۔ مردوں کو اپنے دامِ حسن میں پھنسانے کے سارے حربے اس کتاب میں بیان کیے گئے ہیں۔لیکن یہ کتاب صرف شہوانی جذبات کو بر انگیختہ یارجھانے کے طریقوں پر ہی مشتمل نہیں ہے بلکہ یہ نویں صدی کے ہندوستان کی سماجی، سیاسی، ثقافتی دستاویز بھی ہے۔ اس میں اعلا سوسائٹی کے اخلاقی زوال اور انحطاط Moral Depravity کی کہانی بیان کی گئی ہے۔ اسے زیادہ تر لوگوں نے ایک شہوانی متن کے طور پر دیکھا ہے مگر حقیقت میں ایک طوائف کے ذریعے اس وقت کے ہندوستانی سماج کی مکمل تصویر پیش کی گئی ہے۔ اے ایم شاستری نے اپنی کتاب Seen in the Kuttanimata of Damodara Gupta India as میں اس کتاب کا تنقیدی محاکمہ کرتے ہوئے اس وقت کی پولیٹکل تھیوری، وشنو ازم،عبادات، اعتقادات، خاندان، شادی،عورت کی حیثیت، رتبہ، قحبگی، بدکاری، ملبوسات، زیورات، آرائشِ جمال، مشروبات،مقامات غرض کہ معاشرے کے ہر پہلو کا ذکرکیا ہے اور یہ عجیب بات ہے کہ دامودر گپت نے اس وقت کے سماج کی عکاسی کرتے ہوئے بہو جنیPolygamyیعنی کثرت ازدواج کا بھی ذکر کیا ہے۔اس کہانی کا کردار مالتی کہتی ہے کہ برسات کی رات میں اپنے محبوب سے مل نہیں پائی کہ وہ اپنی بیبیوں میں مصروف تھا اور اس نے یہ بھی بتایا کہ اس وقت کی ہزاروں عورتیں ایک ہی شخص میں دل چسپی رکھتی تھیں۔ دامودر گپت نے اشاروں اشاروں میں یہ بھی بتا دیا کہ اس وقت کے کشمیر میں Meat Dite رائج تھی، وشنو کے پیروکار بھی ممسا رس پیتے تھے۔ مرد وںاور عورتوں میں شراب نوشی عام تھی، طوائفیں جنسی عمل کے بعد تھکان دور کرنے کے لیے اس وقت کا لحمینہ استعمال کرتی تھیں۔اس کتاب میں کئی ٹوپوگرافکل ریفرینس بھی ہیں۔بنارس،پاٹلی پترا اور راجستھان کے ابو کا اس کتاب میں خاص طور سے ذکر آیا ہے۔ اس کہانی کا لوکیشن یا محل وقوع بنارس ہے جو مقدس و متبرک اسطوری شہر کہلاتا ہے جہاں انسانوں کو مکتی ملتی ہے۔ دامودر نے اس نگری کابہت خوبصورت منظر کھینچا ہے۔ جس کا ترجمہ بہت ہی خوب صورت اور سلیس انداز میں میرا جی نے کیا ہے: ’’کاشی نگری دھرتی کے ماتھے کا جھومر ہے، بھلے دنوں کی کون سی بات ہے جو یہاں نہیں، یہاں کے ہر باسی کی آنکھیں اپنی مکتی کی طرف لگی ہوئی ہیںپھر اس نگری میں وہ لوگ بھی رہتے ہیں جن کے دل کامنا سے بھرپور ہیں اور جن کی روحوں پر جسموں کا پھندا پڑا ہوا ہے اور جنھیں جسمانی خوشیوں کی کھوج ہے اور اس نگری کی ہر منگلا مکھی یوں سمجھو جیسے شیو کا روپ دھارے ہوئے ہے۔یہاں کی ہوا پھولوں بھری چوٹیوں سے بھری ہوئی ہے،مالتی اسی کاشی نگری کی رہنے والی ہے۔جب یہ نوخیز نو عمر طوائف جہاںدیدہ طوائف وکرالا کے گھر جاتی ہے تو وکرالا اسے مردوں کورجھانے کے گر سکھاتے ہوئے بتاتی ہے : ’’دیوتائوں کی آگیا سے اب بھی تیری کمر نازک ہوتے ہوئے بھی بوجھل سے بوجھل مردوں کو پریم کے دسویں دوار تک پہنچا سکتی ہے جہاں موت کی دیوی براجمان ہے۔ اب بھی تیری ناف کے نیچے بالوں کی ہر لکیر کام دیو کی کمان کی چلے کی طرح جھکائو کھائے ہوئے اچوک تیر چلا رہی ہے۔ اب بھی تیرے بڑے بڑے چوڑے چکلے کولہوں کی من موہنی وادی گھلے ملے رنگوں کے روپہلے اور سنہرے چری ہار کی طرح مردوں کے دلوں کو لبھا تی ہے۔‘‘17؎ ’’اس دھرتی پر کوئی ایسا ہے جس کے دل میں تنوں کی سی سنہری رانوں کی کامنا نہ جاگ پائے کس کے من میں اس پیڑ کی چاہ جنم نہ لے گی، یہ پیڑ تو جوانی کی چاہت کے پھل ہی کے لیے بنایا گیا تھا۔ تیری رانیں ہاتھی کی سونڈ کی طرح ہیں میری پیاری، میری سندری۔اب بھی تیری رانیں دہرے ڈنٹھلوں کے ایسی ہیں اورہر کسی کے دل کو موہ لیتی ہیں۔کون ایسا ماں کا جایا ہے جو ایسے استھان پر پیاس بجھانے نہ آئے ‘‘18؎ کٹنی مٹم میں جمالیاتی پیکر تراشی بھی ہے۔ جسمانی اعضا ومفاتن کا بیان بھی ہے۔ میرا جی نے اس کتاب کے جمالیاتی متن میں ڈوب کر ترجمہ کیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ ترجمہ نہیں بلکہ مکرر تخلیق ہے۔ ایک قدیم سنسکرت شہکار کو اتنے خوبصورت انداز میں اردو کا پیرہن عطا کرنا یقینا ان کا کمال ہے۔ میرا جی نے شاید اپنے جنسیاتی ذوق و شوق کی وجہ سے اس متن کا انتخاب کیا ہوگا لیکن ایسا نہیں ہے بلکہ میرا جی نے اس کی وضاحت کی ہے کہ’’ اس کا مقصد لذت کوشی نہیں بلکہ قدیم ہندوستان کے گھنائونے چہرے کی نقاب کشائی ہے۔‘‘19؎ وہ یہ بھی لکھتے ہیںکہ : ’’دامودر گپت کی پیروی میں آج ہم ایسی چیزیں ہر گز نہ لکھیں گے لیکن ایسی چیزیں پڑھیں گے ضرور تا کہ ہماری دنیا میں وہ ماحول ہی نہ رہنے پائے جو محض لذت کو حیات بنا دیتا ہے۔‘‘ دامودر گپت نے اس کتاب میں جس طرح روحانیت اور جنسیت کے امتزاج کے ذریعے معاشرتی تضادات (Contradictions) کو واضح کیا ہے وہ آج بھی ایک معاشرتی حقیقت ہے۔ آج کے عہد میں Art of seductionپر کتابیں لکھی جا رہی ہیں Robert Greeneکی کتاب The Art of Seductionبیسٹ سیلر مانی جاتی ہے اور نہ صرف مرد بلکہ خواتین بھی اس موضوع پر کتابیں تحریر کر رہی ہیں۔ سیما آنند کی کتاب Art of Seductionاس باب میںقابل ذکر ہے۔برطانیہ کی خاتون ناول نگار Erika Leonardجو اپنے قلمی نام E.L.Jamesسے مشہور ہے۔اس نے Fifty shades of greyجیسا اروٹک ناول لکھاہے جو بیسٹ سیلر میں شمار کیاجاتاہے۔ دامودر گپت نے جس موضوع کا انتخاب کیا تھا وہ آج بھی زندہ و تابندہ ہے۔ اسی لیے میراجی کی ترجمہ کردہ کتاب ’’نگار خانہ ‘‘پر سعادت حسن منٹو نے لکھتے ہوئے کہا تھا : ’’چکلوں کا لین دین بنیادی طور پر ایک ساہی رہتا ہے۔اس میں دوسری منڈیوں کے لین دین کی سی تبدیلیاں پیدا نہیں ہوتیں مرد کی فطرت میں آج ہم کیا تبدیلی محسوس کرتے ہیں کوئی بھی نہیں۔ اس کا لباس بدل گیا ہے، اس کی وضع قطع بدل گئی ہے مگر جب وہ عورت کے پاس جاتا ہے تو وہ وہی مرد ہوتا ہے جو آج سے صدیوں پہلے تھا۔ عورت کو حاصل کرنے کے طریقے بھی اس کے وہی پرانے ہیں۔مرد نے جنسی لحاظ سے کوئی انقلاب انگیز ترقی نہیں کی معدے اور جنس کے معاملے میں جیسا وہ پہلے تھا اب بھی ویسا ہی ہے۔ ‘‘20؎ منٹو نے یہ بھی لکھا : ’’عورت خواہ بازاری ہو یا گھریلو خود کو اتنا نہیں جانتی جتنا کہ مرد اس کو جانتا ہے یہی وجہ ہے کہ عورت آج تک اپنے متعلق حقیقت نگاری نہیں کر سکی۔ اس کے متعلق اگر کوئی انکشاف کرے گا تو مرد ہی کرے گا‘‘21؎ اور حقیقت یہی ہے کہ دامودر گپت نے اپنی کتاب ’’کٹنی متم‘‘ میں عورتوں سے متعلق نئے انکشافات کیے ہیں جو آج بھی اتنے ہی سچ ہیں جو صدیوں پہلے تھے۔ میرا جی نے دو ہزار سال پرانی اتنی اہم کتاب کا ترجمہ انگریزی سے کیا ہے۔ اگر انھوں نے اردو میں ترجمہ نہ کیا ہوتا تو اردو طبقہ ایک شہکار فن پارے سے محروم ہوجاتا۔ دامودر گپت کی یہ کتاب شانتی نتھ مندر بھنڈار میں تھی اس کو از سر نو ایک مغربی اسکالر ڈاکٹر پٹرسن (Peterson) نے 1883 میں دریافت کیا۔ جے پور کے پنڈت درگا پرساد جی نے اس کے دو نسخے دریافت کر کے اسے 1887 میں شائع کروایا۔ اردو حلقے کے لیے یہ بیش قیمتی تحفہ تھا اردو میں نیاز فتح پوری نے ترغیباتِ جنسی کے نام سے ہیولاک ایلس کی ایک کتاب کا ترجمہ کیا ہے مگر دامودر گپت کی بات ہی الگ ہے۔