aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "اپریل"
امپریل پریس، دہلی
ناشر
کہتے ہیں کہ نو اپریل کی شام کو ڈاکٹر ستیہ پال اور ڈاکٹر کچلو کی جلا وطنی کے احکام ڈپٹی کمشنر کو مل گئے تھے۔ وہ ان کی تعمیل کے لیے تیار نہیں تھا۔ اس لیے کہ اس کے خیال کے مطابق امرتسر میں کسی ہیجان خیز بات کا خطرہ نہیں تھا۔ لوگ پرامن طریقے پر احتجاجی جلسے وغیرہ کرتے تھے۔ جن سے تشدد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ میں اپنی آنکھوں دیکھا حال بیان کرتا ہو...
اپریل کا مہینہ تھا۔ بادام کی ڈالیاں پھولوں سے لد گئی تھیں اور ہوا میں برفیلی خنکی کے باوجود بہار کی لطافت آ گئی تھی۔ بلند و بالا تنگوں کے نیچے مخملیں دوب پر کہیں کہیں برف کے ٹکڑے سپید پھولوں کی طرح کھلے ہوئے نظر آرہے تھے۔ اگلے ماہ تک یہ سپید پھول اسی دوب میں جذب ہو جائیں گے اور دوب کا رنگ گہرا سبز ہو جائے گا اور بادام کی شاخوں پر ہرے ہرے بادام پکھر...
اور جب ایک روز استاد منگو نے کچہری سے اپنے تانگے پر دو سواریاں لادیں اور ان کی گفتگو سے اسے پتہ چلا کہ ہندستان میں جدید آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اس کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔دو مارواڑی جو کچہری میں اپنے دیوانی مقدمے کے سلسلے میں آئے تھے گھر جاتے ہوئے جدید آئین یعنی انڈیا ایکٹ کے متعلق آپس میں بات چیت کر رہے تھے، ’’سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔ یا ہر چیز بدل جائے گی؟‘‘
جانور وں میں گدھا سب سے بیوقوف سمجھا جاتاہے۔ جب ہم کسی شخص کوپرلے درجہ کا احمق کہنا چاہتے ہیں تو اسے گدھا کہتے ہیں۔ گدھاواقعی بیوقوف ہے۔ یا اس کی سادہ لوحی اور انتہا درجہ کی قوتِ برداشت نے اسے یہ خطاب دلوایا ہے۔ اس کا تصفیہ نہیں ہوسکتا۔ گائے شریف جانور ہے۔ مگر سینگ مارتی ہے۔ کتّا بھی غریب جانور ہے لیکن کبھی کبھی اسے غصّہ بھی آجاتا ہے۔ مگر گدھے کو کبھی غصّہ نہیں آتا جتنا جی چاہے مارلو۔چاہے جیسی خراب سڑی ہوئی گھاس سامنے ڈال دو۔ اس کے چہرے پر ناراضگی کے اثار کبھی نظر نہ آئیں گے۔ اپریل میں شاید کبھی کلیل کرلیتا ہو۔ پر ہم نے اسے کبھی خوش ہوتے نہیں دیکھا۔ اس کے چہرے پر ایک مستقل مایوسی چھائی رہتی ہے سکھ دکھ،نفع نقصان سے کبھی اسے شاد ہوتے نہیں دیکھا۔ رشی منیوں کی جس قدر خوبیاں ہیں۔ سب اس میں بدرجہ اتم موجود ہیں لیکن آدمی اسے بیوقوف کہتاہے۔ اعلیٰ خصلتوں کی ایسی توہین ہم نے اور کہیں نہیں دیکھی۔ممکن ہے دنیا میں سیدھے پن کے لیے جگہ نہ ہو۔
