aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "قوم پرست"
قوم پرست پریس، بریلی
ناشر
تمہارے کیو ٹیکس کا شیڈ بہت پیارا ہے۔ ناچ کے تہوار کے بعد بھی ہم ملا کریں گے نا۔ تم لکھنؤ ہی میں رہتی ہونا؟ لاپلاز میں۔۔۔ مجھے تم بہت اچھی لڑکی معلوم ہورہی ہو۔ حالاں کہ عموماً غیر ملکی مجھے ذرا نہیں بھاتے (کیوں کہ ہم لوگ سخت قوم پرست ہیں)۔ میرا بھائی بھی تمہیں بہت پسند کرتا ہے۔
الف : بارود کے دھویں سے میرا دم گھٹا جارہا ہے۔ مجھے ہر شے میں بارودکی مہک آرہی ہے!ب : ہیومینسٹ ، کویکر، ویداینتسٹ، تھیوسوفسٹ، برطانوی لبرل، لفٹ ونگ انٹلکچوئیل، امن پرست، روشن خیال مولانا جو روس میں اسلام پر مضمون لکھتے ہیں،اسکول ٹیچر، نفسیات کے ڈاکٹر ، یونی ورسٹی کے پروفیسر جو کم تنخواہیں لے کر علم اوڑھتے بچھاتے اسی طمانیت میں زندگیاں ختم کردیتے ہیں کہ وہ غالباً نوبل پروفیشن میں تھے، اور وہ جن کو (چونکہ انہوں نے ہائیڈروجن بم کے خلاف احتجاج کیا) سنکی اور ہم سفر اور دشمن کے ایجنٹ اور مفسد سمجھا گیا اور بوڑھے یہودی سائنس دان، اور بوڑھا مسلمان عالم جو قوم پرست ہے اور اعظم گڑھ میں، یا بہرائچ میں ، یا گورکھ پور میں چپ چاپ بیٹھا ہے، اور عورتیں جن کے لڑکے۔۔۔
’’کتنا سب لوگ بولا، ہم بھی بولا۔۔۔ بابا چلا جاؤ‘‘، سکھو بائی رو پڑیں۔ ’’پن نہیں۔ ہم کو بولا سکھو ڈالنگ تیرے کو چھوڑ کر نہیں جائے گا۔‘‘ نہ جانے سکھو بائی کو روتے دیکھ کر مجھے کیا ہوگیا۔ میں بالکل بھول گئی کہ صاحب ایک غاصب قوم کا فرد ہے جس نے فوج میں بھرتی ہو کر میرے ملک کی غلامی کی زنجیروں کو چوہیرا کر دیا تھا۔ جس نے میرے ہموطن بچوں پر گولیا چلائی تھیں۔ نہتے لوگوں پر مشین گنوں سے آگ برسائی تھی۔ برٹش سامراج کے ان گھناؤنے کل پرزوں میں سے تھا جس نے میرے دیس کے جانبازوں کا خون سڑکوں پر بہایا تھا۔ صرف اس قصور میں کہ وہ اپنا حق مانگتے تھے۔ مگر مجھے اس وقت کچھ یاد نہ رہا۔ سوائے اس کے کہ سکھوبائی کا ’مرد‘ پاگل خانہ میں تھا۔ مجھے اپنے جذباتی ہونے پر بہت دک تھا کیونکہ ایک قوم پرست کو جابر قوم کے ایک فرد سے قطعی کسی قسم کی ہمدردی یا لگاؤ نہ محسوس کرنا چاہیے۔
اب یہ پوچھو کہ یہ میاں اعزاز کے پلّے باندھنا نصیبے کا کھلنا سمجھا جارہا تھا۔ لیکن کشوری نے بھی طے کر لیا تھا کہ عین بیاہ کے موقع پر وہ انکار کردے گی۔ برات میں ایک ہڑبونگ مچ جائے گی۔ وہ جیسا کہ سوشل فلموں میں ہوتا ہے کہ عین وقت پر جب پھیرے پڑنے والے ہوں تو اصل ہیرو ہسپتال یا جیل سے چھٹ کر پہنچ جاتا ہے اور گرج کر کہتا ہے کہ ٹھہر جاؤ یہ شادی نہیں ہو...