یہ کتاب مشرق کی رومانی اور جنسی ذہنیت کی پوری تصویر ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ میرا جی نے کس انگریزی کتاب سے اس کا ترجمہ کیا ہے تو ڈاکٹر رشید امجد کا خیال ہے کہ یہ ایک انگریزی انتھولوجی میں شامل تھی جس کا نام تھا Romances of the eastجب کہ ناصر عباس نیر کا کہنا ہے کہ یہ پی پی ماتھرس کے ترجمے کا ترجمہ ہے۔بہر حال اس بحث سے قطع نظر یہ ایک اچھا ترجمہ ہے جس سے اس وقت کی خواتین کی حالتِ زار کاپتہ چلتا ہے اوریہ بھی احساس ہوتا ہے کہ اس عہد میں بیویوں سے زیادہ طوائفوں کی اہمیت تھی۔ جو معاشرے میں ایک آدرش بن گئی تھی۔ یہ کتاب ہدایت نامۂ جنس ہے جس کے تعلق سے بہت سی کتابیں ہر زبان میں لکھی جا چکی ہیں۔خاص طورپر ’لذت النسا‘ جیسی کتابیں اب عام ہیں۔ارتھ شاستر کی طرح کام شاستر ہمارے معاشرے کا ایک اہم موضوع رہا ہے۔ قدیم زمانے میں مذہب،عشق اور جنس میں کوئی تضاد نہیں تھا۔یہ کتاب اس کا بھی مظہرہے۔ میرا جی نے مشرقی شعریات اور جمالیات سے اپنی گہری دل چسپی کا ثبوت دیتے ہوئے بھرتری ہری کے شتکوں کا ترجمہ بھی کیاہے۔ جو یوگیوں کے سر تاج تھے اور جنھیں سنسکرت کے تمام شاستروں پر عبور تھا۔یہ وہی بھرتری ہری ہیں جن کے ایک شعر کا ترجمہ علامہ اقبال کے ’’بالِ جبریل ‘‘کے سر نامے پر ہے ؎ ’’پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر علامہ اقبال نے فلک زحل پر ان سے ملاقات کی اور رومی نے ان کا یوں تعارف کرایا آں نوا پردازِ ہندی را نگر شبنم از فیضِ نگاہ او گہر بھرتری ہری کا نیتی شتک بھی ہے اور شرنگار شتک بھی، ویراگیہ شتک بھی۔ بھرتری ہری سنسکرت کا اتنا اہم شاعر ہے کہ ڈسکن اسکارٹ، جان بوغ، شری اربندو گھوش اور باربرا اسٹولر ملر نے انگریزی میں ان کاترجمہ کیا ہے۔اس کے علاوہ ریاضی کے پروفیسر ڈی ڈی کوشمبی نے بھی سنسکرت کا سارا کلام انگریزی میں منتقل کر دیا ہے۔اردو میں ’جذبات بھرتری ہری‘ کے عنوان سے راجستھان کے اسسٹنٹ کمشنر جے کرشن چودھری ایم اے ایل ایل بی نے تقریباً 85 قطعات کا ترجمہ کیا ہے۔ یوسف ناظم نے ’ارمغانِ سنسکرت بھرتری ہری اردو میں‘ کے عنوان سے منظوم ترجمہ کیا ہے اور امتیاز الدین نے بھرتری ہری کاترجمہ ’شاعر اعظم: بھرتری ہری‘ کے عنوان سے کیا ہے۔ یہ کتاب اترپردیش اردو اکادمی لکھنؤ سے 1983 میں شائع ہوئی۔ عبدالستار دلوی نے بھی ترجمہ کیا ہے۔ اثر لکھنوی نے 5 اشلوکوں کا ترجمہ کیا ہے تو تلوک چند محروم نے 10 اشلوکوں کا ترجمہ کیا ہے۔ ساحر سنامی نے شرنگار شتک اور ویراگ شتک کا منظوم اردو ترجمہ کیا ہے جو ’گل صد رنگ‘ حصہ دوم میں شامل ہے۔پروفیسر صادق نے بھرتری ہری کے پہلے اردو مترجم بابو گوری شنکر لال اختر، رگھوویندر راؤ جذب، اوررگھوناتھ گھئی کا بھی ذکر کیا ہے۔22؎ اس طرح دیکھا جائے تو بھر تری ہری اردو والوں کے لیے اجنبی نہیں ہیں۔میرا جی نے بھی بھرتری ہری کے شتکوں کا ترجمہ کیا ہے اس ترجمے کی وجہ بھرتری ہری سے میرا جی کی ذہنی مناسبت بھی ہو سکتی ہے کہ بھرتری نے بھی محبت میں دھوکے کھائے، معشوق فریبی کے شکار ہوئے اور اسی لیے راج پاٹ چھوڑ کر جنگل کی راہ لی۔ بھرتری کو لگا کہ اس دنیا میں ہر شخص خلوت کا سودائی اور لذت کا شیدائی ہے یہ۔ کہا جاتا ہے کہ راجہ بھرتری ہری کو رانی پِنگلا سے عشق تھا۔ اس نے رانی پنگلا کو امرپھل دیا تو رانی نے سیناپتی کو دے دیا جس پر وہ فریفتہ تھی۔ سیناپتی نے اپنی معشوقہ راج نرتکی کو وہ امر پھل دے دیا۔ راج نرتکی سیناپتی کے سائیس سے پیارکرتی تھی، اس نے وہ امر پھل سائیس کو دے دیا۔ سائیس نے سوچا کہ یہ امر پھل میرے کس کام کا۔ اس نے راجہ بھرتری ہری کو دے دیا۔ یہ دیکھ کر راجہ کا دماغ چکرا گیا اور اس کی سمجھ میں آگیا کہ یہ عشق و محبت کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ ایک طرح سے دھوکہ ہے۔ تبھی سے اس نے جنگل کی راہ لے لی۔ میراجی نے بھرتری ہری کے حوالے سے دنیا کو محبت کی شاعری کا اہم نمونہ دیا ہے۔ بھرتری ہری واقعی رومان اور محبت کے شاعر ہیں۔ شرنگار شتک ان کی عشقیہ شاعری کا خوبصورت نمونہ ہے۔ یہ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں ؎ دیدنی ہے بدن کا حسن و جمال اس کا مکھڑا ہے چندرما کی مثال بھونروں کی طرح بال گال کمل چھاتیوں میں ہے ہاتھیوں کا جلال زندگی کا لطف ہے گر زندگی کا جوش ہو یہ تقاضائے جوانی ہے تو مدہوش ہو یا اکیلے میں بہت کم سن سے ہم آغوش ہو یا کسی جنگل میں جاکر بربط خاموش ہو پہلے تو نہیں نہیں سے تھوڑا اٹھلائے پھر سست بدن گود میں آنے سے لجائے پھر خواہش وصل سے وہ ہوکر سرشار دریائے محبت میں مزے لے کے نہائے (ترجمہ: امتیاز الدین) میراجی کے ترجمے کا ایک نمونہ ملاحظہ فرمائیے: ’’یہ نازنین کون ہے جس سے مزے لوٹ کر اسے پھر چھوڑ دیا گیا ہے اور جو بدن کے پسینے سے چمٹے ہوئے کپڑوں اور ڈانواں ڈول نگاہوں کو لیے صبح سویرے کسی ڈری ہوئی بد گمان ہرنی کی طرح ادھر ادھر پھرتی ہے۔ ‘‘ میراجی نے ترجمے میں سادگی اور سلاست کا خیال رکھا ہے اور مفہوم کی بڑی خوبصورت ادائیگی کی ہے۔ عمر خیام23؎ سے بھی شایدمیرا جی کی ایک ذہنی مناسبت تھی کہ خیام کو مے اور معشوق کا شاعر سمجھا جاتا ہے جب کہ خیام ایک مہندس اور ہیئت داں تھا۔ ماہر فلکیات مگر اہل مغر ب نے خمریات کی وجہ سے اس کی خوب پذیرائی کی۔ ڈاکٹر تھا مس ہائڈ، مسٹر وان ہیمر، ولفرڈ ہاکسن اور فٹز جرالڈ (Edward J. Fitzerald) 24؎نے اس کے اتنے خوب صورت ترجمے کیے کہ مغرب میں وہ عوام و خواص کا مقبول شاعربن گیا۔اس کی رباعیات کے مصور ایڈیشن شائع ہوئے۔ اس کے نام پربرطانیہ میں لٹریری سوسائٹی قائم کی گئی۔ اہل مغرب کی قدر دانی کے بعد اہل مشرق نے بھی ان پر توجہ کی۔ رباعیاتِ خیام کے ترجمے: جرمن، فرانسیسی، روسی اور دیگر زبانوں میں ہوئے۔ ضیاء احمد لکھتے ہیں: ’’ممالک فرنگ میں جن بے شمار مستشرقین نے خیام کی شاعری پر قلم اٹھایا، مبسوط شرحیں اور مقالے لکھے اور تذکرہ و تنقید کا فرض انجام دیا ان میں ٹامس ہائڈ، پروفیسر کریشٹن زن، ایم ایچ بیسٹسن، موسیو والن ٹن زوکوفکی، مسٹر راس ڈاکٹر فریڈرک روزن، این ایچ، این ایچ ڈول اور مسز کیڈل کے نام خاص طو رپر قابل ذکر ہیں۔‘‘25؎ اردو میں خیام کی رباعیات کے بہت سے ترجمے ہوئے۔ سب سے پہلا ترجمہ راجہ مکھن لال26؎ شاہجہاںپوری حیدر آباد کا ’نذر خیام‘ کے نام سے 1958 میںشائع ہو ا۔ حضرت افسر الشعراء آغا شاعر قزلباش دہلوی نے ’’خم کدہ خیام ‘‘ (شیخ مبارک علی تاجر کتب لاہور، 1927) کے نام سے ترجمہ کیا۔ ان کے علاوہ سید کاظم علی شوکت بلگرامی نے ’’مئے دو آتشہ‘‘27؎ (1932)۔ علامہ اسرار حسن خان شاہجہاں پوری نے ’بادۂ خیامِ ‘، میر ولی اللہ بی اے، ایل ایل بی نے ’کاس الکرام‘ اور عادل اسیر دہلوی نے ’’نغمۂ خیام ‘‘ کے نام سے ترجمے کیے۔ان کے علاوہ مولوی سید محمد لائق حسین قوی امروہوی مالک و ایڈیٹر سوز و ساز دہلی کا تاج الکلام (1924) مولوی حافظ جلال الدین جعفری زین الدین مدرس اوّل عربی و فارسی گورنمنٹ انٹرمیڈیٹ کالج الہ آباد کا رباعیاتِ حکیم عمر خیام ،( مطبع انوارِ احمدی الہ آباد)، خیام الہند پروفیسر واقف لیکچردیال سنگھ کالج دلی وغیرہ نے اس کے ترجمے کیے۔ڈاکٹر عبدالرشید اعظمی (قومی اردو کونسل) نے سنہ 2007 میں فٹرز جیرالڈ کے انگریزی متن کو بنیاد بنا کر خیام کی 110 رباعیوں کا نثری نظم میں ترجمہ کیا جس کی اشاعت ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دلی نے کی۔ اس کے متوازی فٹز جیرالڈ کا اصل انگریزی متن بھی درج ہے۔ ہندی میں ہری ونش رائے بچن نے ’مدھوشالا‘ کے عنوان سے اس کا ترجمہ کیا تو انگریزی میں سوامی گووند تیرتھ نے 'The Nector of Grace' کے عنوان سے ترجمہ کیا ہے۔بیدار بخت نے اپنے مضمون ’خیام کے ترجموں پر ایک نظر‘28؎میں تمام تراجم کا جائزہ لیا ہے جن میں فٹز جرالڈ، پرم ہنس یوگانند اور رابرٹ گلیوز، ایڈورڈ ہنری ون فیلڈ، رچرڈ لہ گالی این، جان چارلس ایڈورڈ بُو اِن، پیٹرایوری، جان ہیتھ سٹبز وغیرہ کے انگریزی ترجموں کا جہاں ذکر کیا ہے وہیں اردو ترجموں کے حوالے سے انھوں نے راجہ مکھن لال، قزلباش دہلوی، سید یعقوب الحسن واقف مراد آبادی، خواجہ محمد امیر صبا اکبرآبادی، عبدالحمید عدم، غلام دستگیر شہاب، عصمت جاوید، عادل اسیر دہلوی، محشر نقوی کے علاوہ میراجی کے ترجموں کا بھی ذکر کیا ہے۔ اس کے حوالے سے وہ لکھتے ہیں کہ : ’’میراجی اپنے کچھ مسودے اخترالایمان کے پاس چھوڑ گئے تھے جن میں سے ایک خیام کی رباعیوں کے ترجمے کا تھا۔ اس مسودے کے لیے میراجی نے فٹز جرالڈ کے ترجموں کے پیپر کتاب کا استعمال کیا تھا جس کے ایک صفحے پر انگریزی ترجمہ تھا اور سامنے والے صفحے پر اوپر کی طرف خیام کی فارسی رباعی اور پرچے پر میراجی نے اپنے ہاتھ سے لکھ کر چپکائی ہوئی تھی اور نیچے اپنا ترجمہ بھی اپنے ہاتھ سے لکھ دیا تھا۔ یہ مسودہ اخترالایمان سے مغنی تبسم لے گئے تھے اب خدا جانے یہ اصل مسودہ کہاں ہے؟ مگر میں نے اخترالایمان کی اجازت سے اس کا ایک عکس اپنے پاس محفوظ کرلیا تھا— اپنے دستور کے مطابق میرا جی نے اپنی تحریر کے ہر صفحے کی پیشانی پر سنسکرت میں اوم لکھ دیا ہے۔ میراجی کے خیام کی بتیس رباعیوں کے ترجمے کتابی شکل میں ’خیمے کے آس پاس‘ کے عنوان سے فٹز جرالڈ کے ترجموں اور جیلانی کامران (1926-2003) کے تعارف کے ساتھ 1964 میں شائع ہوئے۔ یہی ترجمے جمیل جالبی (1929-2019) کے مرتب کردہ کلیاتِ میرا جی میں بھی شامل ہیں۔ میراجی نے اپنے ترجمے فٹز جیرالڈ کے ترجموں سے کیے ہیں جیسا کہ ’خیمے کے آس پاس‘ میں ان کے خود نوشتہ مختصر دیباچے سے ظاہر ہے۔‘‘ خیمہ اس لیے کہ خیام کاکلام ہے نیز خیمے سے زندگی کے قافلے کے اس چل چلاؤ کا تلازمۂ خیال بھی ہے جو عمر خیام کی شاعرانہ ذہانت کی نمایاں خصوصیت ہے اور آس پاس ترجمے کی رعایت ہے۔ ‘‘29؎ بیدار بخت لکھتے ہیں کہ: ’’میرے پاس جس قلمی مسودے کا عکس ہے اس میں 46 رباعیوں کے ترجمے ہیں جن میں صرف 17 ترجمے ’خیمے کے آس پاس‘ میں شامل ہیں۔ اس حساب سے میرا جی کے 29 ترجمے ایسے ہیں جو ابھی تک کہیں شائع نہیں ہوئے۔‘‘ 30؎ میراجی نے عمر خیام کی رباعیات کاترجمہ ’خیمے کے آس پاس ‘کے عنوان سے کیا جو 1964میں کتابی صورت میں شائع ہوا۔ انھوں نے فٹزجرالڈ کے انگریزی ترجمے کو بنیاد بنا کر 32رباعیوں کا ترجمہ قطعے کی ہیئت میں کیا ہے اور اس ترجمے کی خوبی یا خرابی کہیے کہ بقول شافع قدوائی’’اس ترجمے میں ہندوستانی ثقافت کی آمیزش ہے‘‘۔31؎ اس میں اردو فارسی کے بجائے ہندی الفاظ کا زیادہ استعمال کیا گیا ہے۔ جس سے خیام کی شاعری کی اصل روح سے آشنائی نہیں ہو پاتی۔ خیام کے مزاج سے ان کا ترجمہ ہم آہنگ نہیں ہو پاتا۔ کچھ ایسی ہی بات بیدار بخت نے بھی کہی ہے کہ: ’’میراجی نے خیام کی رباعیوں کو چولی لہنگا پہنا کر ہندوستان میں لاکھڑا کردیا ہے۔‘‘ ترجمے کے نمونے ملاحظہ فرمائیں ؎ بھور کابھوت جو بھاگا میرے کان بجے یوں بھور بھئے میں تو جانوں مئے خانے میں کوئی پکارا‘ رام ہرے! جگمگ جگمگ مندر اپنے من کے اندرہے تیار باہر بیٹھا جھومے پجاری‘ اس مورکھ سے کون کہے ¡ داتاکے ہر کارے تھے وہ آگ میں جن کو لوگ جلائیں سادھ اور گیانی سوچ سوچ کر جو بھی ہم کو بات بتائیں نیند سے اٹھ کر کہی کہانی ‘ ساتھی ان کے سنیں سنائیں کہہ کر اپنی اپنی بانی سب کے سب پھر سو جائیں ¡ سچ اور جھوٹ میں مان لے منوا بال برابر ہیرا پھیری ایک بول میں چھپا خزانا جان سکی کب بِدیا تیری! تو اپنی سی جوکھوں کرلے پہنچ پائے تو اسی کھوج میں اسی بول سے ہوجائیں گے ناتھ کے درشن سانجھ سویری32؎ میرا جی کے اس ترجمے کی خرابی یہ ہے کہ انھوں نے خیام کے اصل متن کے بجائے ایک متبادل متنی اظہار کو ترجمے کی اساس بنایا جس نے خود ہی بہت سے مقامات پر حسبِ ضرورت تحریف اور تصرف سے کام لیا ہے۔ اس کے برعکس جن مترجمین نے خیام کے فارسی متن کو پیشِ نظر رکھا ہے ان کے ترجموں میں ادائے خیال کے ساتھ ساتھ لطفِ سخن بھی ہے۔مثلاً عمر خیام کی یہ رباعی دیکھیے ؎ گر بادہ خوری تو باخرد منداںخور یا باصنمے لالہ رخ و خنداں خور بسیار مخور درد مکن فاش مساز اندک خوردگہہ گہہ پنہا ںخور اس کے بہت ترجمے کیے گئے ہیں مگر سید عبد الحمید عدم نے بہت ہی خوبصورت ترجمہ کیا ہے ؎ پھولوں کے ساتھ ناچ ستاروں کے ساتھ پی یا سادگی پسند نگاروں کے ساتھ پی افزوں نہ پی خراب نہ ہو ہوش مت گوا تھم تھم کے چھپ چھپ کے سہاروں کے ساتھ پی میرا جی کے ترجمے میں وہ جمالیاتی حظ نہیں ہے جو دوسرے ترجموں میں ملتا ہے۔بہر حال عمر خیام سے میرا جی کی ذہنی وابستگی ہے اور اسی وجہ سے انھوں نے خیام کا انتخاب کیا۔ میراجی نے مشرق و مغرب سے ہر اس شاعر کا انتخاب کیا جو ان کے ذہن اور مزاج سے میل کھاتا تھا۔شاید انھیں مشرق ومغرب کے شاعروں میں اپنے جیسے ذہن اور مزاج کی جستجو تھی اور اسی جستجو کے سفر میں ان کی ذہنی ملاقاتیں ایسے شاعروں سے ہوئیں جن سے ان کی زندگی اور ذہن کی مناسبت اور مماثلت رہی ہے۔ میرا جی ان شاعروں کی زندگی اور تخلیق میں اپنے جذبے اورخیال کا عکس تلاش کرتے تھے۔میرا جی نے اپنے 37برس 5مہینے9دن کی مختصر سی زندگی میں23مختلف زبانوں کے شعرا کی تقریباًڈھائی سونظموں کے نثری معریٰ اور آزاد ترجمے کیے اور ان ترجموں میں اپنی تخلیقی ہنر مندی اور لسانی و ترسیلی مہارت کا بھی ثبوت دیا۔ انھوں نے بیشتر ترجموں میں اپنی لفظیات اور تلازمات کے ذریعے تصورِ ہندوستانیت اور آریائی روح اور مزاج کو زندہ رکھااور اردو کے مخصوص تہذیبی لسانی مزاج سے مغرب کے شعری افکار کو ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی۔ انھوں نے ترجمے میں آزادہ روی سے کام لیا۔اجنبی تشبیہات، استعارات اور علامات کو مانوس رنگ عطا کرنے کی کوشش کی۔ انھوں نے مرکزی خیال اور مفہوم کو باقی رکھا مگر لفظیات،استعارات کو تبدیل کر دیا،کہیں کہیں اسمائے معرفہ کو بھی بدلنے کی کوشش کی۔ ظاہر ہے کہ شاعری کے ترجمے میں بہت ساری دشواریاں حائل ہوتی ہیںاور کبھی کبھی ترجمے کی وجہ سے تخلیق کا جمالیاتی حسن بھی مجروح ہوتا ہے۔ تخلیق کی اصل کیفیت بھی قائم نہیں رہ پاتی اس کے باوجود میرا جی کے تراجم کی اہمیت اور معنویت کو تسلیم کرنا پڑے کا کہ انھوں نے آزاد ترجمے میں بھی تخلیقیت کے جوہر دکھلائے ہیں اور نفسِ خیال کو کہیں بھی مرنے نہیں دیا۔ اظہار مطالب اور ادائے خیال کے لحاظ سے ان کے ترجمے کامیاب کہے جا سکتے ہیں۔ میرا جی کے ترجمے کی سب سے بڑی خوبی لسانی امتزاجیت ہے۔ ہندی اور اردو الفاظ کی آمیزش کا ایک خوب صورت تجربہ جو ہندی اور اردو کے لسانی تنازع کے عہد میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ انھوں نے اسی زبان میں ترجمہ کیا جسے ہندوستانی کہاجا سکتا ہے۔ انھوں نے اپنے ترجموں کے ذریعے اس تنازعے کا سد باب کر دیا جو اردو اور ہندی کے نام پر جاری ہے۔ میرا جی نے خود ’’کٹنی متم ‘‘کے اشتہار میں یہ لکھا تھا کہ ’’اسے اس زبان میں ترجمہ کیا ہے جسے پڑھنے کے بعد کل ہند زبان کے تنازعے کا امکان ہی باقی نہیں رہتا۔‘‘ 33؎ میرا جی کا یہ بیان آج کے عہد کے لیے ایک میزان کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر اسی روش کو اختیار کیا جائے توشاید ہندی اردو تنازعہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے کیونکہ ہندی اور اردو دونوں ایک دوسرے کو خوب صورت اور سندر بناتی ہیں اور میراجی کے ترجمے کی خوبصورتی کا راز بھی یہی ہے۔ ان کے ترجمے کی ایک اور خو بی تہذیبی مقامیت بھی ہے، جسے شافع قدوائی Cultural Domesticationکہتے ہیں۔ مگر حد سے زیادہ مقامیت پر اصرار اور اس کا اظہار غلط ہے۔ اس لیے شافع قدوائی کا یہ خیال اور سوال بہت اہم ہے کہ’’ روانی اور سلاست وغیرہ اچھی خوبیاں ہیں مگر ترجمہ پڑھ کر یہ احساس ضرور ہونا چاہیے کہ ہم کسی غیر زبان کا فن پارہ جواس کی مخصوص ثقافت اور نظریۂ حیات کا زائیدہ ہے پڑھ رہے ہیں۔‘‘34؎ فرانسا ولاں عظیم فرانسیسی شاعر کا یہ ترجمہ دیکھیے اور محسوس کیجیے کہ میراجی نے کس درجہ تصرف سے کام لیا ہے۔ سارے کردار اور اسما ہی بدل دیے۔آخر ایک فرانسیسی شاعر کو رادھا، کنہیا، میرا اور میواڑ سے کیا سروکار ہوسکتا ہے ؎ کہاں ہیں کنہیا کی سب اب گوپیاں؟ برندا کے بن کی ہری ڈالیاں؟ ہواؤں سے ہل ہل کے ہیں نوحہ خواں! یہی کررہی ہیں وہ ہر دم فغاں، کہاں وہ زمانے، کہاں اب وہ دور! ہے بن کا سماں اور اب رنگ اور! کہاں ہے مراری کی رادھا کہاں؟ کہاں ہے وہ جنگل کی شاما، کہاں؟ کہاں رام چندر کی سیتا، کہاں؟ وہ میواڑ بستی کی میرا کہاں؟ وہ جلوے نگاہوں سے اب کھوگئے! کہیں دور جاکر سبھی سوگئے! کہاں ہیں وہ اِندر کی پریاں کہاں؟ کہ جن سے بنا راگ سارا جہاں؟ جوانی سے ان کی جہاں تھا جواں؟ جوانی گئی، اب، جوانی کہاں؟ ہیں تاریکیاں ذہن پر چھا گئی! اُداسی سے ہے روح گھبرا گئی! کہاں ہے وہ اوما؟ کہاں ہے ستی؟ کہاں بھگوتی اور پاروتی...؟ کہاں ہے بہادر کی روپامتی؟ ہوئی عشق کی آگ میں جو ستی! نہیں، آہ دنیا میں اب رانیاں! یہ دنیا ہے رہنے کی بستی کہاں؟ سوئمبر کی سنجوگتا ہے کہاں؟ بتائے کوئی آج اس کا نشاں؟ برندا کے بن میں جو تھیں نغمہ خواں، کہاں ہیں کنھیا کی سب گوپیاں؟ ہوا عشق کا نام، بیتی سی بات! عدم ہوگئی زندگی کی وہ رات! پرانا عروجِ شہانہ گیا، جوانی کا رنگیں فسانہ گیا، وہ اندازِ روز و شبانہ گیا! زمانہ گیا، وہ زمانہ گیا! گیا حسن خوبانِ دل خواہ کا! ہمیشہ رہے نام اللہ کا...!35؎ نظموں کے ترجمے میں آزادی اورتصرف سے سبھی نے کام لیا ہے اور شاید یہ مجبوری بھی ہے کیونکہ بقول جوش ملیح آبادی شاعری ایک ایسا جادو ہے جس کا ترجمہ ہو ہی نہیں سکتا۔ شاعری آبگینہ ہے اور ترجمہ گہن، شاعری شیشہ ہے اور ترجمہ پتھر اور کچھ ایسی ہی رائے ممتاز ناقد قمر جمیل کی بھی ہے: ’’مشہور ہے کہ شاعری کا ترجمہ نہیں ہوسکتا۔ جب شاعری کا ترجمہ کیا جاتا ہے تو جو چیز ترجمے میں رہ جاتی ہے وہ خود شاعری ہوتی ہے۔ ‘‘ رابرٹ فراسٹ کا خیال ہے کہ ’’شاعری وہی تو چیز ہے جو ترجمے میں رہ جاتی ہے۔ شیلے خود اچھا مترجم تھا مگر کہتا تھا کہ اصل متن اور ترجمے میں مطابقت ہو ہی نہیں سکتی کیونکہ شاعری دراصل الفاظ میں نہیں بلکہ الفاظ کے تلازمات میں ہوتی ہے۔ ترجمہ کرتے وقت اصل زبان کے الفاظ نہیں آتے اس لیے شاعری ان الفاظ کے ساتھ اصل زبان میں رہ جاتی ہے۔ شاعری میں اس زبان اور کلچر کی روح ہوتی ہے جس زبان میں شاعری کی جاتی ہے اس کا دوسری زبان میں ترجمہ اس لیے ناممکن ہوتا ہے کہ اس کا تعلق دوسرے کلچر سے ہوتا ہے۔‘‘36؎ یہی وجہ ہے جو انگریزی سے کامیاب ترجمے کیے گئے ہیں ان میں بھی کہیں نہ کہیں تصرف سے کام لیاگیا ہے۔ نظم طبا طبائی کی’ گورغریباںکو شہکار سمجھاجاتا ہے مگر اس میں بھی کہیں نہ کہیں آزادہ روی سے کام لیا گیا ہے۔ اس لیے آزادہ روی اور تصرف ترجمہ نگاروں کی ایک مجبوری ہے۔ میرا جی نے اپنے ترجموں میں مجموعی تاثر اور مرکزی خیال کو قائم رکھا ہے اور یقیناً یہ ان کی بہت بڑی کامیابی ہے۔ ترجمے کے حوالے سے میرا جی کا ایک کارنامہ یہ بھی ہے کہ انھوں نے اس کینن کو توڑا ہے جو انگریزوں نے مسلط کرنے کی کوشش کی تھی۔ ان کا ترجمہ بنیادی طور پر میکانکی نہیں تخلیقی ہے۔ جسے مکرر تخلیق کا نام بھی دے سکتے ہیں۔ڈاکٹر رشید امجد کا بھی یہی خیال ہے کہ ’’میراجی کے تراجم زبان کی سلاست وروانی اور مفہوم وفضائے ابلاغ کی وجہ سے ترجمے محسوس نہیں ہوتے۔یوں لگتاہے جیسے انھوںنے اصل خیال کو مکرر تخلیق کیاہے۔ ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ ترجمہ اردو زبان کا نہ صرف ایک حصہ بن جائے بلکہ اس کے سماجی اور ثقافتی رویوں میں بھی اس طرح ڈھل جائے کہ اس میں کسی طرح کی اجنبی بو باس باقی نہ رہے۔‘‘37؎ فیض احمد فیض کی رائے ہے کہ: ’’میراجی کے ترجمے ایک گراں قدر تخلیقی کارنامہ ہیں۔ میراجی نے جس انداز سے ادب عالم کے حسین نمونے ہم تک پہنچائے وہ محض ترجمہ نہیں ایجاد ہے۔‘‘38؎ میرا جی اپنے تراجم میں انتخاب،ابلاغ اور ترسیل تینوں مرحلوں سے بخوبی گزرے ہیں، انتخاب میں جہاں اپنی ذہنی مناسبت کا ثبوت دیا ہے وہیں ابلاغ میں تفہیمی و ادراکی ذکاوت اور ترسیل میں لسانی مہارت کا۔ مولانا صلاح الدین احمد نے میراجی کے ترجموں کے حوالے سے بہت معتدل رائے دی ہے کہ : ’’میراجی کے تراجم کی سب سے دلآویزخصوصیت یہ ہے کہ وہ موضوع کے اعتبار سے اپنی زبان بدل لیتے ہیں اگر چہ اسلوبِ بیان نہیں بدلتے۔ آپ ان کے دو مختلف پاروں میں بالکل مختلف المزاج الفاظ پائیں گے لیکن جس انداز سے وہ بیان کے رشتے میں پروتے ہیں ایک شدید انفرادی کیفیت رکھتا ہے اور آپ ہزار مختلف پاروں میں بھی ان کے پارۂ فن کو علاحدہ کرسکتے ہیں۔‘‘ 39؎ تخلیق کے حوالے سے میرا جی کو یاد کیا جائے یا نہ کیا جائے لیکن ترجمے کے حوالے سے انھیںضرور یاد کیا جائے گا کہ انھوں نے ترجموں کی صورت میںوہ عالمی دریچہ کھول دیا ہے جس سے تازہ ہوائیں آتی ہیں جو ذہن اور احساس کو منور اور معطر کر جاتی ہیں۔ اور شاید یہی کھلی ہوئی کھڑ کیاں ان غلط فہمیوں اور بد گمانیوں کا سد باب کرسکتی ہیں جو ایک دوسرے کی تہذیب اور معاشرت سے عدم واقفیت کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ اور مذہبی وتہذیبی مجادلہ کو مکالمہ میں بدل سکتی ہیں اور ترجمے کے ذریعے ہی بقول ناصر عباس نیر’’ مشترکہ انسانی تہذیب کا خواب پورا کیا جاسکتاہے۔‘‘40؎ حواشی اور حوالے 1؎ ترجمے کی وجہ سے ہی ہمارے علمی اور تہذیبی سرمایہ میں اضافہ ہوا۔ پہلے ترجمے ثقافتی اور علمی تبادلے کے لیے ہوا کرتے تھے مگر اب ترجمہ دنیا کی ضرورت ہے۔ عالمی تجارت کا سارا انحصار ترجمے پر ہے۔ اس لیے اب ترجمے کی اہمیت بڑھ گئی ہے اور اس کے تعلق سے نئے نئے مطالعات بھی سامنے آرہے ہیں۔ ترجمہ کے نظری اور عملی مباحث کے تفصیلی مطالعہ کے لیے دیکھیے: مرزا حامد بیگ کی کتابیں، مغرب سے نثری تراجم (مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد)، کتابیاتِ تراجم، ترجمے کا فن۔قمر رئیس، ترجمہ کا فن اور روایت (تاج پبلشنگ ہاؤس، جامع مسجد دہلی 1976)، خلیق انجم، فن ترجمہ نگاری (انجمن ترقی اردو ہند، نئی دہلی 1996)، پروفیسر ظہورالدین فن ترجمہ نگاری (سیمانت پرکاشن دریاگنج نئی دہلی 2006)، فہیم الدین احمد، علم ترجمہ نظری اور عملی مباحث (اردو ٹرانسلیشن اکیڈمی حیدرآباد 2017) 2؎ محمد داراشکوہ مغل شہنشاہ شاہجہاں کا بڑا بیٹا جس کی ولادت 20 مارچ 1615کو اجمیر شہر کے قریب ساگر تال جھیل میں ہوئی۔ یہ باغِ شاہی کا پہلا پھول تھا جو بہت منتوں کے بعد پیدا ہواتھا۔ داراشکوہ صاحب سیف و قلم تھا مگر تصوف سے زیادہ لگاؤ تھا۔ سکینۃ الاولیا، سفینۃ الاولیا، حسنات العارفین، رسالہ حق نما، مجمع البحرین ان کی اہم تصانیف ہیں۔ داراشکوہ کا سب سے بڑا کارنامہ ہندو مسلم اعتقادات، تصورات، روحانی روایات اور تصوف اور ویدانت میں ہم آہنگی کی جستجو ہے۔ مجمع البحرین اسی نوع کی کتاب ہے۔ داراشکوہ نے ہی سب سے پہلے 52 اپنشدوں کا ترجمہ سنسکرت سے فارسی میں کرایا جو سرِّ اکبر یا سرِّ الاسرار کے نام سے شائع ہوا اور اسی فارسی ترجمے کی بنیاد پر دنیا بھر کی زبانوں میں اس کے ترجمے ہوئے۔ اپنشد کو مغربی دنیا میں متعارف کرانے کا سہرا دارشکوہ کے سر ہے۔ داراشکوہ کی بیشتر کتابوں کے ترجمے اردو میں ہوچکے ہیں۔ ’سفینۃ الاولیا‘ شہزادہ محمد داراشکوہ قادری کی ایک بہت اہم کتاب ہے جس میں انھوں نے حضورؐ، خلفائے راشدین، ائمہ کرام، ازواج مطہرات اور نیک خواتین اور اولیائے کرام کے جامع حالات درج کیے ہیں۔ اس فارسی کتاب کا ترجمہ محمد علی لطفی نے کیا تھا جو نفیس اکادمی کراچی سے شائع ہوچکا ہے جس کے بہت سے ایڈیشن منظرعام پر آچکے ہیں۔ ’سکینۃ الاولیائ‘ داراشکوہ کے پیر حضرت میاں میر اور ان کے خلفا کے احوال پر مشتمل ہے۔ اس کا ترجمہ پروفیسر مقبول بیگ بدخشانی نے کیا ہے جو ناز پبلشنگ ہاؤس دہلی سے شائع ہوا۔ رسالہ ’حق نما‘ بھی ایک اہم کتاب ہے جس کا ترجمہ عادل اسیر دہلوی نے کیا اور یہ کتاب ملک بک ڈپو دہلی سے 2013 میں شائع ہوئی۔ ان کی اہم کتاب ’مجمع البحرین‘ ہے جو سنسکرت میں ’سمدر سنگم‘ کے نام سے شائع ہوئی ہے۔ اس کا انگریزی ترجمہ روما چودھری نے کیا تھا۔ ہندی میں اچاریہ بابو لال شاستری اور جگن ناتھ پاٹھک نے کیا۔ اردو میں ’مجمع البحرین‘ کا ترجمہ 1872 میں ’نورعین‘ کے عنوان سے گوکل پرساد رسا نے کیا تھا۔ یہ ترجمہ لکھنؤ میں چھپا۔ پروفیسر ایم محفوظ الحق جنھوں نے اس کتاب کا انگریزی ترجمہ کیا ہے انھوں نے بھی اس کے اردو ترجمے کا ذکر یوں کیا ہے: An Urdu Translation of Majma-ul-Bahrain' entitled Nur-i-Ain by one Gocul Prasad was Lithographes at Lucknow (1872) but unfortunatily i could not secure a copy of that اور Amalendu De جنرل سکریٹری ایشیاٹک سوسائٹی کلکتہ نے بھی اس اردو ترجمے کا ذکر کیا ہے۔ عادل اسیر دہلوی نے اس ترجمے کے علاوہ اردو میں سجاد علی میکش تھانوی، یونس شاہ گیلانی، محمد عمر اور تنویر احمد علوی کے ترجموں کا بھی ذکر کیا ہے۔ حال میں ’مجمع البحرین‘ کا ترجمہ پروفیسر طلحہ رضوی برق نے کیا ہے جو قومی اردو کونسل سے شائع ہوا ہے۔ داراشکوہ شاعر بھی تھا اس لیے ان کی رباعیات کا ترجمہ بھی شائع ہوچکا ہے۔ اس کے مترجم عادل اسیر دہلوی ہیں اور یہ کتاب ملک بک ڈپو دہلی سے 2011میں شائع ہوئی ہے۔ محمد دارا شکوہ کی شخصیت کے حوالے سے انگریزی اور دیگر زبانوں میں کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں: پروفیسر شکیل الرحمن، محمد داراشکوہ (نرالی دنیا پبلی کیشنز، نئی دہلی 2012)، محمد سلیم، داراشکوہ: احوال و افکار (مکتبہ کارواں لاہور)، محمود علی: داراشکوہ (شفیق میموریل اسکول، دہلی 1999) داراشکوہ کی شخصیت پر قاضی عبدالستار کا ایک ناول داراشکوہ کے نام سے شائع ہوچکا ہے۔ 3؎ تفصیل کے لیے دیکھیے: اورنگ زیب اعظمی، عہد عباسی میں ترجمہ نگاری: تاریخ و تحقیق (مرکزی پبلی کیشنز، نئی دہلی 2019)،عربی سے ترجمہ، نایاب حسن قاسمی۔ 4؎ ابوالعلا معری عباسی دور کا معرو ف شاعر و فلسفی تھا۔ دیوان سقط الزند، لزوم ما لا یلزم، رسالۃ الغفران ان کی مشہور کتابیں ہیں۔ بچپن میں چیچک کی وجہ سے ان کی آنکھ جاتی رہی۔ معری اپنے نظریات و تصورات کی وجہ سے معتوب بھی رہے۔ وہ آدم بیزار تھے۔ ابوالعلا معری کوبہت سے لوگ برہمنیت کا ہمنوا اور ہندو فلسفے کا قائل سمجھتے ہیں، ملحد و زندیق قرار دیتے ہیں، وہ بنیادی طور پر (Anti natalist)تھے اسی لیے انھوں نے دنیوی آفات سے اپنی اولاد کو بچانے کے لیے شادی نہیں کی تھی۔ انھیں مسور کی دال پسند تھی اور وہ سبزی خور تھے۔ پال اسمتھ نے Al-Maarri, Life and Poems کے نام سے ان کا تعارف و ترجمہ دیا ہے۔ علامہ اقبال نے ان کی سبزی خوری کے حوالے سے اشعار لکھے تھے۔ اس تعلق سے کئی تحریریں شائع ہوچکی ہیں جن میں مکاتبہ فی ترک اکل اللحوم لابی العلا المعری قابل ذکر ہے۔ اس کے علاوہ Journal of Royal Asiatic Society, 1902 میں ایک اہم تحریر بھی شائع ہوئی ہے: D.S. Margoliouth, Abul Ala- Ma'arris correspondence on Vegetarianism۔ ابوالعلا معری پر مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: تاریخ ادب عربی استاد احمد حسن زیات، مترجم: ڈاکٹر سید طفیل مدنی (ایوان کمپنی نخاس کہنہ، الہ آباد 1985) 5؎ علامہ اقبال: کلیاتِ اقبال (اعتقاد پبلشنگ ہاؤس، دہلی، 1981) ص 448-449 6؎ میراجی کا اصل نام محمد ثناء اللہ ثانی ڈار ہے۔ ان کے والد منشی محمد مہتاب الدین محکمہ ریلوے میں اسسٹنٹ انجینئر تھے۔ شریعت کے نہایت پابند اور پنج وقتہ نمازی اور والدہ کا نام زینب بیگم عرف سردار بیگم ہے۔ 25مئی 1912 کو پیدا ہوئے۔ وہ میٹرک پاس بھی نہیں تھے مگر شعر و ادب میں ان کو امتیاز حاصل ہے۔ وہ ادبی دنیا لاہور سے بحیثیت نائب مدیر وابستہ رہے۔ آل انڈیا ریڈیو دہلی میں خدمات انجام دیں۔ ماہنامہ ’ساقی‘ میں ادبی کالم لکھے۔ ان کی تصانیف میں میراجی کے گیت (مکتبہ اردو لاہور، 1943)، میراجی کی نظمیں (ساقی بک ڈپو دہلی 1944)، گیت ہی گیت (ساقی بک ڈپو، دہلی 1944)، پابند نظمیں (کتاب نما راولپنڈی 1968)، تین رنگ (کتاب نما راولپنڈی 1964)، مشرق و مغرب کے نغمے (اکادمی پنجاب لاہور 1958)، اس نظم میں (ساقی بک ڈپو، دہلی 1944)، نگار خانہ (مکتبہ جدید، لاہور 1950)،خیمے کے آس پاس (مکتبہ جدید لاہور، 1964) قابل ذکر ہیں۔ڈاکٹر جمیل جالبی نے ’کلیات میراجی‘ نے عنوان سے پورا شعری انتخاب شائع کیا ہے جو اردو مرکز لندن سے 1988 میں شائع ہوا۔ 3 نومبر 1949 کو ممبئی میں میرا جی کا انتقال ہوا۔ میری لائن قبرستان میں انھیں دفن کیا گیا۔ اخترالایمان نے لکھا ہے کہ ’’ان کے جنازے میں صرف پانچ آدمی تھے۔میں، مدھوسودن، مہندرناتھ، نجم نقوی اور میرے ہم زلف آنند بھوشن۔