جنوری فروری مارچ میں پڑے گی سردیاور اپریل مئی جون میں ہو گی گرمی
अप्रैलاپریل
April
ناول نمبر: اپریل-جون: شمارہ نمبر-006
منصور خوشتر
دربھنگہ ٹائمز
اپریل،مئی،جون
اسلم پرویز
اردو ادب، دہلی
اپریل: شمارہ نمبر-004
شیخ محمد عبداللہ
خاتون، علی گڑھ
داستان زبان اردو : اپریل : شمارہ نمبر-002
مولوی عبدالحق
اردو، کراچی
اپریل
الیاس دہلوی
Apr 1947کھلونا
اپریل : شمارہ نمبر-002
اردو، اورنگ آباد دکن
شمارہ نمبر-001: اپریل
میجر افسر جنگ افسرالدولہ
افسر
اقبال ریویو،پاکستان
اقبال ریویو
Apr 2000اردو ادب، دہلی
اشاریۂ اقبالیات
اختر النساء
اشاریہ
اپریل-جون-شمارہ نمبر-004
خالد اقبال یاسر
ادبیات
اپریل-جون: شمارہ نمبر-035
جاوید انور
تحریک ادب
مارچ۔اپریل
سرور بارہ بنکوی
آب و گل، ڈھاکہ
اپریل : شمارہ نمبر-016
سید امتیاز علی تاج
پھول
اپریل : شمارہ نمبر-066
بمبئی میں جون کے مہینے سے بارش شروع ہو جاتی ہے اور ستمبر کے وسط تک جاری رہتی ہے۔ پہلے دو ڈھائی مہینوں میں اس قدر پانی برستا ہے کہ اسٹوڈیو میں کام نہیں ہوسکتا۔ ’’بن کی سندری‘‘ کی شوٹنگ اپریل کے اواخر میں شروع ہوئی تھی۔ جب پہلی بارش ہوئی تو ہم اپنا تیسرا سیٹ مکمل کررہے تھے۔ ایک چھوٹا سا سین باقی رہ گیا تھا جس میں کوئی مکالمہ نہیں تھا، اس لیے بارش میں...
آنسو پونچھ کر اور دل کو مضبوط کرکے میز کے سامنے آبیٹھے، دانت بھینچ لئے، نکٹائی کھول دی، آستینیں چڑھا لیں، لیکن کچھ سمجھ میں نہ آيا کہ کریں کیا؟ سامنے سرخ، سبز، زرد سبھی قسم کی کتابوں کا انبار لگا تھا۔ اب ان میں سے کون سی پڑھیں؟ فیصلہ یہ ہوا کہ پہلے کتابوں کو ترتیب سے میز پر لگادیں کہ باقاعدہ مطالعہ کی پہلی منزل یہی ہے۔بڑی تقطیع کی کتابوں کو علیحدہ رکھ دیا۔ چھوٹی تقطیع کی کتابوں کو سائز کے مطابق الگ قطار میں کھڑا کردیا۔ ایک نوٹ پیپر پر ہر ایک کتاب کے صفحوں کی تعداد لکھ کر سب کو جمع کیا۔ پھر ۱۵؍اپریل تک کے دن گنے۔ صفحوں کی تعداد کو دنوں کی تعداد پر تقسیم کیا۔ ساڑھے پانچ سو جواب آیا، لیکن اضطراب کی کیا مجال جو چہرے پر ظاہر ہونے پائے۔ دل میں کچھ تھوڑا سا پچھتائے کہ صبح تین بجے ہی کیوں نہ اُٹھ بیٹھے لیکن کم خوابی کے طبی پہلو پر غور کیا۔ تو فوراً اپنے آپ کو ملامت کی۔ آخرکار اس نتیجے پر پہنچے کہ تین بجے اُٹھنا تو لغوبات ہےالبتہ پانچ، چھ، سات بجے کے قریب اُٹھنا معقول ہوگا۔ صحت بھی قائم رہے گی اور امتحان کی تیاری بھی باقاعدہ ہوگی۔ ہم خرماو ہم ثواب۔