اس قسم کی خبریں آئے دن اخباروں میں آپ بھی پڑھتے ہوں گے جن میں ملک کے کسی نہ کسی حصے میں ’’آرگنائزر‘‘، ’’فلم انڈیا‘‘ اور ’’پانجنیہ‘‘ جیسے قوم پرست اخباروں کے پڑھنے والوں کے حسب معمول جوش میں آجانے کی وجہ سے کسی مار دھاڑ والی فلم کے انداز پر فرقہ وارانہ فساد، لسانی دنگے یا علاقائی جو تم پیزار کی نوبت آجاتی ہے۔ مذہب کے نام پر ہونے والے ان غیر مذہبی اور خالص سیاسی یک طرفہ فسادات میں یہ فری اسٹائل شقی قوم پرست، عورتوں کو اس طرح بے عزت اور اغوا، بچوں کو یتیم اور یسیر، جوانوں کو حتم اور بوڑھوں کو زندہ درگورکرتے، ان کے مکانوں اور دکانوں کو لوٹنے کے بعد، مکان اور دکان کے ساتھ انہیں بھی زندہ جلادیتے اوریہ سب کچھ اس معصومیت کے ساتھ کرتے ہیں کہ بے چارے جے پرکاش نارائن جیسے سرودیے تک کو مظلوم میں ظالم کی جھلک نظر آنے لگتی ہے۔
شاعری میں وطن پرستی کے جذبات کا اظہار بڑے مختلف دھنگ سے ہوا ہے ۔ ہم اپنی عام زندگی میں وطن اور اس کی محبت کے حوالے سے جو جذبات رکھتے ہیں وہ بھی اور کچھ ایسے گوشے بھی جن پر ہماری نظر نہیں ٹھہرتی اس شاعری کا موضوع ہیں ۔ وطن پرستی مستحسن جذبہ ہے لیکن حد سے بڑھی ہوئی وطن پرستی کس قسم کے نتائج پیدا کرتی ہے اور عالمی انسانی برادری کے سیاق میں اس کے کیا منفی اثرات ہوتے ہیں اس کی جھلک بھی آپ کو اس شعری انتخاب میں ملے گی ۔ یہ اشعار پڑھئے اور اس جذبے کی رنگارنگ دنیا کی سیر کیجئے ۔
قوم پرست طالب علم
محمد عبد الغفار
قوم پرست
دویجیندر لال رائے
ڈراما
مدحت پاشا
میرزا محمد اسحٰق بیگ
سوانح حیات
مولانا ابوالکلام آزاد
فاروق قریشی
سدرشن
ڈرامہ
مولانا ابوالکلام آزاد اور قوم پرست مسلمانوں کی سیاست
پرولتاری بین الاقوامیت اور بورژوا قوم پرستی
مارکس اینگس لینن
برصغیر پاک و ہند میں قوم پرستی کی تحریکیں اور ان کی تاریخ
عبد اللہ ملک
تاریخ
جب ہماری زبان کا نام ’’ہندی‘‘سے ’’اردو‘‘بنا دیا گیا تو انگریزوں اور انگریزوں کے حمایتی ’’قوم پرست‘‘ ہندوؤں کی توجہ رسم خط پر زیادہ زوروشور سے ہوئی۔ سب جانتے ہیں کہ اپنی خوبصورتی، کم جگہ میں زیادہ الفاظ کھپا دینے کی صلاحیت، فنکارانہ تنوع کے امکانات اور فارسی، عربی، سنسکرت سے اس کے ربط کے سبب سے اردو کا رسم الخط ہندوستانی تہذیب کی شانوں میں ایک شان ہ...
ڈالمیا مزید کہتی ہیں کہ ’’گزشتہ صدی کی ۱۸۶۱تا ۱۸۷۰ والی دہائی آتے آتے ’’ہندی کے قوم پرست حامی‘‘ جو ’’ہندی کے آغاز کے بارے میں اساطیر اورشجرے خلق کرنے میں مصروف تھے‘‘، اس بات کو نہایت ’’لغو‘‘ قرار دیتے ہیں کہ ’’ان کی زبان کوئی مصنوعی، موضوعی شے ہے۔‘‘ انہیں اس بات پر یقین تھا کہ ’’ہندی، شمالی ہند کی وسعتوں میں، تمام گھروں میں بولی جاتی تھی، اور یہ صو...
کمبخت بعض تو دو غزلے، سہ غزلے لکھ لائے تھے۔ کئی ایک نے فی البدیہہ قصیدے کے قصیدے پڑھ ڈالے۔ وہ ہنگامہ گرم ہوا کہ ٹھنڈا ہونے میں نہ آتا تھا۔ ہم نے کھڑکی میں سے ہزاروں دفعہ ’’آرڈر آرڈر‘‘ پکارا لیکن کبھی ایسے موقعوں پر پردھان کی بھی کوئی نہیں سنتا۔ اب ان سے کوئی پوچھئے کہ میاں تمہیں کوئی ایسا ہی ضروری مشاعرہ کرنا تھا تو دریا کے کنارے کھلی ہوا میں جاکر ...