‘‘(میراجی کے آخری لمحے، مشمولہ نقوش لاہور، نومبر 1952) ، میراجی کی شخصیت اور فن پر کئی اہم کتابیں شائع ہوچکی ہیں جن میں رشید امجد کی میراجی شخصیت اور فن (پاکستان)، شافع قدوائی کی ’میرا جی‘ (ساہتیہ اکادمی، دہلی 2001)، ڈاکٹر جمیل جالبی کی ’میراجی ایک مطالعہ‘ (ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی، 1991)، کمار پاشی کی ’میراجی: شخصیت اور فن‘ (ماڈرن پبلشنگ ہاؤس دہلی، 1991)، شمیم حنفی کی میراجی اور ان کا نگارخانہ (دلی کتاب گھر،دہلی 2013)، محمد حمید شاہد کی ’راشد، میراجی، فیض‘ (مثال پبلشرز فیصل آباد، 2014)، ناصر عباس نیر کی ’اس کو ایک شخص سمجھنا تو مناسب ہی نہیں، میراجی کی نظم اور نثر کے مطالعات‘(اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس کراچی) قابل ذکر ہیں۔ ان کی نثری تحریروں کا ایک انتخاب شیما مجید نے ’باقیاتِ میراجی‘ کے عنوان سے شائع کیا ہے۔کچھ رسالوں نے بھی میراجی پر خصوصی شمارے اور گوشے شائع کیے ہیں جن میں حیدر قریشی کے ’جدید ادب‘ جرمنی کا میراجی نمبر قابل ذکر ہے۔میراجی پر تحقیقی مقالے بھی لکھے جاچکے ہیں۔ہانی السعید کی اطلاع کے مطابق پنجاب یونیورسٹی لاہور، 2003میں تقدیس زہرہ نے ’مشرق و مغرب کے نغمے: حواشی و تعلیقات‘ کے عنوان سے ایم فل کا مقالہ لکھا ہے تو جی سی یونیورسٹی لاہور سے سعدیہ جاوید نے ’میرا جی کے تراجم‘ پر تحقیقی کام کیا ہے۔ 7؎ بحوالہ سید حسن الدین احمد،انگریزی شاعری کے منظوم اردو ترجموں کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ (ولا اکادمی، حیدرآباد 1984) 8؎ پروفیسر شارب ردولوی لکھتے ہیں کہ گیتا کے ترجمے اور تفسیریں دنیا کی بیشتر زبانوں میں مل جاتی ہیں لیکن اردو میں اس کے ترجمے جس تعداد میں ملتے ہیں اتنے شاید کسی دوسری زبان میں نہ ہوں۔ یہ ترجمے نظم و نثر دونوں میں ہیں اور ان ترجموں کے کرنے والے ہندو مسلمان برابر کے شریک ہیں۔ ’بھگوت گیتا‘ کے جن ترجموں کی اب تک نشاندہی ہوچکی ہے ان کی تعداد 29ہے جن میں 13 نثری ترجمے ہیں اور 16 منظوم ہیں۔ ان میں چار ترجمے مسلمان مترجمین کے کیے ہوئے ہیں۔ مثلاً دل کی گیتا، ترجمہ: دل محمد، بھگوت گیتا، ترجمہ: خلیفہ عبدالحکیم، شریمد بھگوت گیتا، ترجمہ: حسن الدین احمد، بھگوت گیتا یا نغمہ خداوندی، ترجمہ: محمد اجمل خان (اردو میں جین بدھ سکھ اور ہندو مذاہب کی کتابیں، مشمولہ: نندکشور وکرم، عالمی اردو ادب دہلی، دھارمک نمبر2013، ص 18) اسی طرح رامائن کے سب سے زیادہ ترجمے اردو میں ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر اجے مالوی کی تحقیق کے مطابق اردو زبان میں 101 رامائن شائع ہوچکی ہے جن میں پہلی اردو رامائن شنکر دیال فرحت کی ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: اجے مالوی ’ہے رام کے وجود پہ ہندوستاں کو ناز‘۔ 9؎ مشرق و مغرب کے نغمے، ص 64 10؎ جمیل جالبی: کلیات میراجی، ص 767-68 11؎ ودیاپتی میتھلی اور سنسکرت کے ایک عظیم شاعر تھے۔ ان کا تعلق دربھنگہ ضلع کے تھانہ بینی پٹی کے ایک گاؤں سے تھا۔ وہ راجہ کیشور اور کرتی سنگھ کے دربار سے بھی وابستہ رہے۔ سنسکرت زبان میں ان کی بہت سی کتابیں ہیں جن میں ’کیرتی لتا‘ ، ’بھوپری کرما‘، ’پرس پرتیکشا‘ مشہور ہیں۔ ان کا شاہکار ’پداولی‘ ہے جو میتھلی زبان میں ہے۔ ان کے تعلق سے منظر شہاب (جمشیدپور) نے لکھا ہے کہ ’’پداولی حسن وعشق کا مرقع ہے۔ ودیاپتی نے اپنے زورِ تخیل اور ندرتِ بیان سے اس میں ایک عجیب طلسم بھر دیا ہے۔ تصویرکشی میں ان کی مثال دنیائے ادب میں بہت کم ملے گی اور تشبیہوں کے تو وہ خود باشاہ ہیں۔‘‘ پداولی میں کرشن اور رادھا کی محبت کا بیان ہے۔ ودیاپتی کے حوالے سے ساہتیہ اکادمی کی طرف سے ہندوستانی ادب کے معمار کے تحت انگریزی میں راماناتھ جھا کا مونوگراف 1973 میں شائع ہوا۔ اس کے علاوہ منظر شہاب نے اپنے تنقیدی مضامین کے مجموعہ ’اور پھر بیاں اپنا‘ (نرالی دنیا پبلی کیشنز دریاگنج، نئی دہلی 2000) میں ودیاپتی میتھلی ادب کا عظیم فنکار کے عنوان سے بہت وقیع مضمون تحریر کیا ہے۔ 12؎ جمیل جالبی: کلیات میراجی، گیت، ص 791-92 13؎ چنڈی داس ایک بنگالی شاعر جنھوں نے رادھا کی محبت کا نغمہ لکھا۔ یہ ایسا شاعر تھا جس کا ہیومنزم پر یقین کامل تھا۔ وہ انسانیت کو سب سے بلند سمجھتے تھے۔ ان کے بارے میں بہت سے تضادات ہیں جس کی تحقیق ہنوز نہیں ہوپائی ہے۔ ساہتیہ اکادمی نے ہندوستانی ادب کے معمار کے تحت سوکمار سین کا مونوگراف انگریزی میں شائع کیا ہے۔ 14؎ جمیل جالبی: کلیاتِ میرا جی، گیت ص 809-10 15؎ جمیل جالبی: کلیاتِ میرا جی، ص 814-15 16؎ مبشر احمد میر نے ’میراجی کا نگارخانہ‘ کے عنوان سے وقیع مضمون تحریر کیا ہے جو ’جدید ادب‘ جرمنی کے میراجی نمبر میں شامل ہے۔ 17؎ شمیم حنفی: میراجی اور ان کا نگارخانہ، دہلی کتاب گھر، دہلی، 2013، ص 87-88 18؎ ایضاً، ص 92 19؎ بحوالہ رشید امجد ’میراجی شخصیت اور فن‘ ص 237 20؎ شمیم حنفی: میراجی اور ان کا نگارخانہ، دہلی کتاب گھر، دہلی، 2013، ص 85 21؎ ایضاً، ص 86 22؎ پروفیسر صادق، بالِ جبریل کے سرنامے کا شعر مشمولہ ’تنقیدی اور تحقیقی مضامین‘ (کتابی دنیا، ترکمان گیٹ، دہلی 2014)، ص 127 23؎ عمر خیام کا پورا نام غیاث الدین ابوالفتح عمرو بن ابراہیم ہے۔ وہ ملک خراسان کے مردم خیز خطہ نیشاپور میں 18مئی 1048 میں پیدا ہوئے۔ نساجی ان کا آبائی پیشہ تھا مگر والد نے خیمہ دوزی کا پیشہ اختیار کیا ۔ علم ہیئت، فلکیات، الجبرا اور اقلیدس میں اسے کمال حاصل تھا۔ خیام خراسان کے بادشاہ ملک شاہ کی اس آٹھ رکنی کمیٹی کا ایک رکن تھا جس نے ’جلالی تقویم‘ تیار کی تھی جس پر آج کی ایرانی تقویم کا انحصار ہے۔ یہ گرے گورین کلینڈر سے قریب ہے۔ عمر خیام کو خمریات کا امام سمجھا جاتا ہے اور ان کی رباعیات پوری دنیا میں مشہور ہیں۔ بہت کم ایشیائی شاعر کو یورپ میں اتنی شہرت، مقبولیت اور عزت نصیب ہوئی۔خیام کی وفات 4 دسمبر 1131 عیسوی کو ہوئی۔ ان کی تصانیف میں رسالہ مکعبات، رسالہ جبر و مقابلہ، رسالہ شرح ما اشکل من مصادرات اقلیدس، زیچ ملک شاہی، رسالہ مختصر در طبیعیات، میزان الحکم وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ عمر خیام کے حوالے سے اردو میں کتابیں اور مقالے شائع ہوتے رہے ہیں۔ سید سلیمان ندوی کی کتاب ’خیام‘ جو دارالمصنّفین اعظم گڑھ سے شائع ہوئی ہے بہت اہمیت کی حامل ہے۔ اس کے علاوہ مولانا عبدالباری آسی نے رباعیاتِ عمر خیام پر ایک نظر کے عنوان سے کتاب تحریر کی ہے جو مکتبہ دین و ادب لکھنؤ سے 1966 میں شائع ہوئی ہے۔ عشرت رحمانی نے ان پر ایک تاریخی ناول لکھا ہے اور عزیز احمد نے ایک ڈراما تحریر کیا ہے۔ 24؎ فٹز جرالڈ کو مغرب کا عمر خیام سمجھا جاتا ہے اور وہ اپنے اسی ترجمے کی وجہ سے زندہ جاوید ہے۔ محمد اسحاق نے لکھا ہے کہ ’’عمر خیام کی رباعیات کا ترجمہ فٹز جرالڈ نے سب سے پہلے Fraser Magazine میں چھپنے کے لیے بھیجا تھا لیکن جب دو سال تک نظمیں شائع نہ ہوئیں تو فٹز جرالڈ نے انھیں واپس لے لیا اور اس مجموعے کو خود اپنے خرچ سے شائع کیا لیکن کتاب فروخت نہ ہوئی اور کتب فروش کوآرچ نے کتب خانے کے باہر ایک پیسہ والے طاق میں رکھ دیا۔ خوش قسمتی سے اسے راسیٹی نے مول لیا اور اپنے دوستوں سے بھی اس کے خریدنے کی استدعا کی اور اس طرح اس کی شہرت کو چار چاند لگ گئے۔