پڑ جائیں مرے جسم پہ لاکھ آبلہ اکبرؔپڑھ کر جو کوئی پھونک دے اپریل مئی جون
ہم دسمبر میں شاید ملے تھے کہیں۔۔!!جنوری، فروری، مارچ، اپریل۔۔۔۔
اس گفتگو کے بعد اسی شام ڈاکٹر شیدی بھاگے بھاگے میرے پاس آئے اور مجھے لپٹا لیا۔ ’’زیبا، زیبا، مجھے مبارک باد دو۔ تمہارے چچا نے اجازت دے دی۔‘‘پندرہ دن بعد اپریل کے آخری ہفتے کی ایک خوشگوار شام ہمارا عقد نہایت خاموشی سے ہو گیا۔ شیدی کہہ رہے تھے کہ میں اس شام اپنے لمبے دامنوں والے عروسی لباس میں نارنگی اور موتیا کے پھولوں میں لپٹی لپٹائی ایسی معلوم ہو رہی تھی جیسے یونانیوں کے حسن وعشق کی دیوی۔ہم نے اپنے ’’ایام عروسی‘‘ ایک چمکیلے ساحل پر بسر کیے۔ وہ میری زندگی کا انتہائی پر لطف اور رنگین زمانہ تھا۔ مجھے اپنی نابینائی کا زیادہ صدمہ نہ رہا تھا مگر میں محسوس کر رہی تھی کہ شیدی کی دلی تمنا یہ تھی کہ میری بصارت بحال ہو جائے اور ایک چاہنے والے کی یہی تمنا ہونی چاہیے۔
عجیب رت کے عجیب دن ہیںنہ دھوپ میں سکھ
پدما میری ایک خاموش طبع محنتی لڑکی تھی جو بڑی لگن سے اپنے فرائض منصبی انجام دیتی تھی۔ مہینے میں ایک آدھ بار سنیما دیکھ آتی تھی۔ اور اوقات فرصت میں دوستوں کو چینی کھانے پکا کر کھلانا اس کا مرغوب مشغلہ تھا۔ ایک سیکنڈ ہینڈ کار خریدنے کے لیے روپیہ جمع کر رہی تھی۔ اور سائیکل پر دفتر آتی جاتی تھی۔ ایک بالکل نارمل قسم کی سیدھی سادی ساؤتھ انڈین لڑکی۔اپریل ۱۹۶۶ء کے ایک خوشگوار دن، لیباریٹری میں کام کرتے کرتے پدما نے گھڑی پر نظر ڈالی صبح وہ جلدی میں ناشتہ کیے بغیر آگئی تھی۔ اور اب اسے سخت بھوک لگ رہی تھی ایک بجنے والا تھا۔ چند منٹ بعد وہ بیگ اٹھا کر باہر آئی۔ سائیکل پر بیٹھی اور اپنے کاٹج کی سمت روانہ ہوئی۔
خیر، یہاں تو معاملہ سگرٹ ہی پر ٹل گیا، ورنہ ہمارا تجربہ ہے کہ سو فی صد حضرات اور ننانوے فیصد خواتین تصویر میں اپنے آپ کو پہچاننے سے صاف انکار کر دیتے ہیں۔ باقی رہیں ایک فی صد۔ سو انہیں اپنے کپڑوں کی وجہ سے اپنا چہرہ قبُولنا پڑتا ہے۔ لیکن اگراتفاق سے کپڑے بھی اپنے نہ ہوں تو پھر شوقیہ فوٹو گرافر کو چاہیے کہ اور روپیہ برباد کرنے کا کوئی اور مشغلہ تیار...
’’کیلنڈر سے اپریل، مئی ، جون، جولائی ، اگست، ستمبر کے مہینے ہمیشہ کے لئے خارج کر دیئے جائیں، تو واللہ! لاہور کا جواب نہیں!‘‘’’روم؟‘‘
ماہ اپریل میں امتحاں آئیں گےرات دن پڑھ کے ہم پاس ہو جائیں گے
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books