کب سے چین جانے کی آرزو تھی!۱۹۲۰ء میں، میں ہانگ کانگ گیا۔ مگر وہاں سے اندرون چین نہ جاسکا کیونکہ ہانگ کانگ کینٹن ریلوے پر جاپانی بم برس رہے تھے۔ وہاں سے شنگھائی بھی جاپانی حملہ آوروں سے گھرا ہواتھا۔ برطانوی شنگھائی میں بھی جہاں میں ٹھہرا ہوا تھا، رات کو جاپانی بموں کے دھماکے سنائی دیتے تھے۔ کمیونسٹوں اور دوسرے قوم پرست ترقی پسندوں کے دباؤ سے آخرکار چیانگ کائی شیک جاپانی سامراجیوں کا مقابلہ کرنے پر مجبور ہوگیا تھا۔ سارے ملک کے کونے کونے میں جہاں تک بھی جاپانیوں کا قبضہ ہوا تھا وہاں انقلابی کسانوں کی باقاعدہ ’گوریلا‘ فوجیں دشمن پر اچانک اور پے درپے حملہ کر رہی تھیں۔ شنگھائی سے پندرہ بیس میل پر بھی’’ گوریلا‘‘ دستے کام کر رہے تھے۔ میں ان کے کتنا قریب تھا اور کتنا دور!
15 اگست 1947ء کو امرتسر آزاد ہوا۔ پڑوس میں لاہور جل رہا تھا مگر امرتسر آزاد تھا اور اس کے مکانوں، دکانوں بازاروں پر ترنگے جھنڈے لہرا رہے تھے، امرتسر کے قوم پرست مسلمان اس جشن آزادی میں سب سے آگے تھے، کیونکہ وہ آزادی کی تحریک میں سب سے آگے رہے تھے۔ یہ امرتسر اکالی تحریک ہی کا امرت سر نہ تھا یہ احراری تحریک کا بھی امرتسر تھا۔ یہ ڈاکٹر ستیہ پال کا ام...
اس معاملے میں مہاتما گاندھی اور اقبال بھی ان کے بعد ہیں۔ ہونا بھی چاہئے، کیونکہ اکبر کی پیدائش 1846 کی ہے، مہاتما گاندھی 1869 میں پیدا ہوئے اور اقبال 1877 میں۔ میں نے ایک مضمون میں اسی تہذیبی بحران کا ذکر کیا ہے جس کا احساس اکبر کو تھا اور جس کی بنا پر انھوں نے انگریزی سامراج کی علامتوں کو مطعون کیا۔ آج کی صحبت میں اس سے ذرا مختلف مضمون بیان کرنا ...
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ پرانا یا نیا کوئی بھی دوسرا افسانہ نگار منٹو کی اہمیت کا انکاری نہیں ہے۔ منٹو کے جیسے دعووں کی ہمت بھی کسی نے نہیں دکھائی، بعد کا کوئی افسانہ نگار منٹو کی جیسی شہرت اور مقبولیت بھی نہیں رکھتا۔ یہ حقیقت بھی اہم ہے کہ منٹو کے معاصرین میں ایک اوپندر ناتھ اشک نے ہی منٹو کو اپنے حریف کے طور پر دیکھا اور منٹو کے بعد آنے والوں می...
مزید تفصیلات کے لیے لارڈ میکالے کی (۱۸۳۵کی) تعلیمی یادداشت موجود ہے جس کی حیثیت ایک دستاویزی ماخذ کی ہے۔ یہ ایک جارحانہ ثقافتی حملے کا اعلان تھا اور اس کی تہہ میں برطانوی حکومت کے سیاسی، اقتصادی مقاصد چھپے ہوئے تھے۔ ہندوستانیو ں کا ایک قوم پرست حلقہ ان مقاصد کو پہچانتے ہی تہذیبی، سیاسی، اقتصادی، معاشرتی، ہر سطح پر انگریزی تعلیم سے منحرف اور بر طانو...
قابل کو کابل کہتے ہیں۔ بھٹو انہیں اس لیے ناپسند نہیں کہ اس کی وجہ سے انہیں اندر جانا پڑا بلکہ اس وجہ سے کہ بیگم نسیم کو باہر آنا پڑا۔ تب سے بیگم نسیم ولی خان باہر ہیں اور خان صاحب اندر۔ کہتے ہیں بھٹو دور میں تقریر پر پابندی تھی۔ حالانکہ یہ درست نہیں، تقریر پر کب پابندی تھی۔ مقرر پر تھی۔ بھارت سے اس کی زبان میں بات کرتے ہیں جب کہ پاکستان سے پشتو میں...
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی تاریخ میں ۱۹۳۷ء یادگار رہےگا۔ کیونکہ اس سال ہندوستانی مسلمانوں کے واحد دارالعلوم میں سرکاری طو رپر مخلوط تعلیم کی ابتدا ہوئی۔ یہ قصہ بھی عجیب ہے کہ کس طرح یونیورسٹی کے ارباب حل و عقد ا س سنسنی خیز تبدیلی کے لیے قانوناً مجبور کیے گئے۔ ننانوے سال پہلے ہندوستان کے مشہور قوم پرست جرنلسٹ اور سماجی کارکن سلیم الزماں صحافی نے مسل...
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books