‘‘ تفصیل کے لیے دیکھیے: محمد اسحاق ایم اے، مترجم خیام، ایڈورڈ فٹز جرالڈ، (مطبوعہ ماہنامہ ’زمانہ‘ کانپور، جولائی دسمبر 1935)، مشمولہ خیام شناسی، مرتبہ: اخلاق احمد آہن۔ 25؎ ضیاء احمد: خیام کی مقبولیت، مشمولہ خیام شناسی، مرتبہ: اخلاق احمد آہن۔ 26؎ رباعیاتِ خیام کے اس پہلے اردو مترجم کے حوالے سے قیصر سرمست لکھتے ہیں ’’راجہ مکھن لال نہ صرف فارسی کے جید عالم تھے بلکہ ہندو مسلم اتحاد کا بے مثل نمونہ بھی۔ انتہائی درجے کے بے تعصب، علومِ اسلامی اور تصوف سے انھیں بے حد لگاؤ تھا، زبانِ فارسی سے انھیں بے پناہ دلچسپی تھی اور اس زبان کے حصول کے لیے انھوں نے ایک ایرانی نژاد عورت سے شادی بھی کرلی تھی۔ فارسی شعرا میں عمر خیام ان کا سب سے پسندیدہ شاعر تھا۔ ‘‘ دیکھیے: قیصر سرمست، عمر خیام کی رباعیات کا پہلا مترجم، مشمولہ خیام شناسی، مرتبہ: اخلاق احمد آہن، (ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی، 2017 )۔ 27؎ رباعیاتِ خیام کے اس ترجمے کے حوالے سے ضیاء احمد لکھتے ہیں ’’رباعیاتِ خیام کا ترجمہ جو شوکت بلگرامی نے کیا ہے وہ درحقیقت اردو کا شاہکار سمجھے جانے کا مستحق ہے۔ یہ اگر کوئی مستقل چیز ہوتی تو بھی قابل قدر تھی لیکن یہ خیال کرکے اس کی وقعت اور بڑھ جاتی ہے کہ یہ ترجمہ ہے۔ یہی نہیں بلکہ یہ ترجمہ کہیں کہیں خیام سے ٹکر کھاتا ہے۔‘‘ (بحوالہ خیام شناسی)سید کاظم علی شوکت بلگرامی فرزند حاجی منشی سید علی حسن بلگرامی ایک عمدہ شاعر بھی تھے۔ ان کے اس ترجمے کی تعریف مہاراجہ سر کشن پرشاد، نواب عمادالملک بہادر، مولوی سید حسین بلگرامی،مولوی حبیب الرحمن خاں شیروانی اور شمس العلماء نواب سید امداد امام صاحب نے بھی کی ہے۔ مہاراجہ سرکشن پرشاد بہادر نے لکھا کہ ’’میںحضرت شوکت کو ایک مدت سے جانتا اور ان کی طباعی اور معجز طرازی کو مانتا ہوں لیکن اس ترجمے سے ان کی قادرالکلامی کا جیسا ثبوت مجھے ملا ہے اس سے پہلے نہ ملا تھا۔‘‘ نواب عمادالملک نے لکھا کہ سید کاظم علی صاحب شوکت بلگرامی نے چند رباعیاتِ عمرخیام کا اردو میں ترجمہ کیا ہے اور قابل قدر ترجمہ کیا ہے اور لطف یہ ہے کہ رباعی کا ترجمہ رباعی میں کیا ہے۔‘‘ یہ ترجمہ ریختہ کی ویب سائٹ پر موجود ہے ۔ اس کے ابتدائی صفحات میں ان عمائدین کے تاثرات بھی درج ہیں۔ 28؎ تفصیل کے لیے دیکھیے : بیدار بخت:خیام کے ترجموں پر ایک نظر، رسالہ جامعہ، ذاکر حسین انسٹی ٹیوٹ، اسلامک اسٹڈیز، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی، جنوری -مارچ2019 29؎ ایضاً، ص 80-81 30؎ ایضاً، ص 81 31؎ شافع قدوائی: میرا جی، ساہتیہ اکادمی، نئی دہلی2001، ص 109 32؎ جمیل جالبی: کلیاتِ میراجی، ص ص760 33؎ بحوالہ رشید امجد، میراجی، ص 238 34؎ شافع قدوائی: میراجی، ص 103 35؎ جمیل جالبی: کلیاتِ میراجی، ص ص 912-14 36؎ قمر جمیل، جدید ادب کی سرحدیں (جلد دوم)، مکتبہ دریافت کراچی، 2000، ص 112 37؎ رشید امجد، میراجی: فن اور شخصیت، ص 241 38؎ جمیل جالبی: کلیاتِ میراجی (فلیپ) 39؎ شافع قدوائی: میراجی، ص 106 40؎ ناصر عباس نیر: میراجی کے تراجم، مشمولہ تناظر شمارہ نمبر 2، ناصر عباس نیر نے اس مضمون میں ترجمے کی روا یت اور میراجی کے تراجم کے حوالے سے بہت اہم نکات کا احاطہ کیا ہے۔ ان کی یہ رائے بہت اہم ہے کہ ’’میراجی کے تراجم کی فضا کثیر الثقافتی پس منظر اور ہمہ دیسی زاویے سے عبارت ہے۔‘‘
نظریہ ساز اردو نقّاد و محقّق ، ما ہرِلسّانیات واسلوبیات گوپی چند نارنگ بروز بدھ 15 جون 2022 کو شارلٹ ، امریکہ میں 91 سال کی عمر میں اپنے بیٹے ترون نارنگ کے گھر میں افراد خاندان کی موجودگی میں انتقال فرما گئے۔ نارنگ انوکھی صفات کا مجموعہ تھے۔ معلّمِ اردو ،منفرد ادیب، سیمیناروں ، کانفرنسوں اورعلمی تقریبات کے بے مثال انتھک منتظم ، کارواں ساز شخصیت کے مالک ، اردوزبان کی بقا کے لئے ہر ممکن اقدام کرنے والے گوپی چند نارنگ کی ہمسری کا دعویٰ کوئی نہیں کرسکتا ۔ اردو کو وہ تکثیر ی سماج کی علامت گردانتے تھے۔ تحریکِ آزادی اوراردو شاعری ، اردو غزل اور ہندوستانی ذہن وتہذیب جیسی اپنی کتابوں میںیہ بات انہوں نے بارہا پورے پورے جواز کے ساتھ لکھی ہے۔ ان کا خیال تھا کہ زبانوں پر گفتگو کرتے ہوئے جنونیت اور انتہا پسندی کو رَد کردینا چاہئے۔ ان کا لسّانی نظریہ سائنسی علم اورباہمی رواداری پر مبنی تھا۔ گرچہ نارنگ اردو کو اُس کے اصل رسم الخط کے ساتھ برقرار رکھنے کے حامی تھے لیکن اردو اورہندی کی خلقی حقیقت [یا فطرت] کو برّصغیرکے لسّانی تاریخی پس منظر میں دیکھتے تھے۔ دونوں زبانوں میں انہیں گوشت اور خون کا رشتہ نظر آتا تھا۔ ان کے نزدیک ہندی کے بغیر اردو اردو نہیں تھی اور اسی طرح ہندی بھی اردو کے بِنا مکمل نہیں تھی۔ ہندی اورسنسکرت سے اردو نے بہت کچھ لیا ہے۔ گرامر میں بھی اور صوتی نظام میں بھی اردو نے ہندی اور سنسکرت کے اثرات قبول کئے ہیں۔ اردو میں فارسی اورعربی کا ہر تلفّظ ادا کیا جاسکتا ہے لیکن ٹ، ڑ، ڈ جیسے حروف کی آوازیں اردو میں سنسکرت اورہندی سے ہی آئی ہیں۔عربی میں پ اور گ حروف بھی نہیں ملتے ۔ نارنگ ماہرِ السنہ تھے۔ زبانوں کی ایجاد اورحروف کے مخرج پر غورکرنا ان کی علمی ضرورت تھا۔ اردو اپنے اسکرپٹ میں ہند آریائی زبان ہے لیکن دراوڑی لہجوں سے بھی متاثر ہے اور ان تمام عناصر نے اردو کو اس طرح مکمل کیاہے کہ ہندوستان کے تکثیر ی نظام میں اسے سب سے الگ مقام حاصل ہے۔ ہر زبان کا رسم الخط اپنی پہچان اور خوبصورتی رکھتا ہے۔ اس لئے ہرزبان کی اصلیت اور انفرادیت کو برقرار رہنا چاہئے۔ گوپی چند نارنگ11فروری 1931 کو بلوچستان کے ضلع دُکّی کے گاؤںلورالائی میں پیدا ہوئے جوتب موجودہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک گاؤں تھا۔ تقسیم کے بعد 1947میں وہ سانحۂ کوئٹہ کے بعد اپنے بڑے بھائی کے ساتھ ریڈکراس کے جہاز سے اپنی والدہ کے ساتھ دہلی منتقل ہوئے۔ ان کے والد ملازمت سے سبکدوش ہوکر1956میںدہلی آئے۔ گوپی چند نارنگ نے دہلی کالج سے اردو میں ایم اے کیا۔ 1958 میں وزارت تعلیم کے تحت ریسرچ فیلوشپ مکمل کرکے پی۔ ایچ ۔ڈی کی۔ سینٹ اسٹیفنس کالج سے 1957-58 میںدرس و تدریس کا آغازکیا۔ اس کے بعد دہلی یونیورسٹی میں لیکچرر اور 1961 میں ریڈ ر ہوئے۔ 1963 اور 1968 میں وسکونسِن یونیورسٹی امریکہ میں وزِٹنگ پروفیسر ہوئے ۔ اُسی دور میںمِنے سوٹا یونی ورسٹی اوراوسلو یونیورسٹی ، ناروے میںبھی تعلیم دیتے رہے۔ساتھ ہی اٹلی کی راک فیلر یونیورسٹی کے وزِٹنگ فیلو رہے۔ 1974سے تک 1981 تک جامعہ ملّیہ اسلامیہ میں شعبۂ اردو میں پروفیسر رہے۔ 1981- 82 میں جامعہ ملّیہ اسلامیہ کے قائم مقام وائس چانسلر تھے۔ 1986 سے 1995 تک دہلی یونیورسٹی میں پروفیسر رہے۔2005سے دہلی یونیورسٹی میںاور 2013سے جامعہ ملّیہ اسلامیہ میں پروفیسر ایمریٹس ہوئے۔ دہلی یونیورسٹی میں اردو کا شعبہ نارنگ کے مشفق استاد اوررہنما خواجہ احمد فاروقی کے زیر قیادت وزیر اعظم پنڈت نہرو کی خیر خواہی سے قائم ہواتھا۔ اس سلسلے میں فاروقی صاحب کے ساتھ نارنگ کی جدوجہد کا احوال نارنگ کی کتاب ’’خواجہ احمد فاروقی کے خطوط گوپی نارنگ کے نام‘‘ سے معلوم ہوتاہے۔ اپنے استاد فاروقی صاحب سے نارنگ کا از حد جذباتی لگاؤ تھا۔ نارنگ صاحب کے نصیب میں ملک اوربیرون ملک سے کئی قابل فخر اعزازات آئے۔4 200میں پدم بھوشن کا اعزاز ملا۔ 1995 میں ان کی کتاب ’’ساختیات ، پس ساختیات ، مابعد جدیدیت ‘‘ پرساہتیہ اکادمی ایوارڈ ، غالب ایوارڈ (1985)، صدر پاکستان کی جانب سے ستارۂ امتیاز(2012 )، اقبال سمّان ، کسُم انجلی فونڈیشن ایوارڈ بھیحاصل ہوئے۔ 2002 میںمجلس فروغ اردو ادب، درجہ، قطر کے ایوارڈ سے سرفراز کئے گئے۔ (اس ادارے کے وہ 1996سے بابِ ہند کے جیوری چیئرمین بھی رہے)۔ پروفیسر نارنگ کی پاکستان میں بھی اسی قدر عزت تھی جتنی ہندوستان میں۔ بقول ناول نگار و افسانہ نویس انتظار حسین ’’وہ (نارنگ) جب پاکستان آتے ہیں ہندوستان کو ایک اکائی کی صورت میںپیش کرتے ہیں۔ یہ بات میں کسی اور کے لئے نہیںکہہ سکتا۔ جب وہ اسٹیج پرآتے ہیں ہمیںمحسوس ہوتا ہے کہ پورا ہندوستان مجموعی طورپرہم سے مخاطب ہے‘‘۔ ہندی افسانہ نگارکملیشور کا یہ قول مشہور ہے کہ ہرزبان کو ایک گوپی چند نارنگ کی ضرورت ہے۔ نارنگ کی مقبولیت اورتعظیم ہر اس ملک میںتھی جہاں وہ جاتے تھے۔ انہوں نے کئی ممالک کا سفر کیا اورہر جگہ اردو کی خوشبو اور روشنی پھیلائی۔ نہ صرف انہیں دنیا میں اردو کا سفیر سمجھاجاتاتھا بلکہ حقیقتاً وہ اردو کے سفیرہی معلوم ہوتے تھے ۔ (میں اس کا شاہد ہوں کیونکہ اتفاق سے چند ممالک میںہم دونوں ہمسفر رہے)۔ وہ ساہتیہ اکادمی کے صدر رہ چکے ہیں چند سال قبل انہیں ساہتیہ اکادمی کا فیلو شپ اعزاز بھی دیاگیا جو اکادمی کا سب سے بڑا اعزاز ہے۔ مختلف اعلیٰ اداروں اور یونیورسٹیوں کے باوقار اعزازات سے نوازے گئے تھے۔ جن میں سرسیّد نیشنل ایکیسلینس ایوارڈ بھی شامل ہے۔ اٹلی کامیزینی گولڈ میڈل یا جو اعزاز بھی انہیں ملا ان کے چاہنے والوں کو لگتا تھا کہ وہ اعزاز اردو کو ملا ہے۔ مشہور اردو فکشن رائٹر قرۃ العین حیدر نے ایک بار گوپی چند نارنگ کو اردو کا ’’مرد ِرینے ساں‘‘ (Renaissance man)قراردیاتھا) ۔ نارنگ اپنی زندگی کو اردو زبان وادب کی راہ میں سفرِ عشق سے تعبیر کرتے تھے۔ گرچہ ان کی مادری زبان سرائیکی تھی لیکن اپنی تقریروں میں اردو کو وہ تمام زبانوں میں تاج محل کا درجہ اورملک کی مختلف قومیتوںمیں رابطے کا پُل قراردیتے تھے۔ اردو کی چاہ میںیہ شعرا کثر وہ اپنی تقریروں میں دہراتے تھے: اے دل تمام نفع ہے سودائے عشق میں اک جان کا زیاں ہے سو ایسا زیاں نہیں وہ کہتے تھے اردو میری ضرورت ہے، میں اردو کی ضرورت نہیں ہوں۔ ان کی شخصیت اتنی بلند تھی کہ ان سے قریب ہونے کا ارمان یا ان کے ذریعہ انعام واعزازپانے کی خواہش کرنے والوں کی کمی کبھی نہیں رہی۔ اوراپنا مطلب پورا ہوجانے کے بعد انہیں چرکہ یاہزیمیت دینے والوں کی بھی کمی نہ تھی۔ معلوم نہیں ان کا سینہ 56 انچ کا تھا کہ نہیں لیکن وہ نڈر بلوچ تھے اور دشمنوں کو ان کی کرنسی میں جواب دینے کی اہلیت بھی ان میںخوب تھی۔ بدخواہ انہیں مصروف رکھتے تھے اور وہ اپنے بدخواہوں کو۔بقول یوسف ناظم وہ ’’نا۔رنگ‘‘ تھے جس پر کوئی رنگ نہیں چڑھتا ۔ طاقتور ارادوں کے آدمی تھے۔ اپنی تقریروں میںیہ بات اکثر کہتے تھے ’’خدا کا شکر اداکرتاہوں کہ اس نے مجھے حاسد نہیں محسود بنایا ہے‘‘۔ موصوف میں ایک خوبی یہ بھی تھی کہ کسی سے اپنے آزمودہ دوستوں کی بُرائی سننا گوارا نہیںکرتے تھے۔ (میں اس کا گواہ ہوں)۔ گوپی چند نارنگ 45 اردو اور 15 انگریزی و ہندی کتابوں کے مصنف ہیں۔ ان کی سبھی کتابوں کا ایک نظر یا ایک نظریہ سے جائزہ نہیں لیاجاسکتا۔ سب کے موضوع الگ ہیں اورہر کتاب قاری سے ایک الگ ویژن کا مطالبہ کرتی ہے۔ ان میں املانامہ جیسی کتاب ہے تو ہندوستانی قصوں سے ماخوذ اردو مثنویاں بھی ہے۔ فکشن کے فن سے متعلق ’’اردو افسانہ روایت اورمسائل‘‘ ، ’’ادب کا بدلتا منظر نامہ‘‘ ، ’’ادبی تنقید اور اسلوبیات ‘‘، ’’امیر خسرو کاہندوی کلام‘‘ ، ’’سانحۂ کربلا بطور شعری استعارہ‘‘ ، ’’ تحریکِ آزادی اورہندوستان کی اردو شاعری‘‘، ’’ترقی پسندی، جدیدیت، مابعد جدیدیت‘‘ ،’’دلی دکنی ، تصوف، انسانیت اور محبت کا شاعر‘‘، ’’انیس شناسی‘‘ ، ’’بیسویں صدی میں اردو ادب‘‘، ’’اطلاقی تنقید ‘‘، ’’فراق گورکھپوری ‘‘، ’’سجاد ظہیر‘‘، ’’اقبال کا فن‘‘، ’’فکشن شعریات‘‘ ، ’’ اردو غزل اور ہندوستانی ذہن وتہذیب‘‘ ان سب کتابوں کا مطالعہ زمانے نے الگ الگ ذہن سے کیا۔ حالیہ کتابوں میں ’’غالب ، معنی آفرینی، جدلیاتی وضع ، شونیتا اور شعریات‘‘ مطالعۂ غالبیات کے کئی نئے رخ دکھاتی ہے۔ کسی متن کا تجزیہ کرتے ہوئے وہ اس کے صرف نصابی یا جامعاتی پہلو پر غور کرنے تک خود کو محدود نہیں رکھتے تھے۔ معنی کی تلاش میں وقت کی حر َکی صفات ان کے پیش نظر ہوتی تھیں۔ اس میں شک نہیں کہ اطلاقی تنقید وقت کی نئی کروٹوں کے ساتھ لفظوں کے مفاہیم بدل سکتی ہے ۔ اگر اس نظریہ پر گوپی چند نارنگ کاربند نہ ہوتے توغالب ، معنی آفرینی ، جدلیاتی وضع شونیتا جیسی کتاب نہیں لکھ سکتے تھے۔ یہ مانا کہ لکھا ہوا لفظ ٹھہری ہوئی شے بن جاتاہے ۔ لیکن ضروری نہیں کہ معنی کے پاؤں میں وقت بیڑی ڈال دے۔ وقت زبان کا تناظر بدل سکتاہے (اور بدل بھی دیتا ہے) وہ معنی کی کروٹ بدل سکتا ہے۔ نظریہ ساز نقاد اگر اعلیٰ محقق بھی ہوتو تاریخی حقائق پرنئی شعوری نگاہ ڈال کر متن سے نئے مفاہیم برآمد کر لیتاہے۔ نارنگ اس جدید نظریہ کے حامی تھے کہ لکھاری نہیں لکھتا ، متن لکھتا ہے ۔’’ادب کا بدلتا منظرنامہ‘‘ اور ’’تحریک آزادی اور ہندوستان کی اردو شاعری ‘‘ یا ’’ ترقی پسندی ، جدیدیت، مابعد جدیدیت ‘‘جیسی کتابیں جو نارنگ نے لکھیں اس کے پیچھے ان کا تاریخی حقائق کا از سر نو جائزہ لینے کاجتن شامل ہے۔ بڑے تنقیدی کام یا کارنامے سکّہ بند ذہنوں کا نتیجہ نہیں ہوتے۔ نارنگ کے مضامین چاہے امیرخسرو پرہوں، میر وغالب پر ہوں ، دلی کی کرخنداری بولی پر ہوں ، ساحر لدھیانوی کے بھجنوں پر ہوں ، فراق، فیض ، قرۃالعین حیدر، انتظار حسین پر ہوں ادب میں سموئی اور سوئی ہوئی تہذیب و ثقافت کو جگاتے ہیں۔ ان پر کئی رسالوں کے خاص شمارے نکلے اور کتابیں شائع ہوئیں۔ لیکن انشاء کا خاص نمبر سب سے زیادہ اہتمام سے نکلا ۔اورعالمگیر اہمیت کا حامل ہے۔ اندیشہ اب اس کا ہے کہ اس زمانے کے آخری بیدار ذہن اردو نقاد کے دنیا سے کوچ کرجانے کے بعد اردو تنقید خدانہ کرے کہ لمبی نیند سوجائے۔ اردو زبان وادب کو اس دولتِ بیدار کے بخشندہ گوپی چند نارنگ کے کارناموں اور یادوں کو سلام !۔
مزاحیہ غزل کے خد و خال
محمد عارف
بھارت کا آئین
ڈائرکٹر قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی
دستور
شمارہ نمبر۔213
خالد مصطفی صدیقی
ہما، نئی دہلی
شمارہ نمبر-213
سید اختر مہدی
Jul, Sep 2009راہ اسلام
شمارہ نمبر-213-214
حکیم محمد مسیح الدین صدیقی
Apr 1999حق و باطل
213
سید وقارالدین
Aug 2000رہنمائے دکن
عابد علی خاں ایجوکیشنل ٹرسٹ، حیدرآباد
Aug 1960سیاست
شمارہ نمبر-212, 213
ادریس دہلوی
شبستاں
منشی دیا نرائن نگم
Dec 1920زمانہ، کانپور
علی اکبر
لغت نامہ
خان لطیف محمد خان
Aug 2006منصف
صہبا لکھنوی
Dec 1987افکار، کراچی
محمد علی
Sep 1926ہمدرد، دہلی
سید محمد جعفری
Sep 1928ہمدرد، دہلی
شمس الرحمن فاروقی
Jan 1998شب خون
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books